ام الکتاب ۔ سورۃ الفاتحۃ (13)، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ

"الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ” اور "الضَّالِّینَ”

پھر "صراط مستقیم” کی پہچان صرف اس کے مثبت پہلو ہی سے واضح نہیں کی گئی، بلکہ اس کا ضد مخالف پہلو بھی واضح کر دیا گیا : "غیر المغضوب علیھم ولا الضالین” "ان کی راہ نہیں جو مغضوب ہوئے، نہ ان کی جو گم راہ ہو کر بھٹک گئے۔”

"مغضوب علیھم” گروہ "منعم علیھم” کی بالکل ضد ہے، کیونکہ انعام کی ضد غضب ہے، اور فطرت کائنات کا قانون یہ ہے کہ راست باز انسانوں کے حصے میں انعام آتا ہے، نافرمانوں کے حصے میں غضب۔ "گمراہ” وہ ہیں جو راہ حق نہ پا سکے اور اس کی جستجو میں بھٹک گئے۔ پس مغضوب وہ ہوئے جنہوں نے راہ پائی اور اس کی نعمتیں بھی پائیں، لیکن پھر اس سے منحرف ہو گئے اور نعمت کی راہ چھوڑ کر محرومی و شقاوت کی راہ اختیار کر لی۔ "گمراہ” وہ ہوئے جو راہ ہی نہ پا سکے، اس لیے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور صراط مستقیم کی سعادتوں سے محروم ہیں۔

"مغضوب علیہ” کی محرومی حصول معرفت کے بعد انکار کا نتیجہ ہے اور "گم راہ” کی محرومی جہل کا نتیجہ۔ پہلے نے پا کر، روگردانی کی اس لیے محروم ہوا، دوسرا پا ہی نہ سکا اس لیے محروم ہے۔ محروم دونوں ہوئے، مگر یہ ظاہر ہے کہ پہلے کی محرومی زیادہ مجرمانہ ہے، کیونکہ اس نے نعمت حاصل کر کے پھر اس سے روگردانی کی، اسی لیے اسے مغضوب کہا گیا اور دوسرے کی حالت صرف گم راہی کے لفظ سے تعبیر کی گئی۔


ہم دیکھتے ہیں دنیا میں فلاح و سعادت سے محروم آدمی ہمیشہ دو طرح کے ہوتے ہیں : جاحد اور جاہل۔ جاحد وہ ہوتا ہے جو حقیقت پا لیتا ہے، بایں ہمہ اس سے روگردانی کرتا ہے، جاہل وہ ہوتا ہے جو حقیقت سے ناآشنا ہوتا ہے، اور اپنے جہل پر قانع ہو جاتا ہے۔ پس صراط مستقیم پر چلنے کی طلب گاری کے ساتھ محرومی و شقاوت کی ان دونوں صورتوں سے بچنے کی طلب بھی سکھلا دی، تاکہ فلاح و سعادت کی راہ کا تصور ہر طرح کامل اور لغزشوں سے محفوظ ہو جائے۔

جہاں تک مذہبی صداقت کا تعلق ہے، دونوں طرح کی محرومیوں کی مثالیں قوموں کی تاریخ میں موجود ہیں۔ کتنی ہی قومیں ہیں جن کے قدم صراط مستقیم پر استوار ہو گئے تھے اور فلاح و سعادت کی تمام نعمتیں ان کے لیے مہیا تھیں، بایں ہمہ انہوں نے روگردانی کی اور راہ حق کی معرفت حاصل کر کے پھر اس سے منحرف ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہی قوم جو کل تک دنیا کی انعام یافتہ جماعت تھی، سب سے زیادہ محروم و نامراد جماعت ہو گئی۔ اسی طرح کتنی ہی جماعتیں ہیں جن کے سامنے فلاح و سعادت کی راہ کھول دی گئی، لیکن انہوں نے معرفت کی جگہ جہل اور روشنی کی جگہ تاریکی پسند کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ راہ حق نہ پا سکے اور نامرادی و محرومی کی وادیوں میں گم ہو گئے۔

احادیث و آثار میں اس کی جو تفسیر بیان کی گئی ہے اس سے یہ حقیقت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ ترمذی اور احمد و ابن حبان وغیرہم کی مشہور حدیث ہے کہ: "آنحضرت (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا "المغضوب” یہودی ہیں اور "الضالین” نصاریٰ ہیں "۔ یقیناً اس تفسیر کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ مغضوب سے مقصود صرف یہودی اور گمراہ سے مقصود صرف نصاریٰ ہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مغضوبیت اور گم راہی کی حالت واضح کرنے کے لیے دو جماعتوں کا ذکر بطور مثال کے کر دیا جائے۔ چنانچہ ان دونوں جماعتوں کی تاریخ میں ہم محرومی کی دونوں حالتوں کا کامل نمونہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی قومی تاریخ مغضوبیت کے لیے اور عیسائیوں کی تاریخ گمراہی کے لیے عبر و تذکیر کا بہترین سرمایہ ہے۔

قرآن کے قصص اور استقراء تاریخی

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے ہدایت و تذکیر امم کے لیے جن جن اصولوں پر زور دیا ہے ان میں سب سے زیادہ نمایاں اصل پچھلی قوموں کے ایام و وقائع اور ان کے نتائج ہیں وہ کہتا ہے : کائنات ہستی کے ہر گوشے کی طرح قوموں اور جماعتوں کے لیے بھی خدا کا قانون سعادت و شقاوت ایک ہی ہے اور ہر عہد اور ہر ملک میں ایک ہی طرح کے احکام و نتائج رکھتا ہے۔ اس کے احکام میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کے نتائج ہمیشہ اور ہر حال میں اٹل ہیں۔ جس طرح سنکھیا کی تاثیر اس لیے بدل نہیں جا سکتی کہ وہ کس عہد اور کس سنہ میں استعمال کی گئی، اسی طرح قوموں اور جماعتوں کے اعمال کے نتائج بھی اس لیے متغیر نہیں ہو جا سکتے کہ کس ملک میں پیش آئے۔ اگر ماضی میں ہمیشہ شہد، شہد کا خاصہ رکھتا آیا ہے اور سنکھیا کی تاثیر سنکھیا ہی کی ہو گی۔ پس جو کچھ ماضی میں پیش آ چکا ہے ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی پیش آئے :

سُنَّةَ اللَّهِ فِی الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِیلًا (۳۳:۷۲)

جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے اللہ کی سنت یہی رہی ہے (یعنی اللہ کے قوانین و احکام کا دستور یہی رہا ہے ) اور اللہ کی سنت میں تم کبھی رد و بدل نہیں پاؤ گے۔

فَهَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِینَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِیلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِیلًا (۳۵:۴۳)

پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ہیں ؟ کیا اس سنت کی جو اگلے لوگوں کے لیے رہ چکی ہے ؟ تو یاد رکھو! تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا ہوا نہین پاؤ گے اور نہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی سنت کے احکام پھیر دیئے جائیں۔

سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا (۱۷:۷۷)

(اے پیغمبر!) تم سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے، ان کے لیے ہماری سنت یہی رہی ہے اور ہماری سنت کبھی ٹلنے والی نہیں۔

چنانچہ وہ ایک طرف تو انعام یافتہ جماعتوں کی کام رانیوں کا بار بار ذکر کرتا ہے، دوسری طرف مغضوب اور گمراہ جماعتوں کی محرومیوں کی سرگزشتیں بار بار سناتا ہے، پھر جا بجا ان سے عبرت و بصیرت کے نتائج اخذ کرتا ہے جن پر اقوام و جماعات کا عروج و زوال موقوف ہے۔ وہ کھول کھول کر بتلاتا ہے کہ انعام یافتہ جماعتوں کی سعادت و کامرانی ان اعمال کا انعام تھی اور مغضوب و گمراہ جماعتوں کی شقاوت و محرومی ان بداعمالیوں کی پاداش تھی۔ اچھے نتائج کو "انعام” کہتا ہے، کیونکہ یہ فطرت الٰہی کی قبولیت ہے، برے نتائج کو "غضب” کہتا ہے، کیونکہ یہ قانون الٰہی کی پاداش ہے، وہ کہتا ہے :جن اسباب و علل سے دس مرتبہ ایک خاص طرح کا معلول پیدا ہو چکا ہے، تم کیونکر انکار کر سکتے ہو کی گیارہویں مرتبہ بھی ویسا ہی معلول پیدا نہ ہو گا :

قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِینَ (۳:۱۳۷)

تم سے پہلے بھی دنیا میں (خدا کے ) احکام و قوانین کے نتائج گزر چکے ہیں، پس ملکوں کی سیر کرو اور دیکھو ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے (اللہ کے قوانین کو) جھٹلایا تھا!

قرآن کی سورتوں میں ایک بڑی تعداد ایسی سورتوں کی ہے جو تمام تر اسی مطلب پر مشتمل ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن میں جس قدر بیان بھی پچھلے عہدوں کے وقائع و قصص کا ہے وہ تمام تر سورۃ فاتحہ کی اسی آیت کی تفصیل ہے۔

سورۃ فاتحہ کی تعلیمی روح

اچھا! اب چند لمحوں کے لیے سورۃ فاتحہ کے مطالب پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالو اور دیکھو اس کی ساتھ آیتوں کے اندر مذہبی عقائد و تصور کی جو روح مضمر ہے وہ کس طرح کی ذہنیت پیدا کرتا ہے ؟ سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے۔ فرض کرو ایک انسان کے دل و زبان سے شب و روز یہی دعا نکلتی رہتی ہے، اس صورت میں اس کے فکر و اعتقاد کا کیا حال ہو گا؟

وہ خدا کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج ہے، لیکن اس خدا کی حمد میں نہیں جو نسلوں، قوموں اور مذہبی گرو بندیوں کا خدا ہے، بلکہ "رب العٰلمین” کی حمد میں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے اور اس لیے تمام نوع انسانی کے لیے یکساں طور پر پروردگاری و رحمت رکھتا ہے۔ 

پھر وہ اسے اس کی صفتوں کے ساتھ پکارنا چاہتا ہے، لیکن اس کی تمام صفتوں میں سے صرف رحمت اور عدالت ہی کی صفتیں اسے یاد آتی ہیں۔ گویا خدا کی ہستی کی نمود اس کے لیے سر تا سر رحمت و عدالت کی نمود ہے اور جو کچھ بھی اس کی نسبت جانتا ہے وہ رحمت و عدالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 

پھر وہ اپنا سر نیاز جھکاتا اور اس کی عبودیت کا اقرار کرتا ہے، وہ کہتا ہے : "صرف تیری ہی ایک ذات ہے جس کے آگے بندگی و نیاز کا سر جھک سکتا ہے اور صرف تو ہی ہے جو ہمارے ساری درماندگیوں اور احتیاجوں میں مددگاری کا سہارا ہے "۔ وہ اپنی عبادت اور استعانت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے ساتھ وابستہ کر دیات ہے اور اس طرح دنیا کی دوسری قوتوں اور ہر طرح کی انسانی فرمان روائیوں سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ اب کسی چوکھٹ پر اس کا سر جھک نہیں سکتا، اب کسی قوت سے وہ ہراساں نہیں ہو سکتا، اب کسی کے آگے اس کا دست طلب دراز نہیں ہو سکتا۔

 پھر وہ خدا سے سیدھی راہ چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے۔ یہی ایک مدعا ہے جس سے زبان احتیاج آشنا ہوتی ہے، لیکن کون سی سیدھی راہ؟ کسی خاص مذہبی حلقے کی سیدھی راہ؟ نہیں۔ وہ راہ جو دنیا کے تمام مذہبی رہنماؤں اور تمام راست باز انسانوں کی متفقہ راہ ہے، خواہ کسی عہد اور کسی قوم میں ہوئے ہوں۔

 اسی طرح وہ محرومی اور گمراہی کی راہوں سے پناہ مانگتا ہے، لیکن یہاں بھی کسی خاص نسل و قوم یا کسی خاص مذہبی گروہ کا ذکر نہیں کرتا، بلکہ ان راہوں سے بچنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمام محروم اور گم راہ انسانوں می راہیں رہ چکی ہیں۔ گویا جس بات کا طلب گار ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالم گیر اچھائی ہے اور جس بات سے پناہ مانگتا ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالم گیر برائی ہے۔ نسل، قوم، ملک یا مذہبی گروہ بندی کے تفرقہ و امتیاز کی کوئی پرچھائیں اس کے دل و دماغ پر نظر نہیں آتی۔

غور کرو! مذہبی تصور کی یہ نوعیت انسان کے ذہن و عواطف کے لیے کس طرح کا سانچا مہیا کرتی ہے ؟ جس انسان کا دل و دماغ ایسے سانچے میں ڈھل کر نکلے گا وہ کس قسم کا انسان ہو گا؟ کم از کم دو باتوں سے تم انکار نہیں کر سکتے، ایک یہ کہ اس کی خدا پرستی، خدا کی عالم گیر رحمت و جمال کے تصور کی خدا پرستی ہو گی، دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی نسل و قوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہیں ہو گا، عالم گیر انسانیت کا انسان ہو گا اور دعوت قرآنی کی اصلی روح یہی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حواشی

۱) پہلے ایڈیشن کے ص ۱۷۶ پر یہ عبارت زیادہ ہے۔ (یعنی حسن و جمال کے اعتراف اور کبریائی اور کمال کے اعتقاد کے ساتھ جو کچھ بھی اور جیسا کچھ بھی کہا جائے ) مصحح۔

