ام الکتاب ۔ تفسیر سورۃ الفاتحۃ (12/12) ، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ


خلاصہ بحث 

متذکرہ صدر تفصیلات کا ما حصل حسبِ ذیل دفعات میں بیان کیا جا سکتا ہے :

۱۔ نزول قرآن کے وقت دنیا کا مذہبی تخیل اس سے زیادہ وسعت نہیں رکھتا تھا کہ نسلوں، خاندانوں اور قبیلوں کی معاشرتی حد بندیوں کی طرح مذہب کی بھی ایک خاص گروہ بندی کر لی گئی تھی۔ ہر گرہ بندی کا آدمی سمجھتا تھا دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے۔ جو انسان اس مذہبی حد بندی میں داخل ہے نجات یافتہ ہے، جو داخل نہیں ہے نجات سے محروم ہے۔

۲۔ ہر گروہ کے نزدیک مذہب کی اصل و حقیقت محض اس کے ظاہری اعمال ورسوم تھے۔ جوں ہی ایک انسان انہیں اختیار کر لیتا، یقین کیا جاتا کہ نجات و سعادت اسے حاصل ہو گئی، مثلاً عبادت کی شکل، قربانیوں کی رسوم، کسی خاص طعام کا کھانا یا نہ کھانا، کسی خاص وضع و قطع کا اختیار کرنا یا نہ کرنا۔

۳۔ چونکہ یہ اعمال و رسوم ہر مذہب میں الگ الگ تھے اور ہر گروہ کے اجتماعی مقتضیات یکسان نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے ہر مذہب کا پیرو یقین کرتا تھا کہ دوسرا مذہب مذہبی صداقت سے خالی ہے، کیونکہ اس کے اعمال و رسوم ویسے نہیں ہیں جیسے خود اس نے اختیار کر رکھے ہیں۔

۴۔ ہر مذہبی گروہ کا دعویٰ صرف یہی نہ تھا کہ وہ سچا ہے، بلکہ یہ بھی تھا کہ دوسرا جھوٹا ہے۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہر گروہ صرف اتنے ہی پر قانع نہیں رہتا کہ اپنے ی سچائی کا اعلان کر دے، بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا کہ دوسروں کے خلاف تعصب و نفرت پھیلائے۔ اس صورت حال نے نوع انسانی کو ایک دائمی جنگ و جدال کی حالت میں مبتلا کر دیا تھا۔ مذہب اور خدا کے نام پر ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرتا اور اس کا خون بہانا جائز سمجھتا۔


۵۔ لیکن قرآن نے نوع انسانی کے سامنے مذہب کی عالم گیر سچائی کا اصول پیش کیا:

(ا)۔ اس نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ہر مذہب میں سچائی ہے، بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ تمام مذاہب سچے ہیں۔ اس نے کہا: دین خدا کی عام بخشش ہے، اس لیے ممکن نہیں کہ کسی ایک جماعت ہی کو دیا گیا ہو، دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو۔

(ب)۔ اس نے کہا: خدا کے تمام قوانین فطرت کی طرح، انسان کی روحانی سعادت کا قانون بھی ایک ہی ہے اور سب کے لیے ہے۔ پس پیروان مذہب کی سب سے بڑی گم راہی یہ ہے کہ انہوں نے دین الٰہی کی وحدت فراموش کر کے الگ الگ گروہ بندیاں کر لی ہیں اور ہر گروہ دوسری گروہ بندی سے لڑ رہی ہے۔

(ج)۔ اس نے بتایا کہ خدا کا دین اس لیے تھا کہ نوع انسانی کا تفرقہ اور اختلاف دور ہو، اس لیے نہ تھا کہ تفرقہ و نزاع کی علت بن جائے۔ پس اس سے بڑھ کر گم راہی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو چیز دور کرنے کے لیے آئی تھی، اسی کو تفرقہ کی بنیاد بنا لیا ہے۔

(د)۔ اس نے بتایا کہ ایک چیز دین ہے، ایک شرع و منہاج ہے۔ دین ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح سب کو دیا گیا ہے، البتہ شرع و منہاج میں اختلاف ہوا اور یہ اختلاف ناگزیر تھا، کیونکہ ہر عہد اور ہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی اور ضروری تھی کہ جیسی جس کی حالت ہو ویسے ہی احکام و اعمال بھی اس کے لیے اختیار کیے جائیں۔ پس شرع و منہاج کے اختلاف سے اصل دین مختلف نہیں ہو سکتے۔ تم نے دین کی حقیقت تو فراموش کر دی ہے، محض شرع و منہاج کے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھٹلا رہے ہو۔

