ام الکتاب ۔ سورۃ الفاتحہ (11/12)، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ


قرآن کا پیروان مذاہب سے مطالبہ

اور یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس نے کسی مذہب کے پیرو سے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ کوئی نیا دین قبول کر لے، بلکہ ہر گروہ سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اپنے مذاہب کی حقیقی تعلیم پر جسے تم نے طرح طرح کی تحریفوں اور اضافوں سے مسخ کر دیا ہے، سچائی کے ساتھ کار بند ہو جاؤ۔ وہ کہتا ہے : اگر تم نے ایسا کر لیاتو میرا کام پورا ہو گیا، کیونکہ جوں ہی تم اپنے مذہب کی تعلیم کی طرف لوٹوگے، تمہارے سامنے وہی حقیقت آموجود ہو گی جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں۔ میرا پیام کوئی نیا پیام نہیں ہے، وہی قدیم اور عالم گیر پیام ہے جو تمام بانیان مذہب دے چکے ہیں :

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۱ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا۱ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبُِٔوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۲۸:۵۔۶۹)

” (اسے پیغمبر! ان لوگوں سے ) کہہ دو، اے اہل کتاب! جب تک تم تورات اورانجیل کی اور ان تمام صحیفوں کی جو تم پر نازل ہوئے ہیں، حقیقت قائم نہ کرو، اس وقت تک تمہارے پاس دین میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ اور (اے پیغمبر!) تمہارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے (بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں، تم دیکھو گے کہ) ان میں سے بہتوں کا کفر و طغیان اس کی وجہ سے اور زیادہ بڑھ جائے گا، تو جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کر لی ہے، تم ان کی حالت پر بے کار کو غم نہ کھاؤ۔ جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں، جو یہودی ہیں، جو صابی ہیں، جو نصاریٰ ہیں (یہ ہوں یا کوئی ہو) جو کوئی بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے عمل بھی نیک ہوئے تو اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہے، نہ کسی طرح کی غمگینی۔


یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ان راست باز انسانوں کے ایمان وعمل کا پوری فراخ دلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت مختلف مذاہب میں موجود تھے اور جنہوں نے اپنے مذہبوں کی حقیقی روح ضائع نہیں کی تھی۔ البتہ وہ کہتا ہے : ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ غالب تعداد انہیں لوگوں کی ہے جنہوں نے دین الٰہی کی اعتقادی اور عملی حقیقت یک قلم ضائع کر دی ہے :

لَیْسُوْا سَوَآءً۱ؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآىِٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ آیٰتِ اللّٰهِ آنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ ۔ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ۱ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ وَ مَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ۱ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ (۱۱۳:۳۔۱۱۵)

یہ بات نہیں ہے کہ سب ایک ہی طرح کے ہوں۔ انہیں اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اصل دین پر قائم ہیں، وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے سراس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں، اور وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں، نیکی کی راہوں میں تیز گام ہیں۔ اور بلاشبہ یہی لوگ ہیں جو نیک انسانوں میں سے ہیں۔ اور (یاد رکھو!) یہ لوگ جو کچھ بھی نیکی کرتے ہیں تو ہرگز ایسا نہیں ہو گا کہ اس کی قدر نہ کی جائے۔ وہ جانتا ہے کہ (کس گروہ میں ) کون پرہیزگار ہے۔

مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ۱ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ (۶۶:۵)

ان میں سے ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو میانہ رو ہیں، لیکن بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے کہ جو کچھ کرتے ہیں، برا ہی کرتے ہیں۔

یہ جو قرآن جا بجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ پچھلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے، جھٹلانے والا نہیں، اور اہل کتاب سے بار بار کہتا ہے : وَ آمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ (۴۱:۲) اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرتی ہوئی نمایاں ہوئی ہے ” تو اس سے مقصود بھی اسی حقیقت پر زور دینا ہے، یعنی جب میری تعلیم تمہارے مقدس نوشتوں کے خلاف کوئی نیا دین نہیں پیش کرتی اور نہ ان سے تمہیں منحرف کرنا چاہتی ہے، بلکہ سر تا سر مصدق اور مؤید ہے تو پھر تم میں اور مجھ میں نزاع کیوں ہے ؟کیوں تم میرے خلاف اعلان جنگ کر دو؟


اصطلاح قرآنی میں "المعروف” اور”المنکر”



اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس نے نیکی کے لیے "معروف” کا اور برائی کے لیے "منکر” کا لفظ اختیار کیا ہے : وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ (۱۷:۳۱) معروف”عرف” سے ہے جس کے معنی پہچاننے کے ہیں، پس”معروف” وہ بات ہوئی جو جانی پہچانی بات ہو”، منکر” کے معنی انکار کرنے کے ہیں، یعنی ایسی بات جس سے عام طور سے انکار کیا گیا ہو، پس قرآن نے نیکی اور برائی کے لیے یہ الفاظ اس لیے اختیار کیے کہ وہ کہتا ہے : دنیا میں عقائد و افکار کا کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے اچھے ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے برے ہونے پر سب متفق ہیں، مثلاً اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ دیانت داری اچھی بات ہے، بد دیانتی برائی ہے۔اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ماں باپ کی خدمت، ہمسایہ سے سلوک، مسکینوں کی خبرگیری، مظلوم کی داد رسی انسان کے اچھے اعمال ہیں اور ظلم اور بد سلوکی برے اعمال ہیں، گویا یہ وہ باتیں ہیں جن کی اچھائی عام طور پر جانی بوجھی ہوئی ہے اور جن کے خلاف جانا عام طور پر قابل انکار و اعتراض ہے۔ دنیا کی تمام جماعتیں دوسری باتوں میں کتنا ہی اختلاف رکھتی ہیں، لیکن جہاں تک ان اعمال کا تعلق ہے سب ہم آہنگ و ہم رائے ہیں۔

قرآن کہتا ہے : یہ اعمال، جب کہ اچھائی عام طور پر نوع انسانی کی جانی بوجھی ہوئی ہے، دین الٰہی کے مطلوبہ اعمال ہیں۔ اسی طرح وہ اعمال جن سے عام طور پر انکار کیا گیا ہے اور جن کی برائی پر تمام مذاہب متفق ہیں، دین الٰہی کے ممنوعہ اعمال ہیں۔ یہ بات چونکہ دین کی اصل حقیقت تھی، اس لیے اس میں اختلاف نہ ہو سکا اور مذہبی گروہوں کی بے شمار گمراہیوں اور حقیقت فراموشیوں پر بھی ہمیشہ معلوم و مسلم رہی۔ ان اعمال کی اچھائی اور برائی پر نوع انسانی کے تمام عہدوں، تمام مذہبوں اور تمام قوموں کا عالم گیر اتفاق ان کی فطری اصلیت پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس جہاں تک اعمال کا تعلق ہے، میں انہیں باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہوں جن کی اچھائی عام طور پر جانی بوجھی ہوئی ہے اور انہیں باتوں سے روکتا ہوں جن سے عام طور پر نوع انسانی نے انکار کیا ہے، یعنی میں معروف کا حکم دیتا ہوں، منکر سے روکتا ہوں۔ پس جب میری دعوت کا یہ حال ہے تو پھر کسی انسان کو بھی جسے راست بازی سے اختلاف نہیں، کیوں مجھ سے اختلاف ہو؟


"الدین القیم” اور”فطرۃ اللہ”



وہ کہتا ہے : یہی راہ عمل نوع انسانی کے لیے خدا کا ٹھہرایا ہوا فطری دین ہے اور فطرت کے قوانین میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی”الدین القیم” ہے، یعنی سیدھا اور درست دین جس میں کسی طرح کی کجی اور خامی نہیں۔ یہی” دین حنیف” ہے جس جی دعوت حضرت ابراہیم نے دی تھی۔ اسی کا نام میری اصطلاح میں "الاسلام” ہے، یعنی خدا کے ٹھہرائے ہو قوانین کی فرماں برداری:

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا۱ؕ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا۱ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ۱ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۱ۙۗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔۔ مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۔ مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا۱ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ (۳۰:۳۰۔۳۲)

تم ہر طرف سے منہ پھیر کر”الدین” کی طرف رخ کرو، یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بناوٹ میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی”الدین القیم” (یعنی سیدھا اور سچا دین) ہے، لیکن اکثر انسان ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ (دیکھو!) اسی (ایک خدا) کی طرف متوجہ رہو، اس کی نا فرمانی سے بچو، نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور گروہ بندیوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے۔

"الاسلام”


وہ کہتا ہے :، خدا کا ٹھہرایا ہوا دین جو کچھ ہے یہی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ بنا لیا گیا ہے وہ انسانی گروہ بندیوں کی گمراہیاں ہیں۔ پس اگر تم خدا پرستی اور عمل صالح کی اصل پر جو تم سب کے یہاں اصل دین ہے، جمع ہو جاؤ اور خود ساختہ گمراہیوں سے باز آ جاؤ تو میرا مقصد پورا ہو گیا۔ میں اس سے زیادہ اور کیا چاہتا ہوں ؟

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۱۫ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ۱ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِآیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ۱ؕ وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۱ؕ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا۱ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ۱ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ (۱۹:۳۔۲۰)

