سورہ قریش : زمانہ نزول، تاریخی پس منظر، مقصود کلام - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

نام : پہلی ہی آیت کے لفظ قریش کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانہ نزول :


اگرچہ ضحاک اور کلبی نے اس کو مدنی کہا ہے، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس کے مکی ہونے پر متفق ہے اور اس کے مکی ہونے کی مکمل شہادت خود اس سورت کے الفاظ رب ھٰذا البیت (اس گھر کے رب) میں موجود ہے۔ اگر یہ مدینہ میں نازل ہوتی تو خانہ کعبہ کے لیے "اس گھر" کے الفاظ کیسے موزوں ہو سکتے تھے؟ بلکہ اس کے مضمون کا سورۃ فیل کے مضمون سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ غالباً اس کا نزول اس کے متصلاً بعد ہی ہوا ہوگا۔ دونوں سورتوں کے درمیان اسی مناسبت کی بنا پر سلف میں سے بعض بزرگ اس بات کے بھی قائل ہوئے ہیں کہ یہ دونوں دراصل ایک ہی سورت ہیں۔ اس خیال کو تقویت ان روایات کی بنا پر ملی ہے کہ حضرت ابی بن کعب کے مصحف میں یہ دونوں ایک ساتھ لکھی ہوئی تھیں اور درمیان میں بسم اللہ مرقوم نہ تھی۔ نیز یہ کہ حضرت عمر نے ایک مرتبہ کسی فصل کے بغیر ان دونوں کو ملا کر نماز میں پڑھا تھا لیکن یہ رائے اس وجہ سے قابل قبول نہیں ہے کہ صحابہ کرام کی عظیم تعداد کے تعاون سے سیدنا عثمان (رض) نے قرآن مجید کے جو نسخے سرکاری طور پر لکھوا کر بلاد اسلام کے مراکز بھجوائے تھے ان میں دونوں کے درمیان بسم اللہ درج تھی اور اس وقت سے آج تک تمام دنیا کے مصاحف میں یہ الگ الگ سورتوں کی حیثیت سے ہی لکھی جاتی رہی ہیں۔ مزید برآں دونوں سورتوں کا انداز بیاں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہے کہ یہ علانیہ دو الگ سورتیں نظر آتی ہیں ۔

تاریخی پس منظر :