(ہ)۔ اس نے بتلایا کہ تمہاری مذہبی گروہ بندیوں اور ان کے ظواہر و رسوم کو انسانی نجات و سعادت میں کوئی دخل نہیں۔ یہ گروہ بندیاں تمہاری بنائی ہوئی ہیں ورنہ خدا کا ٹھہرایا ہوا دین تو ایک ہی ہے۔ وہ دین حقیقی کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : ایمان اور عمل صالح کا قانون۔

(و)۔ اس نے صاف صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ اس کی دعوت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمام مذاہب سچے ہیں، لیکن پیروان مذہب سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں۔ اگر وہ اپنی فراموش کردہ سچائی از سر نو اختیار کر لیں تو میرا کام پورا ہو گیا اور انہوں نے مجھے قبول کر لیا۔ تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ سچائی ہے جسے وہ”الدین” اور”الاسلام” کے نام سے پکارتا ہے۔

(ز)۔ وہ کہتا ہے : خدا کا دین اس لیے نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت کرے، بلکہ اس لیے ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے محبت کرے اور سب ایک ہی پروردگار کے رشتہ عبودیت میں بندھ کر ایک ہو جائیں۔ وہ کہتا ہے : جب سب کا پروردگار ایک ہے، جب سب کا مقصود اسی کی بندگی ہے، جب ہر انسان کے لیے وہی ہونا ہے جیسا کچھ اس کا عمل ہے تو پھر خدا اور مذہب کے نام پر یہ تمام جنگ و نزاع کیوں ہے ؟

۶۔ مذاہب عالم کا اختلاف صرف اختلاف ہی کی حد تک نہیں رہا ہے، بلکہ باہمی نفرت و مخاصمت کا ذریعہ بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مخاصمت کیونکر دور ہو؟ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام پیروان مذاہب اپنے دعوے میں سچے مان لیے جائیں، کیونکہ ہر مذہب کا پیرو صرف اسی بات کا مدعی نہیں کہ وہ سچا ہے، بلکہ اس کا بھی مدعی ہے کہ دوسرے جھوٹے ہیں، پس اگر ان کے دعاوی مان لیے جائیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر مذہب بہ یک وقت سچا بھی ہے اور جھوٹا بھی ہے۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ سب جھوٹا قرار دیا جائے، کیونکہ اگر تمام مذاہب جھوٹے ہیں تو پھر مذہب کی سچائی ہے کہاں؟ پس! اگر کوئی صورت نزاع کی ہو سکتی ہے تو وہی ہے جس کی دعوت لے کر قرآن نمودار ہوا ہے۔ تمام مذاہب سچے ہیں، کیونکہ اصل دین ایک ہی ہے اور سب کو دیا گیا ہے۔ لیکن تمام پیروان مذاہب سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں، کیونکہ انہوں نے دین کی حقیقت اور وحدت ضائع کر دی ہے اور اپنی گمراہیوں کی الگ الگ ٹولیاں بنالی ہیں۔ اگر ان گمراہیوں سے لوگ باز آ جائیں اور اپنے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیم پر کار بند ہو جائیں تو مذاہب کی تمام نزاعات ختم ہو جائیں گی۔ ہر گروہ دیکھ لے گا کہ اس کی راہ بھی اصلاً وہی ہے جو اور تمام گروہوں کی راہ ہے۔ قرآن کہتا ہے : تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ حقیقت ”الدین” یعنی نوع انسانی کے لیے حقیقی دین اور اسی کو وہ ”الاسلام” کے نام سے پکارتا ہے۔