۲) پہلے ایڈیشن کے ص ۱۷۶ پر یہ عبارت زیادہ ہے۔ )جس کی پروردگاری کائنات خلقت کے ہر وجود کو زندگی اور بقاء کا سر و سامان بخشتی اور پرورش کی ساری ضرورتیں مہیا کرتی رہتی ہے )۔م

۳) پہلے ایڈیشن میں آیت ۳ کا ترجمہ اس طرح ہے : جو جزا اور سزا کے دن کا مالک ہے (اور جس کی عدالت نے ہر کام کیلئے بدلا اور ہر بات کے لئے نتیجہ ٹھہرا دیا ہے )۔م

۴) پہلے ایڈیشن میں یہ عبارت زیادہ ہے۔ (تیرے سوا کوئی معبود نہیں جس کی بندگی کی جائے اور طاقت و بخشش کا کوئی سہارا نہیں جس سے مدد مانگی جائے۔م

۵) پہلے ایڈیشن میں یہ عبارت زیادہ ہے : اور منزل کا سراغ ان پر گم ہو گیا۔ م

۶) امام بخاری اور اصحاب سنن نے ابو سعید بن المعلی سے روایت کی ہے "الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ” ھی السبع المثانی والقرآن العطیم الذی اوتیتہ۔ اور امام مالک، ترمذی اور حاکم نے ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی بن کعب کو سورۃ فاتحہ تلقین کی اور یہی الفاظ فرمائے۔ اسی طرح طبری نے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس اور ابن مسعود وغیرہم سے روایت کی ہے کہ املبع المثانی فاتحہ الکتاب۔ ابن مسعود کی اسناد منقطع ہے، لیکن ابن عباس کی حسن ہے، ابو العالیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ اس کے علاوہ ائمہ تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی طرف گئی ہے۔ حفاظ ابن حجر نے فتح الباری میں تمام روایت جمع کر دی ہیں۔ (شرح کتاب التفسیر جلد ۸ ص ۱۲۰ طبع اول)

۷) صحیح بخاری، موطا، ابو داؤد، ابن ماجہ اور مسند میں بہ اختلاف الفاظ اس مضمون کی روایت موجود ہیں۔

۸ ) ابو سعید بن المعلی کی روایت میں جس کی تخریج پچھلے حاشیے میں گزر چکی ہے اس "اعظم سورۃ فی القرآن” فرمایا ہے اور مسند کی روایت ابن جابر میں "خیر” کا لفظ ہے (دونوں ایڈیشن میں لفظ "اخیر” طبع ہوا ہے جو غلط ہے، مسند ابن حنبل میں عبد اللہ بن جابر کی روایت اس طرح ہے۔۔۔ ثم قال الا اخیرک یا عبد اللہ بن جابر بخیرسورۃ فی القرآن ج۴۔ ص ۱۷۷۔ مصر۔ م)

۱) پہلے ایڈیشن میں یہ حدیث نہیں ہے۔ م

۲) پہلے ایڈیشن میں یہ عنوان نہیں ہے۔ م

۳) پہلے ایڈیشن میں یہ عنوان نہیں ہے۔ م

۴) پہلے ایڈیشن میں فقرہ ذیل زیادہ ہے :

خدا پرستی فطرت کا خمیر ہے، اس لئے خدا پرستی کی کوئی سچی بات انسان کے لئے انوکھی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کی فطرت کے لئے سب سے زیادہ جانی بوجھی ہوئی بات یہی ہے کہ خالق کائنات کا اقرار کرے۔ پس سورہ فاتحہ کی ندرت محض اس کے معانی میں نہیں بلکہ معانی کی تعبیر میں ڈھونڈنی چاہیے۔ خدا پرستی کا جوش انسان میں پہلے سے موجود تھا، اس کی ربوبیت اور رحمت کے جلوے کبھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئے۔ جزا و سزا کا اعتقاد سمندروں اور پہاڑوں سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ ٹیڑھے راستے سے بچنے سیدھی راہ چلنے کی طلب نہ صرف انسان میں بلکہ کیڑے مکوڑوں تک میں موجود ہے۔ انسان اپنی معیشت کے کسی عہد میں بھی اس درجہ مسخ نہیں ہوا کہ ان وجدانی تصورات سے اس کا ذہن خالی ہو گیا ہو لیکن اس کی محرومی یہ تھی کہ اپنے وجدان کی ٹھیک تھیک تعبیر نہیں کر سکتا تھا۔ وہ خدا کی ربوبیت محسوس کر رہا تھا، لیکن اسے "رب” کہہ کر پکارنا نہیں جانتا تھا اس کی رحمت کے جلوے ہر آن اس کے سامنے تھے لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اپنے دل کا احساس کیونکر لفظوں اور ناموں میں ادا کر دے۔ جرا اور سزا اس کے دل کے ایک ایک ریشے کا اعتقاد تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اس کی صحیح تعبیر کیا ہے۔ ہدایت کی طلب اور گمراہی سے گریز تو عقل حیوانی کا فطری خاصہ ہے، لیکن انسان کی ساری درماندگی یہ تھی کہ اس بات کی زیادہ سے زیادہ طلب رکھنے پر بھی طلب گاری کی راہ سے آشنا نہ تھا (ص ۴-۵)م۔

۵) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ اس طرح ہے :

پھر حمد کے بعد صفات الٰہی میں سے ربوبیت اور رحمت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح نوع انسانی کی اس عالم گیر غلطی کا ازالہ کر دیا ہے۔ کہ خدا کو صرف اس کی صفات قہر و جلال ہی میں دیکھتی تھی اس کی رحمت و جمال کی تماشائی نہ تھی۔ اس اسلوب بیان نے واضح کر دیا کہ خدا کا صحیح تصور وہی ہو سکتا ہے جو سر تا سر حسن و جمال اور رحمت و محبت کا تصور ہو (ص ۶)م۔

۷) یعنی "خدایا! ایسا کر کہ تیری ہستی میں ہمارا تحیر بڑھتا رہے ” کیونکہ یہاں تحیر جہل کا نہیں بلکہ معرفت کا نتیجہ ہے (پہلے ایڈیشن میں یہ عربی شعر بھی ہے :

زدنی بفرط الحب فیک تحیرا

وارجم حشا بلظی ھو اک تسعرام

۱) "الہ کی طرح۔۔۔۔ خبر دیتا ہے ” یہ فقرہ پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔م

۲) مفردات راغب اصفہانی

۳) (Naked eye) غیر مسلح آنکھ، یعنی ایسی آنکھ جو قدرتی نگاہ سے دیکھ رہی ہو، زیادہ قوت کے ساتھ دیکھنے کا کوئی آلہ مثلاً خوردبین اس کے ساتھ نہ ہو۔

۴) انسان میں ماں کی محبت بلوغ کے بعد بھی بدستور باقی رہتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کے انفعالات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ عہد طفہلیت کی محبت میں اور اس محبت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن یہ صورت حال غالباً انسان کی مدنی و عقلی زندگی کے نشو و نما کا نتیجہ ہے، نہ کہ فطرت حیوانی کا۔ ابتدائی انسان میں بھی یہ علاقہ فطرتاً اس حد تک ہو گا کہ بچہ سن تمیز تک پہنچ جائے، لیکن بعد کو نسل و خاندان کی تشکیل اور اجتماعی احساسات کی ترقی سے مادری رشتہ ایک دائمی رشتہ بن گیا۔

۵) یہ حاشیہ پہلے ایڈیشن میں ہے ص ۲۴ لیکن دوسرے میں نہیں ہے۔ م

یہی حقیقت ہے جسے آج علمی مصطلحات میں یوں ادا کیا جاتا ہے۔

From the motion of the electrons round the positively charged nucleus of an atom to the motion for the planets round the sun, and so forty, every thing points only to the one conclusion, viz. predetermined law. Sir Oliver Lodge.

اس کی مزید تشریح اپنے مقام پر آئے گی۔ جس حقیقت کو یہاں "Predetermined law ” سے تعبیر کیا گیا ہے اسی کو قرآن "تخلیق بالحق” سے تعبیر کرتا ہے۔

۷) یہ حاشیہ پہلے ایڈیشن میں سے ص ۲۴ لیکن دوسرے میں نہیں ہے۔ م

یہ تعبیر اس لئے اختیار کی گئی کہ نزول قرآن سے پہلے تمام پیروان مذاہب نے دنیا کی پیدائش کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ حکمت و مصالح کے تصور سے یک قلم خالی تھا۔ لوگ خیال کرتے تھے کہ طاقت و اختیار کے ساتھ حکم و مصالح کی رعایت جمع نہیں ہو سکتی۔ حکم مصالح کی پابندی وہی کرے گا جو کسی کے آگے جواب دہ ہو۔ خدا جو سب سے بڑا اور سب پر حکمراں ہے اس کے کم حکم و مصالح سے کیوں وابستہ ہوں۔ وہ مطلق العنان بادشاہوں کو دیکھتے تھے جو جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں اور ان کے کاموں میں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پس سمجھتے تھے کہ خدا کے کاموں کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ ہندوستان، مصر، بابل اور یونان کی تمام علم الاصنامی روایت اسی تخیل کا نتیجہ ہیں۔ دیوتاؤں نے عشق بازی میں رنگ رلیاں منائیں اور ستارے پیدا ہو گئے۔ کسی دیوتا نے شکار کھیلتے ہوئے تیر مارا پہاڑ پیدا ہو گیا۔ ایک دیوتا نے جٹا کھول دی دریا وجود میں آ گیا۔ اصنام پرست اقوام کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کے خیالات بھی اس بارے میں عقلی تصورات سے خالی تھے۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ ایک مطلق العنان اور مستبد بادشاہ کی طرح خدا کے افعال بھی حکم و مصالح کی جگہ محض جوش و ہیجان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ غصے میں آ کر قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے اور جوش محبت میں آ کر کسی خاص قوم کو اپنی چہیتی قوم بنا لیتا ہے۔

بلا شبہ عیسائی تصور کا مایہ خمیر رحم و محبت ہے لیکن حکم و مصالح کے لئے اس میں بھی جگہ نہ تھی۔ کفارہ کے اعتقاد کے ساتھ حکم و مصالح کا اعتقاد نشو و نما نہیں پا سکتا تھا۔ قرآن تاریخ مذاہب میں پہلی کتاب ہے جس نے خدا کی صفات و افعال کیلئے عقلی تصور قائم کیا اور یہ حقیقت واضح کی کہ حکم و مصالح کی رعایت منافی نہیں ہے، بلکہ محاسن قدرت میں ہے بلا شبہ خدا جو کچھ چاہے کر سکتا ہے، لیکن اس کی حکم تو عدالت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ جو کچھ کرتا ہے، حکمت و مصلحت کے ساتھ کرتا ہے۔

اسی اصلی کی نتیجہ ہے اس نے تخلیق کائنات کا بھی جو نقشہ کھینچا، وہ سر تا سر عقلی نقشہ ہے۔ اسی لئے اس نے جا بجا "تخلیق بالباطل” کے خیال کو کفر کی طرف نسبت دی ہے۔ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ(۳۸:۲۷) ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، بغیر حکمت و مصلحت کے نہیں بنایا ہے یہ خیال کہ ہم نے بغیر حکمت و مصلحت کے پیدا کیا، ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا۔

۱) آیت کے آخری حصے کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔م

۲) "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۳) اس موقع پر یہ اصل پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز نظر و اعتبار کے مختلف پہلو رکھتی ہے اسی طرح قرآن کا استشہاد بھی بیک وقت مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے، البتہ خصوصیت کے ساتھ زور کسی ایک ہی پہلو کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً، شہید کی پیدائش اور شہد کی مکھی کی اعمال کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ بات کہ ایک نہایت مفید اور لذیذ غذا پیدا ہو جاتی ہے، ربوبیت ہے۔ یہ بات کہ ایک حقیر سا جانور اس دانش مندی و دقت کے ساتھ یہ کام انجام دیتا ہے، ذہن و ادراک کی بخشش کا عجیب و غریب منظر ہے اور اس لئے حکمت و قدرت کا پہلو رکھتا ہے۔ ان آیات کا سیاق و سباق بتلاتا ہے کہ یہاں زیادہ تر توجہ ربوبیت پر دلائی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی حکمت و قدرت کے مشترک مظاہر بیان کیے گئے ہیں، لیکن خصوصیت کے ساتھ زور کسی ایک ہی پہلو پر ہے۔

۱) "فانی تُوفکون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۲) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ زیادہ ہے : فعلی ظہور ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا (ص ۳۹) م

۳) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ زیادہ ہے : اور اپنا فعلی ظہور بھی رکھتے ہیں (ص ۳۹) م۔

