مختصر تاریخ اردو ترجمۂ قرآن

پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری

بارہویں صدی ہجری میں اردو زبان برصغیر پاک وہند میں نہ صرف ادبی زبان بن کر اُبھر رہی تھی بلکہ کثیر تصنیفات و تالیفات اور تراجم کے باعث ایک عام فہم زبان بھی بنتی جارہی تھی ۔ اگرچہ دکن کی اسلامی ریاستوں میں عرصۂ دراز سے اردو زبان میں عقائد تصوف و اخلاقیات اور فقہی کتابوں کے تراجم ہورہے تھے مگر اردو ترجمۂ قرآن کا آغاز ابھی نہ ہوا تھا۔ شاید اردو کی نشوونما کی ابتداء میں چونکہ ذخیرہئ الفاظ محدود تھا اس لئے ترجمۂ قرآن کی طرف علماء نے قدم نہ اٹھایا۔ دوسری طرف بر صغیر سے عربی زبان کے بعد فارسی زبان بھی تیزی کے ساتھ رخصت ہونے لگی تو عوام تو عوام، خواص کے لئے بھی اب ترجمہ قرآن اردو زبان میںضروری سمجھا جانے لگا چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م1176ھ)جو خود فارسی ترجمہ قرآن کے برصغیرمیں اولین مترجم میں شمار ہوتے ہیں ان کے دو صاحبزادں کو اردو زبان کے ترجمہ قرآن کے اولین مترجم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

شاہ محمد رفیع الدین دہلوی (م 1233ھ/1817ء) نے اردو زبان کا پہلا مکمل لفظی ترجمہ قرآن 1200ھ میں مکمل کیا جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی شاہ محمد عبدالقادر دہلوی (م 1230ھ/1814ء) نے اردو زبان کی تاریخ کا پہلا مکمل بامحاورہ ترجمہ قرآن 1205 ھ /1790ء میں مکمل کیا ۔ یہ دونوں تراجم قرآن تیرھویں صدی ہجری ہی میں شائع ہونا شروع ہوگئے جس کے باعث ان کو اولیت کے ساتھ ساتھ پذیرائی بھی حاصل ہوئی اگرچہ تاریخ میں ان دونوں اردو تراجم قرآن سے قبل کے بھی تراجم پائے جاتے ہیں لیکن یاتو وہ مکمل ترجمہ قرآن نہیں تھے یا مخطوطہ ضائع ہوگئے اس لحاظ سے ان دونوں بھائیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ایک لفظی ترجمہ قرآن کا بانی ہے تو دوسرا با محاورہ ترجمہ قرآن کا حامل ۔

شاہ برادران کے بعد فورٹ ولیم کالج ( قائم شدہ 1214ھ/ 1800ء) نے پہلے انجیل کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا اور پھر 5 مولوی حضرات نے مل کر اردو میں ترجمہ قرآن (1219 ھ /1804ء) میں مکمل کیا ۔

 تیرھویں صدی ہجری میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 25 ترجمہ قرآن اردو زبان میں کئے گئے مگر کسی کو بھی شاہ برادران کی طرح پذیرائی حاصل نہ ہو سکی البتہ سرسید احمدخاں کی تفسیر اور ترجمہ 15 پاروں تک شائع ہو ا تھا اور علی گڑھ کے ہم خیال لوگوں کے درمیان اس کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔



مگر سر سید احمدخاں کے ترجمہ قرآن سے جدید ترجمہ قرآن کا دور شروع ہوتاہے جس میں عام روایت سے ہٹ کر ترجمہ اور تفسیر کی گئی۔ اس جدید رجحان کو علی گڑھ سے فارغ التحصیل افراد نے سر سید کی فکر کو آگے بڑھا نے میں بہت مدد دی۔ سر سید احمد خان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی دانست میں ترجمہ قرآن کو ایک عام کتاب سمجھ کر ترجمہ کرنا شروع کردیا جس کے باعث ایک بڑی تعدداد مترجمین کی سامنے آئی جن میں سے چند اردو مترجمین قرآن کے نام معروف ہیں مثلاً نذیر احمد دہلوی ، مولوی عاشق الٰہی میرٹھی ، مولوی فتح محمد جالندھری ، مرزا وحیدالزماں، مولوی عبداللہ چکڑالوی ، ابو الکلام آزاد ، چودھری غلام احمد ، عبدالماجد دریاآبادی۔

سرسید احمد خان کے رفقاءکار کے علاوہ ایک بڑی تعداد مترجمین قرآن کی دارالعلوم دیوبند (قائم شدہ 1283ھ) کے مترجمین کی بھی چودھویں صدی ہجری میں سامنے آتی ہے جن میں مندرجہ ذیل مترجمین کے نام قابل ذکر ہیں: مولوی فیروز الدین روحی، مولوی محمد میمن جونا گڑھی ، مرزا حیرت دہلوی ، مولوی عبدالحق، مولوی محمد نعیم دہلوی، مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی محمد الحسن دیوبندی وغیرہ۔