۷۔ نوع انسانی کی باہمی یگانگت اور اتحاد کے جتنے رشتے بھی ہو سکتے تھے سب انسان کے ہاتھوں ٹوٹ چکے۔ سب کی نسل ایک تھی، مگر ہزاروں نسلیں ہو گئیں۔ سب کی قو میت ایک تھی، مگر بے شمار قومیتیں بن گئیں۔ سب کی وطنیت ایک تھی۔ لیکن سینکڑوں وطنیتوں میں بٹ گئے۔ سب کا درجہ ایک تھا، لیکن امیرو فقیر، شریف و وضع اور ادنیٰ و اعلیٰ کے بہت سے درجے ٹھہرا لیے گئے۔ ایسی حالت میں کون سا رشتہ ہے جو ان تمام تفرقوں پر غالب آسکتا ہے اور تمام انسان ایک ہی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ خدا پرستی کا رشتہ۔ یہی ایک رشتہ ہے جو انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانا پھر آباد کر سکتا ہے۔ یہ اعتقاد کہ ہم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے اور ہم سب کے سر اسی ایک جوکھٹ پر جھکے ہوئے ہیں، یک جہتی اور یگانگت کا ایسا جذبہ پیدا کر دیتا ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان کے بنائے ہوئے تفرقے  غالب آ سکیں۔

صراط مستقیم

اسی بناء پر سورۃ فاتحہ میں جس دعا کی تلقین کی گئی ہے وہ”صراط مستقیم” پر چلنے کی طلب گاری ہے۔”صراط ” کے معنی راہ کے ہیں اور”مستقیم” کے معنی سیدھا ہونے کے۔ پس”صراط مستقیم” ایسی راہ ہوئی جو سیدھی ہو، کسی طرح کا پیچ و خم نہ ہو۔ پھر اس راہ کی پہچان یہ بتلائی کہ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین یعنی اُن لوگوں کی راہ جن پر خدا کا انعام ہوا۔ ان کی راہ نہیں جومغضوب ہوئے۔ نہ کہ ان کی جو گم راہ ہیں۔

یہ انعام یافتہ انسان کون ہیں جن کی راہ سیدھی راہ ہوئی؟ قرآن نے جا بجا واضح کیا ہے کہ خدا کے تمام رسول اور راست باز انسان جو دنیا کے مختلف عہدوں اور گوشوں میں گزر چکے ہیں، انعام یافتہ انسان ہیں اور انہیں کی راہ صراط مستقیم ہے :

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ۱ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًاؕ (۶۹:۴)

اور جس کسی نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی تو بلاشبہ وہ ان لوگوں کا ساتھی ہوا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔ یہ انعام یافتہ جماعت نبیوں کی ہے، صدیقوں کی ہے، شہداء کی ہے، نیک عمل انسانوں کی ہے، اور جس (کے ساتھی ایسے لوگ ہوں تو) کیا ہی اچھی اس کی رفاقت ہے !

اس آیت میں بالترتیب چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور انہیں انعام یافتہ قرار دیا ہے : انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین۔

"انبیاء” سے مقصود خدا کی سچائی کے تمام پیغام بر ہیں جو نوع انسانی کی ہدایت کے لیے پیدا ہوئے۔

"صدیق” سے مقصود ایسے انسان ہیں جو کامل معنوں میں سچے ہوں، یعنی سچائی کے سانچے میں کچھ اس طرح ڈھلے ہوئے ہوں کہ سچائی کے خلاف کوئی بات ان کے دماغ میں اتر ہی نہ سکے۔

"شہید” کے معنی گواہ کے ہیں، یعنی ایسے انسان جو اپنے قول و فعل سے حق و صداقت کی شہادت بلند کرنے والے ہوں۔

"صالحین” سے مقصود وہ تمام انسان ہیں جو نیک عملی کی راہ میں استقامت رکھیں اور برائی کی راہوں سے کنارہ کش ہوں۔

پس معلوم ہوا انعام یافتہ انسانوں سے مراد دنیا کے تمام رسول اور داعیان حق ہیں جو قرآن کے نزول سے پہلی دنیا میں پیدا ہو چکے تھے اور تمام راست باز انسان ہیں جو نوع انسانی میں گزر چکے تھے۔ اس میں تو نہ کسی خاص نسل و قوم کی خصوصیت رکھی گئی ہے، نہ کسی خاص مذہب اور اس کے پیرووں کی۔ دنیا کے تمام نبی، تمام صدیق، تمام شہداء حق، تمام صالح انسان، خواہ کسی ملک و قوم میں ہوئے ہوں، قرآن کے نزدیک "انعام یافتہ” انسان ہیں اور انہیں کی راہ "صراط امستقیم” ہے۔