۴) "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۵) اس آیت میں اور اس کی تمام ہم معنی آیات میں "سخر” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ہیں "تسخیر” ٹھیک ٹھیک اسی معنی میں بولا جاتا ہے جس معنی میں ہم اردو میں بولا کرتے ہیں، یعنی کسی چیز کا قہراً و حکماً اس طرح مطیع ہو جانا کہ جس طرح چاہیں اس سے کام لیں۔ غور کرو! انسانی قوی کی عظمت و سروری کے اظہار کے لئے اس سے زیادہ موزوں تعبیر اور کیا ہو سکتی تھی؟ قرآن کے نزول سے پہلے اقوام عالم کی چینی ذہنیت انسان کے عقلی امنگوں کے قطعاً خلاف تھی۔ لیکن قرآن نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس کی عقلی امنگوں کی جرات افزائی کر دی، بلکہ اس کی ہمت اور اولوالعزمی علم کیلئے ایک ایسی بلند نظری کا نقشہ کھینچ دیا جس سے بہتر نقشہ آج بھی نہیں کھینچا جا سکتا۔ آسمان اور زمن میں جو کچھ ہے سب اس لئے ہے کہ انسان کے آگے مسخر ہو کر رہے اور انسان ان میں تصرف کرے۔ انسانی عقل و فکر کے لئے اس سے زیادہ بلند نصب العین اور کیا ہو سکتا ہے ؟ پھر غور کرو "تسخیر” کا لفظ انسانی کی حکمرانیوں کے لئے کس درجہ موزوں لفظ ہے ؟ اس تسخیر کا قدیم منظر یہ تھا کہ انسان کا چھوٹا سا بچہ لکڑی کے دو گرز تختے جوڑ کر سمندر کے سینے پر سوار ہو جاتا تھا اور نیا منظر یہ ہے کہ آگ، پانی، ہوا، بجلی تمام عناصر پر حکمرانی کر رہا ہے۔

البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن نے جہاں کہیں اس تسخیر کی ذکر کیا ہے اس کا تعلق صرف کرہ ارضی کی کائنات سے ہے یا آسمان کے ان موثرات سے ہے جنہیں ہم یہاں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا ہے تمام موجودات ہستی اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں۔یا تمام موجودات ہستی میں وہ اشرف و اعلیٰ مخلوق ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ہماری دنیا کائنات ہستی کے بے کنار سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں وما یعلم جنود ربک الاھو (۳۱:۴۷) اور انسان کو جو کچھ بھی برتری حاصل ہے وہ صرف اس دنیا کی مخلوقات میں ہے۔

۷) "لللکُم تھتدون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۷) "اِنہ کان حلیماً تشکرون” کر ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۱) "ولعلکم تشکرون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۲) قرآن حکیم نے آخرت کے وجود کا جن جن دلائل سے اذعان پیدا کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے : دنیا میں ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی متقابل وجود یا مثنی ضرور رکھتی ہے، پس ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے لئے بھی کوئی متقابل اور مثنی زندگی ہو۔ دنیوی زندگی کی متقابل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ چنانچہ بعض سورتوں میں انہیں متقابل مظاہرات سے استشہاد کیا ہے۔ مثلاً سورۃ الشمس مین فرمایا :

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا (۱)وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا (۲)وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا (۳)وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاهَا (۴)وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا (۵)وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا (۷) (سورۃ ۹۱)

۳) "لعلکُم تذکرون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۴) یعنی حواء۔ مصحح (طبع دوم۔م)

۵) یعنی آدمی اور حواء کی نسل ہے، مصحح (طبع دوم۔م)

۶) ولعلکم تعقلون کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۷) پہلے ایڈیشن میں حسب ذیل فقرات زیادہ ہیں۔

چنانچہ سورۃ بقرہ میں جہاں تحویل قبلہ کے معاملے کا ذکر کیا ہے وہاں اہل کتاب کی متعصبانہ مخالفتوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ (۲:۱۴۷)

یہ (یعنی تحویل قبلہ کا معاملہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے۔ پس دیکھو! ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔ چنانچہ عام مفسرین کی نظر اس اصل پر نہ تھی، اس لئے اس خطاب کا صحیح محل متعین نہ کر سکے اور "فلا تکونن من الممترین” کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ اس معاملے کے خدا کی طرف سے ہونے شک نہ کرو، حالانکہ داعی اسلام کا قلب جو خود محل وحی تھا اس بارے میں شک کا محل کیونکر ہو سکتا تھا دراصل اس خطاب کا مقصد ہی دوسرا ہے۔ تحویل قبلہ کے معاملے میں کمزور اور بے سر و سامان مسلمانوں کے ایمان کے لئے بہت بڑی آزمائش تھی۔ مٹھی بھر مظلوم و مقہور انسانوں کی جماعت نے دنیا کی دو سب سے بڑی مذہبی قوتوں کے قبلوں کے خلاف اپنا ایک نیا قبلہ مقرر کیا تھا اور یروشلم کا عظیم الشان اور صدیوں مسلمہ کا ہیکل چھوڑ کر ریگستان عرب کے ایک گمنام اور بے شان و شوکت معبد کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ ایسی حالت میں کون امید کر سکتا تھا کہ یہ بے باکانہ جرات کامیاب ہو سکے گی اور دنیا کی قوموں کا رخ اچانک پھر جائے گا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا گیا ہے کہ "وَإِن كَانَتْ لَكَبِیرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیُضِیعَ إِیمَانَكُمْ ۚ(۲:۱۴۳)

پس ضرورت تھی کہ کمزور دلوں کی تقویت کے لئے واضح کر دیا جائے کہ یہ معاملہ کتنی ہی بے سر و سامانیوں کے ساتھ ظہور میں آیا ہو اور نا کامیابی کے اسباب بظاہر کتنے ہی قوی نظر آتے ہوں۔ تاہم کامیابی و فتح مندی اسی کیلئے ہے اور اس کا نتیجہ ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہے، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرایا ہوا "امر حق” ہے اور جو حق ہو وہ قائم و باقی رہنے کے لئے ہوتا ہے، مٹنے کے لئے نہیں ہوتا۔ ہر چیز جو اس سے مقابل ہو گی اور اس کی راہ روکے گی محو اور فنا ہو جائے گی۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں جہاں الوہیت مسیح کے اعتقاد کا رد کیا ہے فرمایا : الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ (۲:۱۴۷) یہ تمہارے پروردگار کی طرف امر حق ہے۔ پس دیکھو! ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔

الوہیت مسیح کا اعتقاد مسیحی کلیسا کا بنیادی اعتقاد بن گیا تھا اور اس قوت وسعت کے ساتھ دنیا میں اس کی منادی کی گئی تھی کہ اب اس کے خلاف کسی دعوت کا کامیاب ہونا تقریباً محال معلوم ہوتا تھا۔ خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس دعوت کے پیچھے نوزائیدہ اور بے سر و سامان جماعت کے سوا کوئی طاقت و شوکت نظر نہ آتی ہو۔ فرمایا : "الحقُ من ربک” الوہیت مسیح کے باطل اعتقاد نے کتنی ہی عظمت و سعت حاصل کر لی ہو، لیکن عبدیت مسیح کی دعوت ایک امر حق ہے اور اس لئے جب کبھی "حق” اور "باطل” میں مقابلہ ہو گا، تو بقاء ثبات حق ہی کے لئے ہو گا، باطل کے لئے نہیں ہو گا۔ باطل کا تو خاصہ ہی یہی ہے کہ وہ مٹ جانے والی چیز ہوتی ہے۔ سر دست یہ دعوت کتنی ہی کمزور معلوم ہوتی ہو، لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہ اپنی فتح مندی کا علم بلند کر دے گی۔

اسی طرح "الحق” کے تمام مقامات استعمال پر غور کرنا چاہیے (ص ۷۲، ۷۱) م

۱) یہ فقرہ "مثلاً فطرت۔۔۔ انتظار کیا جائے ” پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

۲) "ولینصرن اللہ۔۔۔۔۔۔ لقوی عزیز” اس حصہ کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۳) "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۴) (کتاب البر و الصلۃ، باب فضل عیادۃ المریض۔م)

۵) طبرانی و ابن جریر، سند صحیح۔

۷) امام احمد نے مسند میں، ترمذی اور ابو داؤد نے صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں ابن عمر سے روایت کی ہے۔ وروینا مسلسلا من طریق الشیخ محمود شکری الا لوسی العراقی و ایضا عن والدی المرحوم عن الشیخ صدر الدین الدھلوی من طریق الشیخ احمد ولی اللہ رحمھم اللہ (ترمذی، ابواب البر و الصلۃ باب ماجاء تی رحمۃ المسلمین، میں یہ حدیث اس طرح ہے۔ الراحمون یرحمھم الرحمن، ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء الرحم شجنۃ من الرحمن فنمن س صلھا و صلہ اللہ ومن قطعھا قطعہ اللہ۔ م)

۱) رواہ البخاری فی الادب المفرد [(باب رحمۃ البھائم (۱۷۶) حدیث (۳۸۱) والطبرانی عن ابی امامۃ و صححہ السیوطی فی الجامع الصغیر (المجلد الثانی (من رحم)]

۲) "یعنی خدا نے آدم میں۔۔۔۔۔ عالم زد” یہ عبارت پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

۳) پہلے ایڈیشن سے اضافہ کیا گیا ہے، دوسرے ایڈیشن میں کاتب سے چھوٹ گیا تھا۔ م

۴) شاید انسانی گمراہی کی بوالعجبیوں کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی کہ جس انجیل کی تعلیم کا یہ مطلب سمجھ لیا گیا تھا کہ وہ کسی حال میں بدلا لینے اور سزا دینے کی اجازت نہیں دیتی، اسی انجیل کے پیروؤں نے نوع انسانی کی تعذیب و ہلاکت کا عمل ایسی وحشت و بے رحمی کے ساتھ صدیوں تک جاری رکھا کہ آج ہم اس کا تصور بھی بغیر وحشت و ہراس کے نہیں کر سکتے اور پھر یہ جو کچھ کیا گیا انجیل اور اس کے مقدس معلم کے نام پر کیا گیا۔

۵) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ زیادہ ہے : سب کو جواب میں کہنا پڑا "وہ جسے زیادہ رقم معاف کر دی گئی” ص ۹۰۔ م

۷) پہلے ایڈیشن (ص ۹۰) میں یہ آیت بھی ہے۔

وَقَلِیلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُورُ (۳۴:۱۳) م

۷) و ایضا عنانس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم والذی نفسی بیدہ لو اخطائم حتی تملا خطایاکم بین السماء والارض ثم استغرتم اللہ یغفرلکم۔ والذی نفسی بیدہ لو لم تخطوء الجاء اللہ بقوم یخطوءن ثم یستغفرون فیغفر لھم۔ اخرجہ احمد و ابو یعلی باسنادر جالہ ثقات۔و عن ابن عمر مرفوعا : لو لم تذنبوا الخلق اللہ خلقا یذنبون ثم یغفر لھم۔ اخرجہ احمد و البزار و رجالہ ثقات۔ و اخرج البزار من حدیث ابی سعید نحو حدیث ابی ہریرۃ فی الصحیح، و فی اسنادہ یحیی بن بکیر و ھو ضعیف۔

۸ ) پہلے ایڈیشن ص ۹۲ میں یہ فقرہ نہیں ہے۔

"پھر اس پہلو پر بھی نظر رکھے۔۔۔۔۔ عفو و درگزر کی راہ اختیار کرتے ہیں "۔ م

۹) پہلے ایڈیشن ص ۹۴ میں یہ جملہ بھی ہے :

"سورہ انفال کے مقدمے میں ہم قرآن کے احکام جنگ پر نظر ڈالیں گے اور اس سلسلے میں مبحث کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑ جائے گی۔” م

۱) "سامی زبانوں کا۔۔۔ مرتب کی تھی” یہ فقرہ پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

۲) اسی طرح لکھا ہے، لیکن ہونا یوں چاہیے : اصحاب دوزخ اور اصحاب جنت لاخ۔ م

۳) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ و الاداب، باب تحریم الظلم۔ م)

۴) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ بھی ہے :

اگر یوں "مالک یوم الدین” کی جگہ کوئی ایسی صفت نمودار ہوتی جو صفات سلب و قہر پر دلالت کرتی تو ظاہر ہے کہ یہ حقیقت واضح نہ ہوتی اور خدا کا تصور قہر و غضب سے آلودہ ہو جاتا (ص ۹۹)۔ م

۵) اَلا تطغوا فی الیمزان کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۷) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ بھی ہے :

یہی وجہ ہے کہ علم الاجتماع کے مفکرین خصوصیت کے ساتھ اس پہلو پر زور دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کسی جماعت کی ذہنی اخلاقی رفتار ترقی معلوم کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کا سراغ لگاؤ کہ اس نے اپنے خدا کو کس شکل و شباہت میں دیکھا تھا۔ اسی شکل و شباہت میں تمہیں کود اس جماعت کے ذہن و اخلاق کی صورت نظر آ جائے گی (ص ۱۰۳)۔ م

۷) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ اس طرح ہے :

ایسا معلوم ہوتا ہے گویا انسان کے مادی تصورات کی طرح اس کے خدا پرستانہ تصور میں بھی ایک طرح کے تدریجی ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا اور بتدریج ادنی سے اعلیٰ اور پستی سے بلندی کی طرف ترقی ہوتی رہی۔ بلا شبہ یہ مشکل ہے کہ ہم اس سلسلے کی سب سے ابتدائی کڑیاں متعین کر سکیں، کیونکہ جس قدر ماضی کی طرف بڑھتے ہیں تاریخ کی روشنی دھندلی پڑ جاتی ہے اور وحی و نبوت کی زبانیں بھی تفصیلات سے خاموش ہیں۔ تاہم اقوام و جماعت کے مختلف عہد ہمارے سامنے ہیں اور ان سے اس سلسلے کی مختلف کڑیاں بہم پہنچائی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ تمام کڑیاں تاریخی ترتیب کے ساتھ یک جا کر دی جائیں تو صاف نظر آ جائے کہ اس سلسلے کی سب سے آخری اور اس لئے سب سے زیادہ یافتہ کڑی وہی ہے جو قرآن نے نوع انسانی کے سامنے پیش کی ہے۔