اس سورت کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے جس سے اس کے مضمون اور سورۃ فیل کے مضمون کا گہرا تعلق ہے۔ قریش کا قبیلہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد اعلٰی قصی بن کلاب کے زمانے تک حجاز میں منتشر تھا۔ سب سے پہلے قصی نے اس کو مکے میں جمع کیا اور بیت اللہ کی تولیت اس قبیلے کے ہاتھ میں آ گئی۔ اسی بنا پر قصی کو مجمّع (جمع کرنے والے) کا لقب دیا گیا۔ اس شخص نے اپنے اعلٰی درجہ کے تدبر سے مکہ میں ایک شہری ریاست کی بنیاد رکھی، اور جملہ اطراف عرب سے آنے والے حاجیوں کی خدمت کا بہترین انتظام کیا جس کی بدولت رفتہ رفتہ عرب کے تمام قبائل اور تمام علاقوں میں قریش کا اثر و رسوخ قائم ہوتا چلا گیا۔ قصی کے بعد اس کے بیٹوں عبد مناف اور عبد الدار کے درمیان مکہ کی ریاست کے مناصب تقسیم ہوگئے، مگر دونوں میں سے عبد مناف کو اپنے باپ ہی کے زمانے میں زیادہ ناموری حاصل ہوچکی تھی اور عرب میں اس کا شرف تسلیم کیا جانے لگا تھا۔ عبد مناف کے چار بیٹے تھے ہاشم، عبد شمس، مطلب اور نوفل۔ ان میں سے ہاشم عبد المطلب کے والد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پردادا کو سب سے پہلے یہ خیال پیدا ہوا کہ اس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لیا جائے جو عرب کے راستے بلاد مشرق اور شام و مصر کے درمیان ہوتی تھی اور ساتھ ساتھ اہل عرب کی ضروریات کا سامان بھی خرید کر لایا جائے تاکہ راستے کے قبائل ان سے مال خریدیں اور مکے کی منڈی میں اندرون ملک کے تجار خریداری کے لیے آنے لگیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران کی ساسانی حکومت اس بین الاقوامی تجارت پر اپنا تسلط قائم کرچکی تھی جو شمالی علاقوں اور خلیج فارس کے راستوں سے رومی سلطنت اور بلاد مشرق کے درمیان ہوتی تھی۔ اس لیے جنوبی عرب سے بحیرہ احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ جو تجارتی راستہ شام و مصر کی طرف جاتا تھا اس کا کاروبار بہت چمک اٹھا تھا۔ دوسرے عربی قافلوں کی بہ نسبت قریش کو یہ سہولت حاصل تھی کہ راستے کے تمام قبائل بیت اللہ کے خدام ہونے کی حیثیت سے ان کا احترام کرتے تھے۔ حج کے زمانے میں نہایت فیاضی کے ساتھ حاجیوں کی جو خدمت قریش کے لوگ کرتے تھے اس کی بنا پر سب ان کے احسان مند تھے۔ انہیں اس امر کا کوئی خطرہ نہ تھا کہ راستے میں کہیں ان کے قافلوں پر ڈاکہ مارا جائے گا۔ راستے کے قبائل ان سے رہگذر کے وہ بھاری ٹیکس بھی وصول نہ کرسکتے تھے جو دوسرے قافلوں سے طلب کیا جاتا تھا۔ ہاشم نے انہیں تمام پہلوؤں کو دیکھ کر تجارت کی اسکیم بنائی اور اپنی اس اسکیم میں اپنے باقی تینوں بھائیوں کو شامل کیا۔ شام کے غسانی بادشاہ سے ہاشم نے، حبش کے بادشاہ سے عبد شمس نے، یمنی امراء سے مطلب نے اور عراق و فارس کی حکومتوں سے نوفل نے تجارتی مراعات حاصل کیں۔ اس طرح ان لوگوں کی تجارت بڑی تیزی سے ترقی کرتی چلی گئی۔ اسی بنا پر یہ چاروں بھائی متجّرین (تجارت پیشہ) کے نام سے مشہور ہوگئے اور جو روابط انہوں نے گرد و پیش کے قبائل اور ریاستوں سے قائم کیے تھے ان کی بنا پر ان کو اصحاب الایلاف بھی کہا جاتا تھا جس کے معنی "الفت پیدا کرنے والوں" کے ہیں۔ اس کاروبار کی وجہ سے قریش کے لوگوں کو شام، مصر، عراق، ایران، یمن اور حبش کے ممالک سے تعلقات کے وہ مواقع حاصل ہوئے، اور مختلف ملکوں کی ثقافت و تہذیب سے براہ راست سابقہ پیش آنے کے باعث ان کا معیار دینش (بینش) اتنا بلند ہوتا چلا گیا کہ عرب کا کوئی دوسرا قبیلہ ان کی ٹکر کا نہ رہا۔ مال و دولت کے اعتبار سے بھی وہ عرب میں سب پر فائق ہوگئے اور مکہ جزیرۃ العرب کا سب سے زیادہ اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ ان بین الاقوامی تعلقات کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ عراق سے یہ لوگ وہ رسم الخط لے کر آئے جو بعد میں قرآن مجید لکھنے کے لیے استعمال ہوا۔ عرب کے کسی دوسرے قبیلے میں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہ تھے جتنے قریش میں تھے۔ انہی وجوہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ قریش قادۃ الناس "قریش لوگوں کے لیڈر ہیں" حوالہ مسند احمد مرویات عمرو بن العاص۔ اور حضرت علی (رض) کی روایت بیہقی میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کان ھٰذا الامر فی حمیر فنزعہ اللہ منہم و جعلہ فی قریش "پہلے عرب کی سرداری قبیلۂ حمیر والوں کو حاصل تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے وہ ان سے سلب کر کے قریش کو دے دی۔" قریش اسی طرح ترقی پر ترقی کرتے چلے جا رہے تھے کہ مکہ پر ابرھہ کی چڑھائی کا واقعہ پیش آ گیا۔ اگر اس وقت ابرھہ اس شہر مقدس کو فتح کرنے اور کعبے کو ڈھا دینے میں کامیاب ہوجاتا تو عرب میں قریش ہی کی نہیں خود کعبہ کی دھاک بھی ختم ہوجاتی۔ زمانۂ جاہلیت کے عرب کا یہ عقیدہ متزلزل ہوجاتا کہ یہ گھر واقعی بیت اللہ ہے۔ قریش کو اس گھر کے خادم ہونے کی حیثیت سے جو احترام پورے ملک میں حاصل تھا وہ یک لخت ختم ہوجاتا۔ مکہ تک حبشیوں کی پیش قدمی کے بعد رومی سلطنت آگے بڑھ کر شام اور مکہ کے درمیان کا تجارتی راستہ بھی اپنے قبضے میں لے لیتی اور قریش اس سے زیادہ خستہ حالی میں مبتلا ہوجاتے جس میں وہ قصی بن کلاب سے پہلے مبتلا تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھایا کہ پرندوں کے لشکروں نے سنگریزی مار مار کر ابرھہ کی لائی ہوئی 60 ہزار حبشی فوج کو تباہ و برباد کردیا، اور مکہ سے یمن تک سارے راستے میں جگہ جگہ اس تباہ شدہ فوج کے آدمی گر گر کر مرتے چلے گئے تو کعبہ کے بیت اللہ ہونے پر تمام اہل عرب کا ایمان پہلے سے بدرجہا زیادہ مضبوط ہوگیا، اور اس کے ساتھ قریش کی دھاک بھی ملک بھر میں پہلے سے زیادہ قائم ہوگئی۔ اب عربوں کو یقین ہوگیا کہ ان لوگوں پر اللہ کا فضل خاص ہے۔ وہ بےکھٹکے عرب کے ہر حصے میں جاتے اور اپنے تجارتی قافلے لے کر ہر علاقے سے گزرتے۔ کسی کی یہ جرات نہ تھی کہ ان کو چھیڑتا۔ انہیں چھیڑنا تو درکنار، ان کی امان میں کوئی غیر قریش بھی ہوتا تو اس سے کوئی تعرض نہ کیا جاتا تھا۔

مقصود کلام :


نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے زمانے میں یہ حالات چونکہ سب ہی کو معلوم تھے، اس لیے ان کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کے چار مختصر فقروں سے صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے جب تم خود اس گھر (خانۂ کعبہ) کو بتوں کا نہیں بلکہ اللہ کا گھر مانتے ہو، اور جب تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں اس گھر کے طفیل یہ امن عطا کیا، تمہاری تجارتوں کو فروغ بخشا اور تمہیں فاقہ زدگی سے بچا کر یہ خوشحالی نصیب فرمائی تو تمہیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