خدا کے ان تمام رسولوں اور نوع انسانی کے راست باز افراد کی راہ کون سی تھی؟ وہی راہ جسے قرآن دین حقیقی کی راہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : دنیا میں جس قدر بھی سچائی کے داعی آئے، سب نے یہی تعلیم دی کہ "أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ ۚ(۴۲:۱۳)” خدا کا ایک ہی دین قائم رکھو اور اس راہ میں جدا جدا نہ ہو جاؤ (یہی سچائی کی سیدھی راہ ہے )۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جا بجا "الدین” کو صراط مستقیم سے بھی تعبیر کیا ہے۔ سورۃ شوریٰ میں پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : "تم صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والے ہو اور صراط مستقیم ہی صراط اللہ ہے ” یعنی اللہ کی ٹھیرائی ہوئی راہ سعادت ”

وَإِنَّكَ لَتَهْدِی إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ۔ صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِی لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِیرُ الْأُمُورُ (۴۲:۵۳)

اور (اے پیغمبر!) بلا شبہ تم صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والے ہو، صراط اللہ، یعنی اللہ کی راہ کی طرف، وہ اللہ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ ہاں یاد رکھو، (کائنات خلقت کے ) تمام کاموں کا مرجع اسی کی ذات ہے۔

اسی طرح وہ جا بجا کہتا ہے کہ خدا کے تمام رسولوں کی دعوت صراط مستقیم کی دعوت تھی۔ سورۃ نحل میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت ہے :

وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ (۱۶:۱۲۱)

"خدا نے اسے صراط مستقیم دکھا دی”۔ سورۃ زخرف میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبانی سنتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیمٌ (۴۳:۷۴)

"اللہ میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے، پس اسی کی بندگی کرو، یہی صراط مستقیم ہے ” سورۃ انعام میں پہلے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کا ذکر کیا ہے، پھر سلسلہ ابراہیمی کے متعدد نبیوں کا جو تورات کی مشہور شخصیتیں ہیں، اس کے بعد کہا ہے :

وَاجْتَبَیْنَاهُمْ وَهَدَیْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ (۶:۸۷)

"ان سب کو ہم نے صراط مستقیم دکھا دی۔”

اصل یہ ہے کہ خدا کے عالم گیر دین کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے صراط مستقیم سے بہتر تعبیر نہیں ہو سکتی تھی۔ تم کسی خاص مقام تک پہنچنے کے لیے کتنی ہی راہیں نکالو، لیکن سیدھی راہ ہمیشہ ایک ہی ہو گی اور اسی پر چل کر ہر مسافر منزل مقصود تک بحفاظت و امن پہنچ سکے گا۔ علاوہ بریں سیدھی راہ ہی ہمیشہ شاہ راہ عام کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ تمام مسافر، خواہ کسی گوشے کے رہنے والے ہوں، لیکن سب مل جل کر وہی راہ اختیار کریں گے اور کبھی یہ نہ کریں گے کہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر ٹیڑھی ترچھی راہوں میں متفرق ہو جائیں۔ قرآن کہتا ہے : ٹھیک اسی طرح دین کی سیدھی راہ بھی ایک ہی ہے۔ ہر عہد، ہر قوم، ہر ملک اسی پر چل کر منزل مقصود تک پہنچا ہے، بعد کو پیروان مذہب نے ایسا کیا کہ بہت سی ٹیڑھی ترچھی راہیں نکالیں اور ایک راہ پر متفق رہنے کی جگہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر متفرق ہو گئے۔ وہ کہتا ہے : اب اگر تم چاہتے ہو کہ منزل مقصود کا سراغ پاؤ تو چاہیے کہ اسی سیدھی راہ پر اکٹھے ہو جاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رحمۃ اللہ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں : فھو سبیلُ اللہ طریقا مستقیما، سھلا، مسلوکا، واسعا، موصلا الی المقصود : وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِیلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۶:۱۵۳)

اور (دیکھو!) یہ میری راہ ہے، بالکل سیدھی راہ! پس اسی ایک راہ پر چلو اور طرح طرح کے راستوں کے پیچھے نہ پڑو وہ تمہیں خدا کی سیدھی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گے۔ یہی بات ہے جس کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تا کہ (اس کی نافرمانی سے ) بچو۔