لیکن یاد رہے یہاں خدا کے تصور سے مقصود اس کی صفات کا تصور ہے، اس کی ہستی کا اعتقاد نہیں۔ (ص ۱۰۳، ۱۰۴)۔ م

۶۰) دی اوریجن اینڈ گروتھ آف فیلیجن – ص ۸ – (The origin and growth of religion)

۶۱) ایضاً – ص ۲۶۲

۶۲) "مردہ کی کتاب” قدیم مصری تصورات کا سب سے زیادہ مرتب اور منضبط نوشتہ ہے۔ مصریات کے مشہور محقق ڈاکٹر بیج (Budge) کی رائے میں یہ سب سے زیادہ قدیم فکری مواد ہے جو مصری آثار نے ہمارے حوالے کیا ہے۔ یہ قوم اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا مصری تمدن ہے۔ لیکن جو تصورات اس میں جمع کئے گئے ہیں وہ مصری تمدن سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔ وہ اتنے قدیم ہیں کہ ہم ان کی قدامت کی کوئی تاریخ معین نہیں کر سکتے۔ اس نوشتے میں اوسریز کے دو صفات ہمیں ملتے ہیں۔ معبود اعظم، الخیر، ازلی بادشاہ، آخرت کا مال۔

۶۳) پہلے ایڈیشن میں اس جملے کی جگہ حسب ذیل جملہ ہے :

بہرحال انسان کے تمام تصورات کی طرح صفات الٰہی کا تصور بھی اس کی ذہنی و معنوی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا رہا ہے۔ (ص ۱۰۵) – م

۶۴) "تجسم” سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی نسبت ایسا تصور قائم کرنا کہ وہ مخلوق کی طرح جسم و صورت رکھتا ہے۔ "شبہ” سے مقصود یہ ہے کہ ایسی صفات تجویز کرنی جو مخلوقات کی صفات سے مشابہ ہوں۔ "تنزیہ” سے مقصود یہ ہے کہ ان تمام باتوں سے جو اسے مخلوقات سے مشابہ کرتی ہوں، اسے مبرا یقین کرنا۔ انگریزی میں تجسم کیلئے انتھروپومارفزم (Anthropomorphism) اور شبہ کے لئے ان تھروپوفیوازم (Anthropophuism) کی مصطلحات استعمال کرتے ہیں۔

۶۵) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ بھی ہے :

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بچے ہوں یا حیوان کے ڈرتے زیادہ ہیں اور انس دیر میں پکڑتے ہیں۔ پہلا اثر جو وہ قبول کریں گے خوف کا ہو گا۔ انس و محبت کا نہ ہو گا۔ (ص ۱۰۶) – م

۶۶) پہلے ایڈیشن میں اسلام سے پہلے کے صرف چار دینی تصورات کا ذکر ہے۔ یعنی اس میں چینی تصور مذکور نہیں ہے۔

اس کے علاوہ چار دینی تصورات کا ذکر بھی مختصر ہے اور اس کا انداز بیان کچھ بدلا ہوا ہے جو ص ۱۰۷ سے ۱۲۱ تک پھیلا ہوا ہے اور درج ذیل ہے۔

ہندوستان تصور میں سب پہلے اپنشدوں کا فلسفہ الٰہی نمایاں ہوتا ہے۔ اپ نشدوں کے مطالب کی نوعیت کے بارے میں زمانہ حال کے شارحوں اور نقادوں کی آراء متفق نہیں ہیں۔ (اپنشدوں کے متعلق ہماری جس قدر بھی معلومات ہیں تمام مستشرقین یورپ کی تحقیقات سے ماخوذ ہیں۔ مسٹر گف (Gough) کی رائے میں اپنشند روحانیت سے خالی ہیں لیکن پال ڈیوسن (Paul Deussen) میکس ملر (Max-Muller) اور نائٹ (Knight) انہیں روحانیت کی سرچشمہ کہتے ہیں۔ مشہور جرمن حکیم شوپن ہار (Schopenhauer) تو اس درجہ معترف ہوا کہ اس کا یہ جملہ مشہور ہو گیا ہے : "اپنشد زندگی بھر میری تشفی کرتے رہے اور دم آخر بھی مجھے انہیں سے تشفی ملے گی۔”

تمام ایک بات بالکل واضح ہے یعنی اپنشد مسئلہ وحدۃ الوجود کا سب سے قدیم سرچشمہ ہیں۔ اور گیتا کا زمانہ تصنیف کچھ ہی کیوں نہ ہو، لیکن وہ بھی اپنشد ہی کی صداؤں کی بازگشت ہے۔ مسئلہ وحدۃ الوجود خدا کی ہستی و صفات کا جو تصور پیدا کرتا ہے اس کی نوعیت کچھ عجیب طرح کی واقع ہوئی ہے۔ ایک طرف تو وہ ہر وجود کو خدا قرار دیتا ہے، کیونکہ وجود حقیقی کے علاوہ اور کوئی وجود موجود ہی نہیں۔ دوسری طرف خدا کے لئے کوئی محدود اور مقید تخیل بھی قائم نہیں کرتا۔ بحر حال جو کچھ بھی ہو یہ تصور اپنی نوعیت میں اس درجہ فلسفیانہ قسم کا تھا کہ کسی عہد اور ملک میں بھی عامۃ الناس کا عقیدہ نہ بن سکا۔ کود ہندوستان میں بھی اس کی حیثیت فلسفہ الہیات کے ایک مذہب (اسکول) سے زیادہ نہیں رہی۔ بہترین تعبیر جو اس صورت حال کی کی گئی ہے یہ کہ عوام کے لئے اصنام پرستی قرار دی گئی تھی اور خواص کے لئے وحدۃ الوجود کا اعتقاد تھا۔ اپنشدوں کے بعد بدھ مذہب کی تعلیم نمایاں ہوتی ہے اور ظہور قرآن کے وقت ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔ بدھ مذہب کی بھی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ مستشرقین کا ایک گروہ اسے اپنشدوں کی تعلیم ہی کی ایک عملی شکل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے "نروان” میں جذب و انفصال کا عقیدہ پوشیدہ ہے، یعنی سرچشمہ الوہیت سے ہستی انسانی نکلی ہے پھر اسی میں داخل ہو جانا "نروان” ہے۔ لیکن دوسرا گروہ اس سے انکار کرتا ہے۔ اس گروہ کی رائے میں بدھ مذہب خدا کی ہستی کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتا۔ وہ دنیا کا تنہا مذہب ہے۔ جس نے فلسفیانہ عقائد کو مذہب کا جامہ پہنا دیا۔ وہ صرف "پراکرتی” یعنی مادہ ازلی کا ذکر کرتا ہے جسے طبیعت اور نفس حرکت میں لاتے ہیں۔ "نروان” سے مقصود یہ ہے کہ ہستی کی انانیت فنا ہو جائے اور زندگی کے عذاب سے چھٹکارا مل جائے۔ ہم جب ان تصریحات کا مطالبہ کرتے ہیں جو براہ راست گوتم بدھ کی طرف منسوب ہیں تو ہمیں دوسری تفسیر ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔

جہاں تک فطرت کائنات کی صفات کا تعلق ہے، گوتم بدھ دنیا میں دردو اذیت کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ زندگی اس کے نزدیک سر تا سر عذاب ہے۔ وہ کہتا ہے زندگی کی بڑی اذیتیں چار ہیں۔ پیدائش، بڑھاپا، بیماری، موت۔ اور نجات کی راہ "اشٹانگ مارگ” ہے یعنی آٹھ راہوں کا سفر۔ ان آٹھ عملوں سے مقصود علم صحیح، رحم و شفقت، قربانی، ہوا و ہوس سے آزادی اور انانیت فنا کر دینا ہے۔ (ڈیوؤش ارلی بدھ ازم (David’s Early Buddhism)۔

یہودیوں کا تصور تجسیم اور تنزہ کے بین بین تھا اور صفات الٰہی میں غالب عنصر قہر و غضب کا تھا۔ خدا کا گاہ گاہ متشکل ہو کر نمودار ہونا، مخاطبات الٰہیہ کا سر تا سر انسانی صفات و جذبات پر مبنی ہونا، قہر و انتقام کی شدت اور ادنی درجے کا تمثیلی اسلوب تورات کے صفحات کا عام تصور ہے۔ مسیحی تصور رحم و محبت کا پیام تھا اور خدا کے لئے باپ کی محبت و شفقت اک تصور پیدا کرنا چاہتا تھا تجسیم و تنزہ کے لحاظ سے اس نے کوئی قدم آگے نہیں بڑھایا۔ گویا اس کی سطح وہیں تک رہی جہاں تک تورات کا تصور پہنچ چکا تھا۔ لیکن حضرت مسیح کے بعد جب مسیحی عقائد کا رومی اصنام پرستی کے تخیلات سے امتزاج ہوا تو اقالیم ثلاثہ، کفارہ اور مریم پرستی کے عقائد پیدا ہو گئے۔ نزول قرآن کے وقت بحیثیت مجموعی مسیحی تصور ترحم و محبت کے ساتھ کفارہ، تجسیم اور مریم پرستی کا مخلوط تصور تھا۔

ان تصورات کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان کا بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصورات کی طرح قوموں کا تصور نہ ہو سکا تاہم اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید و تنزیہ کا اعتقاد نشو پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط کی حکمت میں نمایاں ہوئی۔ سقراط کے تصور الٰہی کا جب ہم سراغ لگاتے ہیں تو افلاطون کی شہرہ آفاق کتاب جمہوریت (Republic) میں حسب ذیل مکالمہ ملتا ہے۔

افلاطون کی جمہوریت مکالمہ کے پیرایہ میں ہے۔ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہا یک عید کے موقع پر سقراط اور گلوکن (Glaucon) سیفالس (Cephalus) کے مکان میں جمع ہوئے۔ سیفالس کا لڑکا پولی مارکس (Polemarchus) اڈمنٹن (Adeimantus) اورنسیر (Niceratus) بھی موجود تھے۔ اثنائے گفتگو میں سوال پیدا ہو گیا کہ عدالت کی حقیقت کیا ہے۔ اس پر پولی مارکس اور بعض حاضرین نے یکے بعد دیگرے عدالت کی تعریف بیان کی لیکن سقراط انہیں رد کرتا رہا۔ پھر عدالت میں سے بات نکلتے ہوئے حکومت و قوانین کی نوعیت تک پہنچ گئی اور یہی کتاب کا اصلی موضوع ہے۔ پوری کتاب دس ابواب میں منقسم ہے۔

اشخاص مکالمے میں گلوکن اور اڈمنٹس افلاطون کے بھائی ہیں۔ گلوکن کا ذکر خود افلاطون نے اپنے مقالات میں کیا ہے۔ خلفائے عباسیہ کے عہد کہ "میں نے ارسطو کی کتاب السیاستہ کی شرح لکھنی چاہی تھی، لیکن اندس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا، مجبوراً افلاطون کی کتاب شرح کے لیے منتخب کرتا ہوں ” ابو نصر فارابی نے گو تصریح نہیں کی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ "المدینۃ الفاصلۃ” کا تخیل اسے افلاطون کی جمہوریت ہی سے ہوا تھا۔ ابن رشد کی رح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں، لیکن اصل عربی ناپید ہے یورپ کی زبانوں کے موجودہ تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں ہمارے پیش نظر اے۔ ای۔ ٹیلر (A. E. Taylor) کا انگریزی ترجمہ ہے۔

یاد رہے کہ "ری پبلک” کے لیے "جمہوریہ” کا لفظ موجودہ عہد کی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ اسی عہد کے مترجمین کے اختیارات میں سے ہیں۔

اڈمنٹس نے سوال کیا کہ شعراء کو الوہیت کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرایہ بیان اختیار کرنا چاہیے۔

سقراط : ہر حال میں خدا کی ایسی توصیف کرنی چاہیے جیسی کہ وہ اپنی ذات میں ہے، خواہ قصصی شعر ہو، خواہ غنائی۔ علاوہ بریں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے، پس ضروری ہے اس کی صفات بھی صلاح و حق پر مبنی ہوں۔

اڈمنٹس : یہ درست ہے۔

سقراط : اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وجود صالح ہو گا، اس سے کوئی بات مضر صادر نہیں ہو سکتی اور جو ہست غیر مضر ہو گی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو ذات صالح ہو گی ضروری ہے کہ نافع بھی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے، شکر کی علت نہیں ہو سکتا۔

اڈمنٹس : درست ہے۔

سقراط : اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدا کا تمام حوادث و افعال کی علت ہونا ممکن نہیں جیا کہ عام طور پر مشہور ہے۔ بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصے کی علت ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلائیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور برائیوں کی علت خدا کی صالح و نافع ہستی نہیں ہو سکتی پس چاہیے کہ صرف اچھائی ہی کو اس طرف نسبت دیں اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈیں۔

اڈمنٹس : میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ امر بالکل واضح ہے۔

