حضرت ایوب ؑ کی شخصیت ، سید ابوالاعلی مودودیؒ

ارشاد باری تعالی :

 "وَ اَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ،  فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّ اٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ ذِکۡرٰی لِلۡعٰبِدِیۡنَ " سورۃ الانبیاء : 83-84)

ترجمہ : 
اور یہی ﴿ہوشمندی اور حکم و علم کی نعمت﴾ ہم نے ایوبؑ  کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ” مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تُو ارحم الراحمین ہے۔“ 77 ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، 78 اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ 

-----------------

ان آیات کی تفسیر میں مولانا مودوی ؒ  لکھتے ہیں : 

" حضرت ایوب کی شخصیت ، زمانہ ، قومیت، ہر چیز کے بارے میں اختلاف ہے ۔ جدید زمانے کے محققینِ میں سے کوئی ان کو اسرائیلی قرار دیتا ہے ، کوئی مصری اور کوئی عرب ۔ کسی کے نزدیک ان کا زمانہ حضرت موسیٰ سے پہلے کا ہے ، کوئی انہیں حضرت داؤد سلیمان کے زمانے کا آدمی قرار دیتا ہے ، اور کوئی ان سے بھی متاخر ۔ لیکن سب کے قیاسات کی بنیاد اس سِفْرِ ایوب یا صحیفہ ایوب پر ہے جو بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں شامل ہے ۔ اسی کی زبان، انداز بیان، اور کلام کو دیکھ کر یہ مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں ، نہ کہ کسی اور تاریخی شہادت پر ۔ اور اس سِفْرِ ایوب کا حال یہ ہے کہ اس کے اپنے مضامین میں بھی تضاد ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان سے بھی اتنا مختلف ہے کہ دونوں کو بیک وقت نہیں مانا جا سکتا۔ لہٰذا ہم اس پہر قطعاً اعتماد نہیں کر سکتے ۔ زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حزقی ایل نبی کی صحیفوں میں ان کا ذکر آیا ہے ، اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے زیادہ مستند ہیں ۔ یسعیاہ نبی آٹھویں صدی اور حزقی ایل نبی چھٹی صدی قبل مسیح میں گزرے ہیں ، اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں ۔ رہی ان کی قومیت تو سورہ نساء آیت 163 اور سورہ انعام آیت 84 میں جس طرح ان کا ذکر آیا ہے اس سے گمان تو یہی ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے ، مگر وہب بن منَبّہ کا یہ بیان بھی کچھ بعید از قیاس نہیں ہے کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسُو کی نسل سے تھے ۔ 


 دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے ۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ’’ تو ارحم الراحمین ہے ‘‘ آگے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں ، کوئی عرض مدعا نہیں ،کسی چیز کا مطالبہ نہیں ۔ اس طرز دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر و قانع اور شریف و خود دار آدمی پے در پے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم الجفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جاۓ کہ ’’ میں بھوگا ہوں اور آپ فیاض ہیں ‘‘ آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے ۔ 

 سورہ ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا : اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ھٰذَا مُغْتَسَلٌ م بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ ، ’’ اپنا پاؤں مارو، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے کھانے کو اور پینے کو ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر پاؤں مارتے ہیں اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کر دیا جس کے پانی میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہو گئی ۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جلدی بیماری ہو گئی تھی، اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوٹوں سے بھر گیا تھا (ایوب،باب 2 ، آیت 7) ۔

 اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں ۔ اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے ۔ لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفْرِ ایوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آۓ گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت، اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے ۔ بار بار اس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں ’’ نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا۔ ‘‘ ۔’’ میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا‘‘۔ ’’ میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی ‘‘۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ ’’ قادر مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوۓ ہیں ، میری روح ان ہی کے زہر کو پی رہی ہے ، خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوۓ ہیں ‘‘ ۔ ’’ اے بنی آدم کے ناظر، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں ؟ تو نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے کہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں ؟ تو میرا گناہ کیوں جھگڑتا ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے ‘‘؟ اس کے تین دوست اسے آ کر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں ، مگر وہ نہیں مانتا ۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے ، صرف ایک ظلم ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے ۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بد کار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکو کار ستاۓ جاتے ہیں ۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں ، اور پھر کہتا ہے کہ خدا کے پاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتاۓ کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ای چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب کو بے تحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ’’ اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھیرایا ‘‘۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دو بدو بحث ہوتی ہے ۔ اس ساری داستان کو پڑھتے ہوۓ کسی جگہ بھی ہمکو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اس صبر مجسم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے ۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصہ کچھ کہہ رہا ہے ، بیچ کا حصہ کچھ ، اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکلا آتا ہے ۔ تینوں حصوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے ۔ ابتدائی حصہ کہتا ہے کہ ایوب ایک نہایت راستباز ، خدا ترس اور نیک شخص تھا، اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ ’’ اہل مشرق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا ‘‘۔ ایک روز خدا کے ہاں اس کے (یعنی خود اللہ میاں کے ) بیٹے حاضر ہوۓ اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا ۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پ فخر کا اظہار کیا۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے ، وہ آپ کے منہ پر آپ کی’’ تکفیر‘‘ نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں ۔ خدا نے کہا، اچھا، اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے ۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچایئو ۔ شیطان نے جا کر ایوب کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کر دیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا۔ مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا ۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا ’’ ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا ور خداوند نے لے لیا ۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘ پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی ۔ ان کے بیٹے بھی آۓ اور شیطان بھی حاضر ہوا ۔ اللہ میاں نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے ، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا ۔ شیطان نے کہا، جناب ، ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے ۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی ’’تکفیر‘‘ کرے گا ۔ اللہ میاں نے فرمایا ، اچھا، جا، اس کو تیرے اختیار میں دیا گیا، بس اس کی جان محفوظ رہے ۔ چنانچہ شیطان واپس ہوا اور آ کر اس نے ’’ ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دکھ دیا‘‘ ۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا ’’ کیا تو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا‘‘ اس نے جواب دیا ’’ تو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے ۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دکھ نہ پائیں ‘‘۔ 

یہ ہے سِفْرِ ایوب کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ۔ لیکن اس کے تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسویں باب تک ایوب کی بے صبری اور خدا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خدا کا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا۔ پھر بیا لیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ میاں سے خوب دو بدو بحث کر لینے کے بعد ، صبر و شکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر ، ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کر کے اس کی تکلیفیں اور کر دیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دوچند دے دیے دیتے ہیں ۔ اس آخری حصے کو پڑھتی وقت آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوۓ ہیں ، اور پھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے ، اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کر لیا ہے تاکہ شیطان کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو۔ 

یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہ، نہ خود حضرت ایوب کا ۔ بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے ۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصہ ایوب کو بنیاد بنا کر ’’ یوسف زلیخا ‘‘ کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایوب، الیفز تَیمانی، سوخی بلدو، عنماتی ضوفر، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو، چند کیرکٹر ہیں جن کی زبان سے نظام کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے ۔ اس کی شاعری اور اس زور بیان کی جس قدر جی چاہے داد دے لیجیے ، مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفہ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے کوئی معنی نہیں ۔ ایوب علیہ السلام کی سیت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا ’’ یوسف زلیخا‘‘ کا تعلق سیرت یوسفی سے ہے ، بلکہ شاید اتنا بھی نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان میں صحیح تاریخ اکا یک عنصر پایا جاتا ہے ، اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہو گا جو اس کے زمانے میں مشہور ہوں گی، یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہو گا جواب نا پید ہے ۔

----------------
حوالہ : 
تفہیم القرآن جلد سوم ، سید ابوالاعلی مودودیؒ   ( سورۃ الانبیاء،  آیات : 83-84،  حاشیہ نمبر :76-79 )