چنانچہ یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے جب "صراط مستقیم” کی تفسیر پر نظر ڈالی جائے جو خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمائی ہے :

عن ابن مسعود قال خط لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا بیدہ ثم قال ھذا سبیل اللہ مستقیما ثم خط خطوطا عن یمین ذلک الخط و عن شمالہ ثم قال و ھذہ السبل لیس منھا سبیل الا علیہ شیطان یدعو الیہ ثم قر اھذہ الآیۃ۔ (اخرجہ النسائی و احمد و البزرا و ابن المنذر و ابو الشیخ والحاکم و صححہ)۔

"عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی انگلی سے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یوں سمجھو کہ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا راستہ ہے۔ بالکل سیدھا۔ اس کے بعد اس لکیر کے دونوں طرف بہت سے ترچھی لکیریں کھینچ دیں اور فرمایا یہ طرح طرح کے راستے ہیں جو بنا لیے گئے ہیں اور ان میں کوئی راستہ نہیں جس کی طرف بلانے کے لیے ایک شیطان موجود نہ ہو، پھر یہ آیت پڑھی "وان ھذا صراطی مستقیما"۔۔۔۔۔

اس سے معلوم ہوا تمام ادھر ادھر کے ٹیڑھے ترچھے راستے "سُبل متفرقہ” ہیں جو جمعیت بشری کو متحد کرنے کی جگہ متفرق کر دیتے ہیں اور درمیان کی ایک ہی سیدھی راہ "صراط مستقیم” ہے۔ یہ متفرق کرنے کی بجائے، تمام رہ روان منزل کو ایک ہی شاہ راہ پر جمع کر دیتی ہے۔

یہ سبل متفرقہ کیا ہیں ؟ اسی گمراہی کا نتیجہ ہیں جسے قرآن نے "تشیع” اور "تخرب” کی گم راہی سے تعبیر کیا ہے اور تشریح اس کی اوپر گزر چکی۔

دین حقیقی کی راہ کا سیدھا ہونا اور "سبل متفرقہ” یعنی کود ساختہ گروہ بندیوں کا پر پیچ و خم ہونا، ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر انسان بغیر کسی عقلی کاوش کے سمجھ لے سکتا ہے۔ خدا کا دین اگر انسان کی ہدایت کے لیے ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے تمام قوانین کی طرح یہ بھی صاف اور واضح ہو، اس میں کوئی راز نہ ہو، کوئی پیچیدگی نہ ہو، ناقابل حل معمہ نہ ہو، اعتقاد میں سہل ہو اور عمل میں ہلکا، ہر عقل اسے بوجھ لے، ہر طبیعت اس پر مطمئن ہو جائے۔ اچھا اب غور کرو! یہ تعریف کس راہ پر صادق آتی ہے ؟ ان مختلف راہوں پر جو پیروان مذہب نے الگ الگ گروہ بندیاں کر کے نکال لی ہیں یا اس ایک ہی راہ پر جسے قرآن اصل دین کی راہ بتلاتا ہے ؟

ان گروہ بندیوں میں سے کوئی گروہ بندی بھی ایسی نہیں ہے جو اپنے بوجھل عقیدوں، ناقابل فہم عقدوں اور ناقابل برداشت عملوں کی ایک طول طویل فہرست نہ ہو۔ ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کے تمام پیروان مذہب کے مزعومہ عقائد و اعمال کا کیا حال ہے اور ان کی نوعیت کیسی ہے۔ مذہب کا عقل کے لیے معمہ اور طبیعت کے لیے بوجھ ہونا ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر مذاہب کا خاصہ تسلیم کر لی گئی ہے۔ لیکن قرآن جس راہ کو دین حقیقی کی راہ کہتا ہے، اس کا کیا حال ہے ؟ اس کی راہ تو اتنی واضح، اتنی سہل، اتنی مختصر ہے کہ عقائد و اعمال کی پوری فہرست دو لفظوں میں ختم کر دی جا سکتی ہے "ایمان اور عمل صالح” (۱۱۲) اس کے عقائد میں عقل کے لیے کوئی بوجھ نہیں، اس کے اعمال میں طبیعت کے لیے کوئی سختی نہیں، ہر طرح کے پیچ و خم سے پاک، ہر معنی میں اعتقاد و عمل کی سیدھی سیدھی بات "الحنیفیۃ السمحۃ لیلھا کنھارھا، اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے ":