سقراط : تو اب ضروری ہوا کہ ہم شعراء کے ایسے خیالات سے متفق نہ ہوں جیسے خیالات ہومر (Homer) کے حسب ذیل اشعار ظاہر کئے گئے ہیں۔ "مشتری (Jupiter) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الارباب یعنی سب سے بڑا دیوتا تھا۔ ہومر نے ایلیڈ میں دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔ اس کی بیوی (Juno) ہوا می ممثلہ اور ازدواج کی دیبی تھی۔ اپالو (Apollo) روشنی کا دیوتا تھا۔ ایتھنا یا منروا (Minerva) حکمت کی دیبی تھی۔ مریخ (Mars) جنگ کا دیوتا تھا۔ زہرہ (Venus) حسن و گرام کی دیبی تھی۔ ہیڈس (Hades) تاریخی اور موت کا دیوتا تھا اور جہنم کا پاسبان یقین کیا جاتا تھا۔ عطارد یا ہرمیس (Hermes) کی نسبت ان کا خیال تھا کہ دیوتاؤں کا پیغام بر ہے۔)

؟؟؟کی ڈیوڑھی میں دو پیالے رکھے ہیں ایک خیر کا ہے ایک شر کا۔ اور وہی انسان کی بھلائی اور برائی کی تمام تر علت ہیں۔ جس انسان کے حصے میں پیالہ خیر کی شراب آ گئی اس کیلئے تمام تر خیر ہے، جس کے حصے میں شرکا گھونٹ آ گیا، اس کے لئے تمام تر شر ہے۔ اور پھر جس کسی کو دونوں پیالوں کا ملا جلا گھونٹ مل گیا اس کے حصے میں اچھائی بھی آ گئی برائی بھی آ گئی۔ (۵)

پھر آگے چل کر تجسیم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور اس سے انکار کیا ہے کہ خدا ایک بازی گر اور بہروپیے کی طرح کبھی ایک بھیس میں نمودار ہوتا ہے، کبھی دوسرے بھیس میں۔ (۶)

حکماء یونان کے تصور الٰہی کی یہ سب سے بہتر شبیہ ہے جو افلاطون کے قلم سے نکلی ہے۔ یہ خدا کے تشکل سے انکار کرتی ہے اور صفات ردیہ و خسیسیہ سے بھی ایک منزہ تخیل پیش کرتی ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی صفات حسنہ کا کوئی ارفع و اعلیٰ تصور نہیں رکھی۔ اور خیر و شر کی گتھی سلجھانے سے یک قلم عاجز ہے۔ اسے مجبوراً یہ اعتقاد پیدا کرنا پڑا کہ حوادث عالم اور افعال انسانی کا غالب حصہ خدا کے دائرہ تصرف سے باہر ہے، کیونکہ دنیا میں غلبہ شر کو ہے نہ کہ خیر کو اور خدا کو شر کا صانع نہیں ہونا چاہیے۔

بہرحال چھٹی صدی مسیحی میں دنیا کی خدا پرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک پہنچے تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔

اب غور کرو کہ قرآن کے تصور الٰہی کا کیا حال ہے۔ جب ہم ان تصورات کے مطالعے کے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آ جاتا ہے کہ تصور الٰہی کے تمام عناصر میں اس کی جگہ سب سے الگ اور سب سے بلند ہے۔ اس سلسلے میں حسبِ ذیل امور قابل غور ہیں۔

اولاً، تجسیم اور تنزیہ کے لحاظ سے قرآن کا تصور تنزیہ کی ایسی تکمیل ہے جس کی کوئی نمود اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔ قرآن سے پہلے تنزیہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا ذہن انسانی متحمل ہو سکا تھا، یہ تھا کہ اصنام پرستی کی جگہ ایک ان دیکھے خدا کی پرستش کی جائے، لیکن

(۵) (یہ اشعار ایلیڈ (Illiad) کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے عدیم النظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل کیا ہے :

فباعناب زفی قارودتان

دی لخیر و ذی لثر الھوان

فیھما کل قسمۃ الانسان

فالذی معھما مزیجا الالا

زفس یلقی، خیر او یلقی و بالا

والذی لا ینال من الثر

فنعابہ الخطوب التیابا

بطواہ یطوی البالد کلیلا

تائھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا

من بنی الخل و الوری مخذولا

(الیاذہ نشید ۲۴ ص ۱۳۱)

(ان اشعار میں "زفس” سے مقصود مشتری ہے۔)

(۶) دی ری پبلک، ترجمہ ٹیلر، باب دوم

جہاں تک صفات الٰہی کا تعلق ہے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہیئت کے تمثل سے کوئی تصور بھی خالی نہ تھا۔ یہودی تصور جس نے اصنام پرستی کی کوئی شکل بھی جائز نہیں رکھی تھی، اس کے شبہ و تمثیل سے یک سر آلودہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا کر ممرے کے بلوطوں میں دیکھنا، خدا کا حضرت یعقوب سے کشتی لڑنا، مصر سے خروج کے وقت بدلی اور آگ کا ستون بن کر رہنمائی کرنا، کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا، حضرت موسیٰ کا خدا کو پیچھے سے دیکھا، خدا کا جوش غضب میں آ کر کوئی کام کر بیٹھنا اور پھر پچھتانا، بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بد چلنی پر ماتم کرنا، ہیکل کی تباہی پر اس کا نوحہ، اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑ جانا تورات کا عام اسلوب بیان ہے۔

اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے فکر انسانی اس درجہ بلند نہیں ہوا تھا کہ تمثیل کا پردہ ہٹا کر صفات الٰہی کا جلوہ دیکھ لیتا۔ اس لئے ہر تصور کی بنیاد تمام تر تمثیلی و تشبیہ ہی پر رکھنی پڑی۔

مثلاً تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبور کے ترانوں اور امثال سلیمان میں خدا کے لئے شائستہ صفات کا تخیل موجود ہے، لیکن دوسری طرف خدا کا کوئی مخاطبہ ایسا نہیں جو سر تا سر انسانی اوصاف و جذبہ کی شبیہ سے مملو نہ ہو۔ حضرت مسیح نے جب چاہا کہ رحمت الٰہی کا عالم گیر تصور پیدا کریں تو وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لئے باپ کی تشبیہ سے کام لیں اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور ابنیت مسیح کا عقیدہ پیدا کر لیا۔

لیکن ان تمام تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف طرف رخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اچانک فکر و تصور کی ایک بالک نئی دنیا سامنے آ گئی۔ یہاں تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے بیک دفعہ اٹھ جاتے ہیں، انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت مفقود ہو جاتی ہے۔ ہر گوشے میں مجاز کی جگہ حقیقت کا جلوہ نمایاں ہو جاتا ہے اور تجسیم کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔ تنزیہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے کہ :

ۚ لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ ۖ(۴۲:۱۱) اس کے مثل کوئی شے نہیں، کسی چیز سے بھی تم اسے مشابہ نہیں ٹھہرا سکے۔

لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ (۶:۱۰۳)

انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں، لیکن وہ انسان کو دیکھ رہا ہے، وہ بڑا ہی باریک بین اور آگاہ ہے۔

اللہ کی ذات یگانہ ہے، بے نیاز ہے، اسے کسی کی احتیاج نہیں، نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا اسلوب بیان اس تمثیلی اسلوب سے بالکل مختلف ہے۔ جو تورات و انجیل وغیرہا میں پایا جاتا ہے۔ وہ ہر موقع پر تمثیل و مجاز کی جگہ حقیقت کا تصور پیدا کرنا چاہتا ہے اور تشبیہ کی جگہ تنزیہ کے اعتقاد پر زور دیتا ہے وہ نہ تو خدا کی ہستی کو مادے کی طرح اجسام و اشکال کی اصل قرار دیتا ہے، نہ تو رات کی طرح شوہر کی تشبیہ اختیار کرتا ہے، نہ انجیل کی طرح باپ کے رشتے سے مشابہت پیدا کرتا ہے۔ بلکہ براہ راست ایک خالق اور مالک ہستی کا نور پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی ربوبیت و رحمت و صفات کاملہ و حسنہ کا ایک مکمل نقشہ کھینچ دیتا ہے۔ یہ گویا اس تعلیم کا سب سے اعلیٰ سبق تھا۔ پچھلے دوروں میں نوع انسانی کی ذہنی استعداد اس درجہ شائستہ نہیں ہوئی تھی کہ تمثیلوں کے بغیر حقیقت کا تصور پیدا کر سکتی، لامحالہ پیرایہ تعلیم بھی تمام تر تشبیہ و مجاز پر مبنی ہوتا تھا۔ لیکن جب تعلیم اپنے درجہ کمال تک پہنچ گئی تو تمثیلوں کی ضرورت باقی نہ رہی۔ ضروری ہو گیا کہ اب حقیقت براہ راست اپنا جلوہ دکھلا دے ! تورات اور قرآن کے جو مقامات مشترک ہیں وقت نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو، تورات میں جہاں کہیں خدا کی براہ راست نمود کا ذکر کیا گیا ہے قرآن وہاں خدا کی تجلی کا ذکر کرتا ہے۔ تورات میں جہاں یہ پاؤ گے کہ خدا متشکل ہو کر اترا، قرآن اس موقع کی یوں تعبیر کرے گا کہ خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر نمودار ہوا۔ بطور مثال کے صرف اک مقام پر نظر ڈالی جائے۔ تورات میں ہے :

خداوند نے کہا : اے موسیٰ! دیکھ یہ جگہ میرے پاس ہے، تو اس چٹان پر کھڑا رہ اور یوں ہو گا کہ جب میرے جلال کا گزر ہو گا تو میں تجھے اس چٹان کی دراڑ میں رکھوں گا اور جب تک نہ گزر لوں گا، تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپے رہوں گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میں ہتھیلی اٹھا لوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا، لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ (خروج ۲۰:۳۳)

تب خداوند بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمے کے دروازے پر کھڑا رہا۔۔۔ اس نے کہا : "میرا بندہ موسیٰ اپنے خداوند کی شبیہ دیکھے گا” (گنتی ۵:۱۲) اس معاملے کی تعلیم قرآن نے یوں کی ہے۔

قَالَ رَبِّ أَرِنِی أَنظُرْ إِلَیْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِی وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ (۷:۱۴۳)

موسیٰ نے کہا: اے پروردگار! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیری طرف نگاہ کر سکوں فرمایا: نہیں، تو کبھی نہیں دیکھے گا۔ لیکن ہاں ! اس پہاڑ کی طرف دیکھ۔

البتہ یاد رہے کہ تنزیہ اور التعطیل میں فرق ہے۔ تنزیہ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پینچ ہے صفات الٰہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے۔ تعطیل کے معنی یہ ہیں کہ تنزیہ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لئے کوئی بات باقی ہی نہ رہے۔ قرآن کا تصور تنزیہ کی تکمیل ہے، تعطیل کی ابتدا نہیں ہیں۔ اگر خدا کے تصور کے لیے صفات و اعمال کی کوئی ایسی صورت باقی ہی نہ رہے جس کا فکر انسانی ادراک کر سکتی ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تنزیہ کے معنی نفی وجود کے ہو جائیں گے۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ خدا کے لئے کوئی صفت نہیں قرار دی جا سکتی، اس لئے کہ جو صفت بھی قرار دی جائے گی۔ اس میں مخلوقات کے اوصاف سے مشابہت پیدا ہو جائے گی تو ظاہر ہے کہ عقل انسانی کسی ایسی ذات کا تصور ہی نہیں کر سکتی، یا مثلاً اگر نفی مماثلت میں اس درجہ غلو کیا جائے کہ خدا کی ہستی اثبات کی جگہ سر تا سر نفی ہو جائے تو عقل انسانی کے لئے بجز اس کے کیا رہ جائے گا کہ وجود کی جگہ عدم کا تصور کرے۔ پس قرآن نے تنزیہ کا جو مرتبہ قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے، مگر ساتھ ہی اصلاً مماثلت کی نفی بھی کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : خدا خوبی و جمال کی تمام صفتوں سے متصف ہے۔ وہ زندہ ہے، قادر ہے، پرورش کندہ ہے، رحیم ہے، سننے والا ہے، دیکھنے والا ہے، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اختیار اور ارادہ و فعل کی جتنی شائستہ تعبیرات ہیں انہیں بھی بلا تامل استعمال کرتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے : خدا کے ہاتھ کشادہ ہیں ” بَلْ یَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ(۵:۷۴) اس کے تخت حکومت کے تصرف سے کوئی گوشہ باہر نہیں "وسع كرسیه السماوات والارض” (۲:۲۵۵) وہ اپنے عرش جلال پر متمکن ہے۔

الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ (۲۰:۵)

لیکن ساتھ ہی یہ واضح کر دیتا ہے کہ جتنی چیزیں کائنات ہستی میں موجود ہیں یا جتنی چیزوں کا بھی تم تصور کر سکتے ہو ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کے مثل ہو "لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ ۖ( ۴۲:۱۱)

تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی "لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ” (۶:۱۰۳)

پس ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں ہو سکتا، اس کی ربوبیت ہماری ربوبیت کی سی نہیں ہو سکتی، اس کا جاننا، دیکھنا سننا ویسا نہیں ہو سکتا جیسا ہمارا جاننا، دیکھنا اور سننا ہے۔ اس کی قدرت و بخشش کا ہاتھ اور کبریائی و جلال کا عرش ضرور ہے، لیکن یقیناً ان کا مطلب وہ نہیں ہو سکتا جو ان الفاظ سے ہمارے ذہن میں متشکل ہو جاتا ہے۔

اسلام فرقوں میں سے جہمیہ اور باطنیہ نے جو صفات کی نفی کی تھی تو وہ اسی غلطی کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ تنزیہ اور تعطیل میں فرق نہ کر سکے۔ (۷)

(۷)مسئلہ صفات میں محدثین و سلفیہ کا متکلمین سے اختلاف بھی دراصل اسی اصل پر مبنی تھا یہ بات نہ تھی کہ وہ تجسیم کی طرف مائل تھے جیسا کہ ان کے متعصب مخالفوں نے مشہور کیا۔ متاخرین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلے پر نہایت دقت نظر کے ساتھ بحث کی ہے۔ ان کے شاگرد امام اب قیم کی "اجتماع جیوش اسلامیہ” بھی اسی موضوع پر ہے اور اس باب میں کفایت کرتی ہے۔)

ثانیاً، تنزیہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ سے بھی قرآن کے تصور پر نظر ڈالی جائے تو اس کی شان تکمیل نمایاں ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔ مجوسی تصور نے نور و ظلمت کی دو مساویانہ قوتیں الگ الگ بنا لی تھیں۔ مسیحی تصور نے رحم و محبت پر زور دیا، عدالت پر اس کی نظر نہیں پڑی۔ گویا جہاں تک رحمت و جمال کا تعلق ہے یا قہر و غصب کا عنصر غالب تھا یا مساوی تھا، یا پھر رحمت و محبت آئی تھی تو اس طرح آئی تھی کہ عدالت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔

لیکن قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایسا کامل تصور پیدا کر دیا کہ قہر و غضب کے لیے کوئی جگہ نہ رہی، دوسری طرف جزا اور سزا کا سرشتہ بھی ہاتھ سے نہیں دیا۔ کیونکہ جزا اور سزا کا اعتقاد قہر و غضب کی بنا پر نہیں، بلکہ عدالت کی بنا پر قائم کر دیا۔ چنانچہ صفات الٰہی کے بارے میں اس کا عام اعلان یہ ہے :

قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَیًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ(۱۷:۱۱۰)

اے پیغمبر! ان سے کہہ دو تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس صفت سے بھی پکارو اس کی ساری صفتیں حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔

یعنی خدا کی تمام صفتوں کا "اسماء حسنی” قرار دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی کوئی صفت نہیں جو حسن و خوبی کی صفت نہ ہو۔ یہ صفتیں کیا کیا ہیں ؟ قرآن نے پوری وسعت کے ساتھ انہیں جا بجا بیان کیا ہے۔ ان میں ایسی صفتیں بھی ہیں جو قہر و جلال کی صفتیں ہیں، مثلاً جبار، قہار، لیکن قرآن کہتا ہے وہ بھی "اسماء حسنی” ہیں۔ کیونکہ ان میں عدالت الٰہی کا ظہرو ہے اور عدالت حسن و خوب ہے، خاں خواری و خوفناکی نہیں ہے۔ چنانچہ سورۃ حشر میں صفات رحمت و جلال کے ساتھ قہر و جلال کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر متصلاً سب کو "اسماء حسنی” قرار دیا ہے :

هُوَ اللَّهُ الَّذِی لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا یُشْرِكُونَ (۵۹:۲۳) هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ یُسَبِّحُ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ (۵۹:۲۴)

ترجمہ : وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ الملک ہے، القدوس ہے، السلام ہے، المومن ہے، المہیمن ہے، العزیز ہے، الجبار ہے، المتکبر ہے اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اس کی معبودیت میں بنا رکھے ہیں وہ الخالق ہے، الباری ہے، المصور ہے (غرض کہ) اس کے لئے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ آسمان و زمین میں جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اس کی پاکی اور عظمت کی شہادت دے رہی ہیں اور بلاشبہ وہی ہے جو حکمت ساتھ غلبہ و توانائی بھی رکھنے والا ہے۔

اسی طرح سورہ اعراف میں ہے :

*وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَائِهِ ۚ(۷:۱۸۰)

اور اللہ کے لئے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں سو چاہیے کہ ان صفتوں سے اسے پکارو۔ اور جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ اس کی صفتوں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں سو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ چنانچہ اسی لئے سورہ فاتحہ میں صرف تین نمایاں ہوئیں : ربوبیت، رحمت اور عدالت، اور قہر و غضب کی کسی صفت کو یہاں جگہ نہیں دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا تصور الٰہی سر تا سر رحمت و جمال کا تصور ہے۔ قہر و خوف ناکی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔

ثالثاً، جہاں تک توحید و اشراک کا تعلق ہے قرآن کا تصور اس درجہ کامل اور بے لچک ہے کہ اس کی کوئی نظیر پچھلے تصورات میں نہیں مل سکتی۔

اگر خدا اپنی ذات میں یگانہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی صفات میں بھی یگانہ ہو، کیونکہ اس کی یگانگت کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی اگر دوسری ہستی اس کے صفات میں شریک و سہیم مان لی جائے۔ قرآن سے پہلے توحید کے ایجابی پہلو پر تو تمام مذاہب نے زور دیا تھا، لیکن سلبی پہلو نمایاں نہ ہو سکا تھا۔ ایجابی پہلو یہ ہے خدا ایک ہے، سلبی یہ ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں اور جب اس کی طرح کوئی نہیں تو ضروری ہے کہ جو صفتیں اس کے لئے ٹھہرا دی گئی ہیں ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہ ہو۔ پہلی بات توحید فی الذات سے دوسری توحید فی الصفات سے تعبیر کی گئی ہے۔ قرآن سے پہلے فکر انسانی کی استعداد اس درجہ بلند نہیں ہوئی تھی کہ توحید فی الصفات کی نزاکتوں اور بندشوں کی متحمل ہو سکتی اس لئے مذاہب نے تمام تر زور توحید فی الذات ہی پر دیا، توحید فی الصفات اپنی ابتدائی اور سادہ حالت میں چھوڑ دی گئی۔

* اس آیت میں "الحاد فی الاسماء” سے مقصود کیا ہے ؟؟ "الحاد” لحد سے ہے، "لحد” کے معنی "میلان عن الوسط” کے ہیں یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔ ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے لحد کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ "وسط” حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان ای مال عن الحق پس یہاں الحاد فی الاسماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرف ہو جانا۔ امام راغب اصفحانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں کی ہے : "ان یوصف بما لا یصح و صفہ بہ او ان یتاول او صافہ عل مالا یلیق بہ” (مفردات۔ ص ۶۴۶)

یعنی خدا کے لیے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہیں ہونا چاہیے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔)

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں باوجودیکہ تمام مذاہب قبل از قرآن میں عقیدہ توحید کی تعلیم موجود تھی، لیکن کسی نہ کسی صورت میں شخصیت پرستی عظمت پرستی اور اصنام پرستی نمودار ہوتی رہی اور رہنمایانِ مذاہب اس کا دروازہ بند نہ کر سکے۔ ہندوستان میں تو غالباً اول دن ہی سے یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ عوام کی تشفی کے لئے دیوتاؤں اور انسانی عظمتوں کی پرستاری ناگزیر ہے۔ اور اس لئے توحید کا مقام صرف خواص کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ فلاسفہ یونان کا بھی یہی خیال تھا۔ یقیناً وہ اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ کوہ اولیمپس کے دیوتاؤں کی کوئی اصلیت نہیں۔ تاہم سقراط کے علاوہ کسی نے بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ عوام کے اصنامی عقائد میں خلل انداز ہو۔ وہ کہتے تھے : اگر دیوتاؤں کی پرستش کا نظام قائم نہ رہا تو عوام کی مذہبی زندگی درہم برہم ہو جائے گی۔” فیثا غورث کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے اپنا مشہور حسابی قاعدہ معلوم کیا تھا تو اس کے شکرانے میں سو بچھڑوں کی قربانی دیوتاؤں کے نذر کی تھی۔ اس بارے میں سب سے زیادہ نازک معاملہ معلم و رہنما کی شخصیت کا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی تعلیم عظمت و رفعت حاصل نہیں کر سکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہو جائے۔ لیکن شخصیت کے حدود کیا ہیں ؟ یہیں آ کر سب کے قدموں نے ٹھوکر کھائی۔ وہ اس کی ٹھیک ٹھیک حد بندی نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی شخصیت کو خدا کا اوتار بنا لیا، کبھی ابن اللہ سمجھ لیا، کبھی شریک و سہیم ٹھہرا دیا۔ اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم اس کی تعظیم میں بندگی و نیاز کی سی شان پیدا کر دی۔ یہودیوں نے اپنے ابتدائی عہد کی گمراہیوں کے بعد کبھی ایسا نہیں کیا کہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کی ہو۔ لیکن اس بات سے وہ بھی نہ بچ سکے کہ اپنے نبیوں کی قبروں پر ہیکل تعمیر کر کے انہیں عبادت گاہوں کی سی شان و تقدیس دے دیتے تھے۔ گوتم بدھ کی نسبت معلوم ہے کہ اس کی تعلیم میں اصنام پرستی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی آخری وصیت جو ہم تھ پہنچی ہے یہ ہے : "ایسا نہ کرنا کہ میری نعش کی راکھ کی پوجا شروع کر دو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقین کرو نجات کی راہ تم پر بند ہو جائے گی” (۹)۔ لیکن اس وصیت پر جیسا کچھ عمل کیا گیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ نہ صرف بدھ کی خاک اور یادگاروں پر معبد تعمیر کئے گئے، بلکہ مذہب کی اشاعت کا ذریعہ ہی یہ سمجھا گیا کہ اس کے مجسموں سے زمین کا کائی گوشہ خال نہ رہے۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں کسی معبود کے اتنے مجسمے نہیں بنائے گئے جتنے گوتم بدھ کے بنائے گئے ہیں۔ حد ہو گئی کہ فارسی زبان میں بدھ (بت) کا لفظ ہی صنم میں بولا جانے لگا۔ اسی طرح ہمیں معلوم ہے کہ مسیحیت کی حقیقی تعلیم سر تا سر توحید کی تعلیم تھی، لیکن ابھی اس کے ظہور پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۹) فوٹ نوٹ : ارلی بدھ ازم (Early Buddhism)

پورے سو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ نشو و نما پا چکا تھا۔

لیکن قرآن نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ اس نے توحید ہی پر زور نہیں دیا، بلکہ شرک کی بھی راہیں مسدود کر دیں اور یہی اب باب میں اس کی خصوصیت ہے۔

وہ کہتا : ہر طرح کی عبادت اور نیاز کی مستحق صرف خدا کی ذات ہے۔ پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو توحید الٰہی کا اعتقاد باقی نہ رہا۔

وہ کہتا ہے :

یہ اسی کی ذات ہے جو انسانوں کی پکار سنتی ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتی ہے۔ پس اگر تم نے اپنی دعاؤں اور طلب گاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو گویا تم نے اسے خدا کی خدائی میں شریک کر لیا۔ وہ کہتا ہے :

دعا و استعانت، رکوع و سجود، عجز و نیاز، اعتماد و توکل اور اس طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ پس اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو خدا کے رشتہ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔ اسی طرح عظمتوں، کبریاؤں، کارسازیوں اور بے نیایوں کا جو اعتقاد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے وہی صرف خدا ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لیے بھی پیدا کر لیا تو تم نے اسے خدا کا شریک ٹھہرا لیا اور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہو گیا۔

یہی وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ میں "إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ (۱:۵)” کی تلقین کی گئی۔ اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا۔ پھر دونوں جگہ مفعول کو مقدم کیا جو مفید اختصاص ہے، یعنی صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام قرآن میں اس کثرت کے ساتھ توحید فی الصفات اور رد اشراک پر زور دیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔

سب سے زیادہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حدبندی کا تھا، یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصلی جگہ میں محدود کر دیان، تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لئے سد باب ہو جائے۔ اس بارے میں قرآن نے صاف اور قطعی لفظوں میں جا بجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندگی پر زور دیا ہے محتاج بیان نہیں۔ ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے۔ اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے وہ سب کو معلوم ہے : " اَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنْ مُحَمَّدُ عَبدُہ وَ رَّسُوْ لُہ” یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کے بندے اور رسول ہیں۔ اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا بھی اعتراف ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ صرف اس لیے کہ پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل و اساس بن جائے اور اس کا کوئی موقع باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملے کا تحفظ کیا کیا جا سکتا تھا۔ کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہو سکتا جب کہ وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی کا بھی اقرار نہ کر لے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی ان کی وفات پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے برسر منبر اعلان کر دیا تھا : من کان منکم یعبد محمد افان محمد اقدمات، ومن کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت (بخاری) جو کوئی تم میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی پرستش کرتا تھا سو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد نے وفات پائی۔ اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی پرستش کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے، اس کے لئے موت نہیں۔

رابعاً – قرآن سے پہلے علوم و فنون کی طرح مذہبی عقائد میں خاص و عام کا امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ خدا کا تصور تو حقیقی ہے اور خواص کے لئے ہے۔ ایک تصور عملی ہے اور عوام کے لئے ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تن درجہ قرار دیئے گئے تھے۔ عوام کے لئے دیوتاؤں کی پرستش، خواص کے لئے براہ راست خدا کی پرستش، اخص الخواص کے لئے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔ یہی حال فلاسفہ یونان کا تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم و حکمت ہی کر سکتے ہیں۔ عوام کے لئے اسی میں امن ہے کہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔

لیکن قرآن نے حقیقت و عمل یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رکھا۔ اس نے سب کو خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لئے صفات الٰہی کا ایک ہی تصور پیدا کیا۔ وہ حکماء و عرفاء سے لے کر جہاں و اعوام تک سب کو حقیقت کا ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ہی دروازہ کھولتا ہے۔ اس کا تصور جس طرح ایک حکیم و عارف کے لئے سرمایہ تفکر ہے، اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لئے بھی سرمایہ تسکین۔

خامساً – قرآن نے تصور الٰہی کی بنیاد و نوع انسانی کے عالم گیر وجدانی احساس پر رکھی ہے۔ یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و فکر کی کاوشوں کا ایک معمہ بنا دیا ہو جسے کسی خاص گروہ اور طبقے کا ذہن ہی حل کر سکے۔ انسان کا عالمگیر وجدانی احساس کیا ہے ؟ یہ ہے کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہو گئی، پیدا کی گئی ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔ پس قرآن بھی اس بارے میں جو کچھ بتلاتا ہے صرف اتنا ہی ہے۔ وہ نہ تو توحید وجودی کا ذکر کرتا ہے نہ توحید شہودی کا۔ (۱۰) وہ صرف ایک خالق کائنات ہوتی کا ذکر کرتا ہے جو خوبی و کمال کی تمام صفتوں سے متصف اور نقص و زوال کی تمام باتوں سے منزہ ہے اور اس سے زیادہ فکر انسانی پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔

سادساً – جس ترتیب کے ساتھ سورہ فاتحہ میں یہ تینوں صفتیں بیان کی گئی ہیں دراصل فکر انسانی کی طلب و معرفت کی قدرتی منزلیں ہیں، اور اگر غور کیا جائے تو اسی ترتیب سے پیش آتی ہیں۔ سب سے پہلے ربوبیت کا ذکر کیا گیا، کیوں کہ کائنات ہستی میں سب سے زیادہ ظاہر نمود اسی صفت کی ہے اور ہر وجود کو سب سے زیادہ اسی کی احتیاج ہے۔ ربوبیت کے بعد رحمت کا ذکر کیا گیا، کیونکہ اس کی حقیقت بمقابلہ ربوبیت کے مطالعہ و تفکر کی محتاج ہے اور ربوبیت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تب رحمت کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ رحمت کے بعد عدالت کی صفت بیان کی گئی ہے، کیونکہ یہ اس سفر کی آخری منزل ہے۔ رحمت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عدالت کی بھی نمود ہر جگہ موجود ہے اور اس لئے موجود ہے کہ ربوبیت اور رحمت کا مقتضی یہی ہے۔

۶۷) "کنگ فوزی” فارسی تلفظ ہے، صحیح چینی تلفظ "کونگ-فو-سع” ہے۔ ایرانیوں نے اسے زیادہ صحت کے ساتھ نقل کیا ہے، یعنی صرف اتنی تبدیلی کی کہ "فوسی” کو "فوزی” کر دیا۔ لیکن یورپ کی زبانوں نے اسے یک قلم مسخ کر کے کنفوشس (Confucius) بنا دیا اور اس کی آواز اصل آواز دے اس درجہ مختلف ہو گئی کہ ایک چینی سن کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس چیز کا نام ہے اور کس ملک کی بولی ہے۔

۱۰) توحیدی وجود سے مقصود "وحدۃ الوجود” کا عقیدہ ہے، یعنی خدا کی ہستی کے سوا کوئی ہستی وجود نہیں رکھتی۔ وجود ایک ہی ہے، باقی جو کچھ ہے تعینات کا فریب ہے۔

مگو کہ کثرت اشیا نقیض وحدت ہست

تو در حقیقت اشیا نظر فگن ہمہ اوست

توحید شہودی یہ ہے کہ موجودات خلقت کو بحیثیت موجودات تسلیم کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں جب انہیں وجود الٰہی کی نمود میں دیکھا جاتا ہے تو ان کی ہستی یک قلم ناپید ہو جاتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ غیر موجود ہیں، اس لیے کہ سورج نکل آیا اور اس کی سلطان تجلی میں ستارے ناپید ہو گئے

فلما استبان الصبح ادرج ضوؤہ

باسفارہ لضواء نور الکواکب

۶۸) سنسکرت میں "دشمن” زاہد اور تارک الدنیا کو کہتے ہیں۔ بدھ مذہب کے تارک الدنیا بھی اسی لقب سے پکارے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ پیروان بدھ کو "شمنی” کہنے لگے اس شمنی کو عربوں نے "سمنی” بنا لیا اور وسط ایشیا کے باشندوں نے "شامانی” چنانچہ ذکریا رازی، البیرونی اور ابن الندیم وغیرہم نے بدھ مذہب کا ذکر سمنیہ ہی کے نام سے کیا۔ البیرونی بدھ مذہب کی عالم گیر اشاعت کی تاریخ کی خبر رکھتا تھا۔ چنانچہ کتاب الہند کی پہلی فصل میں اس طرف اشارات کیے ہیں۔

چنگیر خان کی نسبت یہ تصریح ملتی ہے کہ وہ شامانی مذہب کا پیرو تھا۔ یعنی بدھ مذہب کا۔ چونکہ شامانی اور بدھ مذہب کا ترادف واضح نہیں ہوا تھا اس لئے انیسویں صدی کے بعض یورپی مؤرخوں کو طرح طرح کی غلط فہمیاں ہوئی اور اس کا صحیح مفہوم متعین نہ کر سکے۔ یہ غلط فہمی یورپ کے اہل قلم میں آج بھی موجود ہے۔ شمالی سائبیریا اور چینی ترکستان کے ہمسایہ علاقوں کے تورانی قبائل اپنے مذہبی پیشواؤں کو ( جو تبت کے لاماؤں کی طرح ملکی پیشوائی بھی رکھتے ہیں ) "شامان” کہتے ہیں۔ سوویت روس کی حکومت آج کل ان تعلیم و تربیت کا سر و سامان کر رہی ہے۔ یہ لوگ بھی بلاشبہ بدھ مذہب کے پیرو ہیں، لیکن ان کا بدھ مذہب منگولیوں کے منحرف مذہب کی بھی مسخ شدہ صورت ہے، اس لئے اصلیت کی بہت کم جھلک باقی رہ گئی ہے اور اسی لئے ان کی مذہبی اصلیت کے بارے میں آج کل کے مصنف حیرانی ظاہر کر رہے ہیں۔ انگریزی میں انہیں تورانی قبائل کے مذہب کی نسبت شے منزم (Shamanism) کی ترکیب رائج ہو گئی ہے اور جادوگری کے اعمال و اثرات کو (Shamanism) اور (Shamanistic) وغیرہ سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ یہ "شیمن” بھی وہی "شامانی اور "شمنی” ہی کی ایک منحرف صورت ہے۔ چونکہ ان قبائل میں جادوگری کا اعتقاد عام ہے اور وہ اپنے شامانوں سے بیماری میں جادو کے ٹوٹکے کراتے ہیں، اس لئے جادوگری کے لئے یہ لفظ مستعمل ہو گیا ہے۔

۶۹) رگ وید – حصہ سوم، ص ۹۰۹

۷۰) رب الا ربابی تصور سے مقصود تصور کی وہ نوعیت ہے جب خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے خداؤں میں ایک خدا سب سے بڑا ہے اور چھوٹے خداؤں کو اس کے ماتحت رہنا پڑتا ہے، جیسا کہ یونانیوں کا عقیدہ مشتری کی نسبت تھا۔

۷۱) رگ وید اور اپنشد کے مطالب کے لئے ہم نے حسب ذیل مصادر سے مدد لی ہے :

Max-Muller : دی ویدک ھیمز The Vedic Hymns

Bloomfield : دی ریلیجن آف دی وید The Religion of the Ved

Kaegi : دی رگ وید The Rig Ved

Ghate : لیکچرز آن دی رگ وید Lectures on the Rigved

Deussen : دی فلاسفی آف دی اپنشدس The Philosophy of the Upnishads

Hume : دی تھرٹین پرنسپل اپنشدس The Thirteen Principal Upnishads

۷۲) ہمارے صوفیائے کرام نے اسی صورت حال کو یوں تعبیر کیا ہے کہ "احدیت” نے مرتبہ "واحدیت” کی تجلی میں نزول کیا۔ "احدیت” یونی یگانہ ہونا، "واحدیت” یعنی اول ہونا۔یگانہ ہستی کو ہم اول نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اول جبھی ہو گا جب دوسرا، تیسرا اور چوتھا بھی ہو، اور یگانگی بحث کے مرتبے میں دوسرے اور تیسرے کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن جب "احدیت” نے "واحدیت” کے مرتبے میں نزول کیا تو اب "ھوالاول” کا مرتبہ ظہور میں آ گیا۔ اور جب اول ہو تو دوسرے، تیسرے اور چوتھے کے تعینات بھی ظہور میں آنے لگے۔ وما املح قول الشاعر العارف

دریای کہن چو برزند موجہ تو

موجش کونند وفی الحقیقت دریاست

۷۳) پروفیسر اس- رادھا کرشنن، انڈین فلاسفی (Indian Philosophy) جلد اول صفحہ ۱۴۴۔ طبع ثانی۔

۷۴) اگر اپنشد کی اشراکی کی لچک کے دوسرے صریح شواہد موجود نہ ہوتے تو اس طرح کی تصریحات بہ آسانی مجازات پر محمول کی جا سکتی تھیں، چنانچہ داراشکوہ نے انہیں استعارات ہی پر محمول کیا ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اپنشد ایک سو ساٹھ ہیں اور مختلف عہدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ ہر اپنشد اپنے عہد کے تدریجی تصورات و مباحث کے اثرات پیش کرتا ہے اور یہاں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ان نتائج پر مبنی ہے جو مجموعی حیثیت سے نکالے گئے ہیں۔

۷۵) ویدانت پاری جات – سوربھ، جلد سوم صفحہ ۲۵۔ اس کا انگریزی ترجمہ مترجمہ ڈاکٹر رومابوس (Dr. Roma Bose) رائل ایشیا سوسائٹی بنگال نے حال میں شائع کیا ہے۔

۷۶) البیرونی نے کتاب الہند میں بعض سنسکرت کتابوں سے بتوں کے بنانے کے احکام و قواعد نقل کیے ہیں۔ اس کے بعد لکھتا ہے :

"وکان الغرض فی حکایۃ ھذا الھذیان ان تعرف الصورۃ میں صنمھا اذا شوھد۔ ولیتحقق ماقلنا من ان ھذہ الاصنام منصوبۃ العوام الذین سفلت مراتبھ، و قصرت معارفھم۔ فما عمل صنم قط باسم من علا المادۃ فضلا عن اللہ تعالی۔ ولیعرف کیف یعبد السفل بالتمویھات، ولذلک قیل فی کتاب "گیتا” ان کثیرا من الناس یتقربون فی مباغیھم الی بغیری و یتوسلون بالصدقات والتسبیح و لا صلاۃ لسوای فاقویھم علیھا و او فقھم لھا و او صلھم الی ارادتھم لا ستغنائی عنھم” (صفحہ ۹۳، ۹۴)

آج کل کے تمام ہندو اہل نظر جو ہندو عقائد و تصورات کی فلسفیانہ تعبیر کرنی چاہتے ہیں عموماً یہی توجیہ پیش کرتے ہیں جو البیرونی نے پیش کی تھی۔ ابو الفضل اور دارا شکوہ نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے۔

۷۷) پروفیسر اس۔ رادھا کرشنن : انڈین فلاسفی، جلد اول ۴۵۳۔ طبع ثانی

۷۸) یہ قدیم کتاب جس کا صرف تبتی نسخہ دنیا کے علم میں آیا تھا، اب اصل سنسکرت میں نکل آئی ہے اور گائیکواڑ اورینٹل سیریز کے ادارے نے حال میں شائع کر دی ہے۔ میسور کا مشرقی کتب خانہ بھی اس کا ایک دوسرا نسخہ اشاعت کے لیے مرتب کر رہا ہے۔

۷۹) "نیائے ” یعنی منطق۔ "ویشیسیک” طریق نظر سے مقصود منطقی نقد و تحلیل کا ایک خاص مسلک ہے۔

۸۰) گوتم بدھ کی تعلیم میں "اشٹانگ مارگ” یعنی آٹھ باتوں کا طریقہ ایک بنیادی اصل ہے۔ آٹھ باتوں سے مقصود علم اور عمل کا تزکیہ و طہارت ہے۔ علم حق، رحم و شفقت، قربانی، ہوا و ہوس سے آزادی، خودی کو مٹانا وغیرہ۔

۸۱) میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرا ذاتی استنباط ہے اور مجھے حق نہیں کہ اپنی رائے کو وثوق کے ساتھ ان محققوں کے مقابلے میں پیش کروں جنہوں نے اس موضوع کے مطالعے میں زندگیاں بسر کر دی ہیں۔ تاہم میں مجبور ہوں کہ اپنی محدود معلومات کی روشنی میں جن نتائج تک پہنچا ہوں، ان سے دستبردار نہ ہوں۔ یورپ کے محققوں نے بدھ مذہب کے مصادر کی جستجو و فراہمی میں بڑی کد و کاوش کی ہے اور پالی زبان کے تمام اہم مصادر فرنچ یا انگریزی میں منتقل کر لئے ہیں۔ میں حتی الامکان اس تمام مواد کے مطالعے کی کوشش کی اور بالآخر اسی نتیجہ تک پہنچا۔