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ(۱۸:۱)

ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی بھی کمی نہیں رکھی۔

بہرحال قرآن کا پیرو وہ ہے جو دین کی سیدھی راہ پر چلنے والا ہے۔ وہ راہ نہیں جو کسی خاص گروہ، کسی خاص نسل، کسی خاص قوم، کسی خاص عہد کی راہ ہے، بلکہ خدا کی عالم گیر سچائی کی راہ وہ ہے جو ہر جگہ اور ہر عہد میں نمایاں ہوئی ہے اور ہر طرح کی جغرافیائی اور جماعتی حد بندیوں کے امتیازات سے پاک ہے :

إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیمٌ (۴۳:۷۴)

اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے، پس اسی کی بندگی کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔

علاوہ بریں بحث و نظر کے بعض دوسرے پہلو بھی ہیں جو اس موقع پر پیش نظر رہنے چاہییں :

اولا – فلاح و سعادت کی راہ کو "سیدھی راہ” سے تعبیر کیا گیا اور سیدھی راہ پر چلنا ایک ایسی بات ہے جس کی سمجھ اور طلب، بالطبع ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ پھر اس کی پہچان بتلاتے ہوئے کوئی اس طرح کی تعریف نہیں کی جس کے سمجھنے اور منطبق کرنے میں ذہنی کاوشوں کی ضرورت ہو، بلکہ ایک خاص طرح کے انسانوں کی طرف انگلی اٹھا دی کہ "صراط مستقیم” ان لوگوں کی راہ ہے۔

اس اسلوب بیان نے ہر انسان کے سامنے "صراط مستقیم” کو ایک محسوس و مشہود صورت میں نمایاں کر دیا۔ ہر انسان خواہ کسی عہد اور کسی ملک و قوم سے تعلق رکھتا ہو، لیکن اس بات سے بے خبر نہیں ہو سکتا کہ یہاں دو طرح کے انسان موجود ہیں : ایک وہ ہیں جن کی راہ سعادت و کامیابی کی راہ ہے، ایک وہ ہیں جن کے حصے میں محرومی و شقاوت آئی ہے۔ پس کامیابی کی راہ کی پہچان اس سے زیادہ بہتر اور مؤثر طریقے سے بیان نہیں کی جا سکتی کہ وہ کامیاب انسان کی راہ ہے۔ اگر اس کی پہچان منطقی تعریفوں کی طرح بیان کی جاتی تو ظاہر ہے نہ تو ہر انسان بغیر کاوش و فکر کے سمجھ سکتا، نہ قطعی طور پر کسی ایک ہی راہ پر منطبق کی جا سکتی۔

ثانیاً – جہاں تک انسانی فلاح و سعادت کا تعلق ہے، صراط مستقیم کی تعبیر ہی ہر لحاظ سے حقیقی اور قدرتی تعبیر ہو سکتی تھی۔ انسان کے فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو لیکن صحت و درستگی کی راہ ہمیشہ وہی ہو گی جو سیدھی راہ ہو، جہاں انحراف اور کجی پیدا ہوئی، نقص و فساد و ظہور میں آ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں سیدھا ہونا اور سیدھی چال چلنا فلاح و سعادت کے معنوں میں عام طور پر بولا جاتا ہے گویا اچھائی کے معنوں میں یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو تمام نوع انسانی کی عالم گیر تعبیر کہی جا سکتی ہے۔

حضرت مسیح سے چار سو برس پہلے دارایوش اول نے جو فرامین کندہ کرائے تھے، ان میں سے بے ستون کا کتبہ آج تک موجود ہے اور اس کا خاتمہ ان جملوں پر ہوتا ہے "اے انسان! اہورامزد کا (یعنی خدا کا) تیرے لیے حکم یہ ہے کہ برائی کا دھیان نہ کر، سیدھا راستہ نہ چھوڑ، گناہ سے بچتا رہ” (۱۳)

پس صراط مستقیم پر چلنے کی طلب زندگی کی تمام راہوں میں درستگی و صحت کی راہ چلنے کی طلب ہوئی اور اسی لیے سعی و عمل کے ہر گوشے میں انعام یافتہ گروہ وہی ہو سکتا ہے جس کی راہ صراط مستقیم ہو۔

-----------------------
یہ بھی پڑھیں !