۸۲) "ایران” وہی لفظ ہے جو ہندوستان میں "آریا ” ہو گیا ہے۔

اوستا میں چوبیس ملکوں کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سب سے پہلا اور سب سے بہتر "ایریاناویج” (Airyana Vej) ہے اور غالباً اس سے شمالی ایران مقصود ہے (وند یداد، فرگرہ اول، فقرہ۔ ۲) ہرمز ویشت کے فقرہ۔ ۲۱ میں بھی ایریاناویج کا ذکر کیا ہے اور اس درود بھیجا ہے۔ "ویج” جرمن مشتشرق اشپیگل Spiegel کی قراءت ہے، آنک تیل (Anquetil) نے اسے ویگو پڑھا تھا۔ "ویج” یا "ویگو” کے معنی پہلوی میں مبارک کے ہیں، یعنی مبارک ایریانا کی سرزین۔

۸۳) عہد عتیق میں یشعیا نبی کی طرف جو کتاب منسوب ہے اس کی زبان اور مطالب کا آیت ۵۱ تک ایک خاص انداز ہے اور پھر اس کے بعد بالکل دوسرا ہو جاتا ہے۔ ابتدائی حصہ ایک ایسے شخص کا کلام معلوم ہوتا ہے جو قید بابل سے پہلے تھا، لیکن بعد کے حصے میں قید بابل کے زمانے کے اثرات صاف صاف نمایاں ہیں۔ اس لئے انیسویں صدی کے نقادوں نے اسے دو شخصوں کے کلام میں تقسیم کر دیا۔ ایک کو یشعیا اولا اور دوسرے کو دوم سے تعبیر کرتے ہیں۔

۸۴) اسی لئے ہندو تصور نے ماں کی تشبیہ سے کام لیا، کیونکہ ماں کی تشبیہ میں اگرچہ انسانیت آ جاتی ہے، لیکن تشبیہ باپ سے بھی زیادہ پراثر ہو جاتی ہے۔ باپ کی شفقت کبھی کبھی جواب دے دے گی، لیکن ماں کی محبت کی گہرائیوں کے لئے کوئی تھاہ نہیں۔

۸۵) "ناؤس” جس کا تلفظ "ناؤز” کیا جاتا ہے عرب کے "نس” سے اس درجہ صوتی مشابہت رکھتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے "ناوز” تعریب کا جامہ پہن کر "نفس” ہو گیا۔اس طرح نوئٹک (Noetic) اور "ناطق” اس درجہ قریب ہیں کہ دوسرے کو پہلے کی تعریف سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ رینان اور ڈوزی نے نفس ناطقہ کو "نوٗٹک ناوز” کا معرب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہ "ناطق” نطق سے نہیں ہے بلکہ "نوئٹک” کی تعریف ہے جس کے معنی ادراک کے ہیں۔ بعض عربی مصادر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اصل یونانی الفاظ پیش نظر رکھے گئے تھے۔ "نفس” عربی لغت میں ذات اور خود کے معنی میں بولا جاتا تھا اور ارسطو نے عاقلانہ نطق کو انسان کی فصل قرار دیا تھا۔ اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب مترجموں نے یونانی تعبیر سامنے رکھ کر نفس ناطقہ کی ترکیب کر لی اور یہ تعریف خود عربی الفاظ کے مدلول سے بھی ملتی جلتی ہوئی بن گئی۔

۸۶) جمہوریت کے اشخاص مکالمہ مین اڈمنٹس (Adeimantus) اور گلوکن (Glaucon) افلاطون کے بھائی ہیں۔ چنانچہ افلاطون نے خود ایک جگہ اس کی تصریح کی ہے۔

افلاطون کی دوسری مسفات کے ساتھ جمہوریت کا ترجمہ بھی عربی میں ہو گیا تھا۔ چنانچہ چھٹی صدی ہجری میں ابن رشد نے اس کی شرح لکھی۔ شرح کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ میں نے ارسطو کی "کتاب السیاسۃ” کی شرح لکھنی چاہی تھی مگر اندلس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا۔ مجبوراً افلاطون کی کتاب اختیار کرنی پڑی۔ ابن رشد کی شرح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ میں موجود ہیں مگر اصل عربی ناپید ہے، یورپ کے موجودہ تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں ہمارے پیس نظر اے۔ ٹیلر (Taylor) اور بی۔ جوویٹ (Jowett) کے انگریزی تراجم ہیں۔

۸۷) مشتری یعنی زیوس (Zeus) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الا رباب یعنی دیوتاؤں میں سب سے بڑا حکمران دیوتا تھا۔ ھومر (Homer) نے ایلیڈ (Iliad) دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔

۸۸) یہ اشعار ایلیڈ کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے بے نظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل شعروں میں کیا ہے :

فباعتاب زفس قارورتان

ذی لخیر و ذی لشر الھوان

فیھما کل قسمۃ الانسان

فالذی متھما مزیجا انالا

زفس یلقی، خیر او یلقی و بالا

والذی لاینال من الشر

فتنتابہ الخطوب انتیابا

بطواہ یطوی البلاد کلیلا

تانھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا

من بنی الخلد و الوری مخذولا

الیادۃ نید ۲۴ ص ۱۱۳۱، مطبوعہ الہلال، مصر ۱۹۰۴ء

ان اشعار میں "زفس” یونانی "زیوس” کی تعریب ہے۔

۸۹) دی ری پبلک، ترجمہ ٹیلر، باب ۲

۹۰) Stephen Mackenna جلد ۲ صفحہ ۱۳۴

۹۱) ایضاً

۹۲) ایضاً

۹۳) ایضاً جلد اول صفحہ ۱۱۸ مذہب افلاطون جدید افلاطون کی طرف اس لئے منسوب ہوا کہ اس کی بنیاد بعض افلاطونی مبادیات پر رکھی گئی تھی، مگر پھر اپنی بحث و نظر میں اس نے جو راہ اختیار کی اور جن نتائج تک پہنچا انہیں افلاطون سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن عرب فلاسفہ کا ایک بڑا طبقہ اس غلط فہمی میں پڑ گیا کہ فی الحقیقت یہ افلاطون ہہی کا مذہب ہے۔ اس مذہب کے بعض فلسفیوں مثلاً فوریوش نے ارسطو کی شرح کرتے ہوئے اس کے مذہب میں جو اضافے کئے تھے، اس بھی عرب حکماء اصل سے ممتاز نہ کر سکے۔ چنانچہ ابو نصر فارابی نے "الجمع بین الرایین” میں ارسطو کا جو مذہب ظاہر کیا ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ابن رشد پہلا عرب فلسفی ہے جس نے غلط فہمی مھسوس کی اور ارسطو کے مذہب کو شارحوں کے اضافے سے خالص کے دیکھا چہا۔

سنہ ۵۲۹م جب شہنشاہ جسٹینین (Justinian) کے حکم سے اسکندریہ کے فلاسفہ جلاوطن کیے گئے تو ان میں سے بعض نے ایران میں پناہ لی۔ چنانچہ سمپلیسیس (Simplicius) اور ڈیماسیس (Damasess) خسرو کے دربار میں معزز جگہ رکھتے تھے۔ ان فلاسفہ کی وجہ سے پہلوی زبان بھی مذہب افلاطون جدید سے آشنا ہو گئی اور ایرانی حکماء نے اسے قومی رنگ دینے کے لئے زرتشت اور جاماسپ کی طرف منسوب کر دیا۔ عربی میں جب پہلوی ادبیات منتقل ہوئیں تو یہ فلسفیانہ مقالات بھی ترجمہ ہوئے اور عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ زردشت اور جاماسپ کی ایک پراسرار فلسفہ ہے۔ چنانچہ شیخ شہاب الدین نے "حکمۃ الاشراق” میں اور شیرازی نے اس کی شرح میں دونوں غلطیاں جمع کر دی ہیں۔ وہ مذہب افلاطون جدید کو افلاطون کا مذہب سمجھتے ہیں اور زردشت اور جاماسپ کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔

۹۴) "ھو اللطیف الخبیر” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا۔ م

۹۵) "نیتی” یعنی کلمہ نفی۔ وہ ایسا بھی نہیں ہے، ایسا بھی نہیں ہے۔ برھد رنیاک اپنشد میں یہ نفی دور تک چلی گئی ہے۔ وہ کثیف ہے ؟ نہیں۔ وہ لطیف ہے ؟ نہیں۔ وہ کوتاہ ہے ؟ نہیں۔ وہ دراز ہے ؟ نہیں۔ غرضیکہ ہر مشابہت کے جواب میں "نہیں ” دہرایا جاتا ہے۔ نہ وہ ایسا ہے، نہ وہ ویسا ہے، نہ یہ ہے نہ وہ ہے۔

اے برون ازدھم و قال و قیل من

خاک بر فرق و تمثیل من

۹۶) یقیناً تمہارا پروردگار تمہیں گھات لگائے تاک رہا ہے۔

۹۷) اور جب میرا بندہ تجھ سے میری نسبت سوال کرتا ہے تو اس سے کہہ دے کہ میں اس سے دور کب ہوں ؟ میں تو بالکل اس کے پاس ہوں۔ [اور جب وہ پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں۔] (۱۱)

۹۸) تفویض کے مسلک سے مقصود یہ ہے کہ جو حقائق ہمارے دائرہ علم و ادراک سے باہر ہیں ان میں رد و کد اور باریک بینی نہ کرنا اور اپنے عجز و نارسائی کا اعتراف کر لینا۔

۹۹) شنکر بھاشیا ۱۲:۱ اور چتھدوگیہ اپنشدقسم۔ ۸۔

۱۰۰) اس آیت میں "الحاد فی الاسماء” سے مقصود کیا ہے ؟ الحاد "لحد” سے ہے، لحد کے معنی "میلان عن الوسط” کے ہیں، یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔ اسی لیے ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے "لحد” کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لئے ہو بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وسط حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان، ای مال عن الحق۔ پس یہاں الحاد الا سماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرک ہو جانا۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں ادا کی ہے۔ ان یوصف بما لا یصح وصفہ بہ، او ان یتاول اوصافہ علی مالا یلیق بہ” (مفردات ۴۲۴) یعنی خا کے لئے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہین ہونا چاہیے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔

۱۰۱) ارلی بدھ ازم (Early Buddhism)

۱۰۲) باب مرض النبی وفاتہ۔ م

۱۰۳) گرشیم کے قانون سے مقصود اقتصادیات کی یہ اصل ہے کہ اگر کھرے سکوں کے ساتھ کھوٹے سکے ملا دیے جائیں گے تو کھرے سکوں کی قیمت باقی نہین رہے گی۔

۱۰۴) پروفیسر ایس۔ رادھا کرشنن، انڈیا فلاسفی، جلد اول صفحہ ۱۱۹، طبع ثانی۔

۱۰۵) پہلے ایڈیشن مص ۱۲۶ میں یہ عبارت "اگر اس نے۔۔۔۔۔ اور فیصلہ کن ہوتا” موجود نہیں ہے۔

۱۰۶) یاد رہے کہ عربی میں قلب اور فواد کے معنی محض اس عضو ہی کے نہیں ہیں جسے اردو میں دل کہتے ہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق عقل و فکر پر بھی ہوتا ہے۔ قرآن میں جہاں کہیں سمع و بصر وغیرہ کے ساتھ قلب اور فواد کہا گیا ہے اس سے مقصود جوہر عقل ہے۔

۱۰۷) پہلے ایڈیشن میں قوسین میں یہ جملے زیادہ ہیں (پس جو کوئی سیدھی راہ چلے گا، اس کے لئے دونوں جگہ کامیابی ہے اور جو منحرف ہو گا اس کے لئے دونوں جگہ نامرادی)

———————————————– (۱۱) ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔

۱۰۸) پہلے ایڈیشن میں ص ۱۲۷ پر قوسین میں یہ عبارت زیادہ ہے (پس تمہاری مذہبی گروہ بندیوں کی ملتوی کی میں کیوں پیروی کر سکتا ہوں ! میں راہ تمہاری خود ساختہ ملتوں کی راہ نہیں ہے اللہ کی عالمگیر ہدایت کی راہ ہے (م)۔

۱۰۹) پہلے ایڈیشن میں ص ۱۳۰ پر قوسین میں یہ عبارت زیادہ ہے (یعنی ہمارے قوانین کی رو سے وہی آبادی ہلاک ہوتی ہے جو ظلم و فساد میں غرق ہو جاتی ہے اور ہدایت الٰہی سے انکار کرتی ہے ) (م)۔

۱۱۰) پہلے ایڈیشن میں "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے (م)

۱۱۱) سابقہ دونوں ایڈیشنوں میں یہ لفظ چھوٹ گیا تھا۔ حدیث ابن مسعود جو اسی صفحے میں درج ہے، اس سے اضافہ کیا گیا ہے (م)

۱۱۲) پہلے ایڈیشن میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ یعنی خدا پرستی اور نیک عملی (م)

۱۱۳) پہلے ایڈیشن ص ۱۶۹ میں یہ فقرہ نہیں ہے۔ (م)

٭٭٭