اللہ کے نزدیک دین ایک ہی ہے اور وہ”الاسلام” ہے۔ اور یہ جو اہل کتاب نے اختلاف کیا (اور ایک دین پر مجتمع رہنے کی جگہ یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندیوں میں بٹ گئے ) تو یہ اس لیے ہوا کہ اگرچہ علم و حقیقت کی راہ ان پر کھل چکی تھی، لیکن آپس کی ضد اور سر کشی سے اختلاف میں پڑ گئے۔ اور (یاد رکھو!) جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے تو اللہ (کا قانون مکافات بھی) حساب لینے میں سست رفتار نہیں۔ پھر اگر یہ لوگ تم سے اس بارے میں جھگڑا کریں تو تم کہو: میری اور میرے پیرووں کی راہ تو یہ ہے کہ اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینا، اور ہم نے سر جھکا دیا ہے۔ پھر اہل کتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے (یعنی مشرکین عرب سے ) پوچھو: تم بھی اللہ کے آگے جھکتے ہو یا نہیں ؟ (یعنی ساری باتیں جھگڑے کی چھوڑو، یہ بتاؤ تمہیں خدا پرستی منظور ہے یا نہیں ؟) اگر وہ جھک گئے تو (سارا جھگڑا ختم ہو گیا اور ) انہوں نے راہ پالی۔ اگر رو گردانی کریں تو تمہارے ذمے جو کچھ ہے وہ پیام حق پہنچا دینا ہے۔ اور اللہ کی نظروں سے بندوں کا حال پوشیدہ نہیں۔

اس نے دین کے لیے "الاسلام” کا لفظ اسی لیے اختیار کیا ہے کہ”اسلام” کے معنی کسی بات کے مان لینے اور فرماں برداری کرنے کے ہیں۔ وہ کہتا ہے : یہ کچھ انسان ہی کے لیے نہیں ہے، بلکہ تمام کائنات ہستی اسی اصل پر قائم ہے۔ سب کے بقاء و قیام کے لیے خدا نے کوئی نہ کوئی قانون عمل ٹھہرا دیا ہے اور سب اس کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی رو گردانی کریں تو کارخانہ ہستی درہم برہم ہو جائے :

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ (۸۳:۳)

پھر کیا یہ لوگ چاہتے ہیں اللہ کا ٹھہرایا ہوا دین چھوڑ کر کوئی دوسرا دین ڈھونڈ نکالیں، حالانکہ آسمان اور زمین میں جو کوئی بھی ہے سب چار و ناچار اسی کے (ٹھہرائے ہوئے قانون عمل کے ) آگے جھکے ہوئے ہیں، اور (بالآخر) سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

وہ جب کہتا ہے "الاسلام کے سوا کوئی دین اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ” تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ دین حقیقی کے سوا جو ایک ہی ہے اور تمام رسولوں کی مشترکہ تعلیم ہے، انسانی ساخت کی کوئی گروہ بندی مقبول نہیں۔سورۃ آل عمران میں جہاں یہ بات بیان کی ہے کہ دین حقیقی کی راہ تمام مذہبی رہ نماؤں کی تصدیق اور پیرو کی راہ ہے، وہیں متصلاً یہ بھی کہہ دیا ہے :

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ۱ۚ وَ هُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۸۵:۳)

اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہے گا تو یاد رکھو! اس کی راہ کبھی قبول نہ کی جائے گی اور وہ آخرت کے دن (دیکھے گا کہ) تباہ ہونے والوں میں سے ہے۔

اور اسی لیے وہ تمام باتیں پیروان دعوت کو بار بار متنبہ کرتا ہے کہ دین میں تفرقہ اور گروہ بندی سے بچیں اور اسی گم راہی میں مبتلا نہ ہوئیں جس سے قرآن نے نجات دلائی ہے۔ وہ کہتا ہے : میری دعوت نے تمام انسانوں کو جو مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے، خدا پرستی کی راہ میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ایک دوسرے کے جاں نثار بھائی بن گئے، ایک یہودی جو پہلے حضرت مسیح کا نام سنتے ہی نفرت سے بھر جاتا تھا، ایک عیسائی جو ہر یہودی کے خون کا پیاسا تھا، ایک مجوسی جس کے نزدیک تمام غیر مجوسی ناپاک تھے، ایک عرب جو اپنے سوا سب کو انسانی شرف و محاسن سے تہی دست سمجھتا تھا، ایک صابی جو یقین کرتا تھا کہ دنیا کی قدیم سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے، ان سب کو دعوت قرآنی نے ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے اور اب یہ سب ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی جگہ ایک دوسرے کے مذہبی رہ نماؤں کی تصدیق کرتے اور سب کی بتائی ہوئی متفقہ راہ ہدایت پر گام زن ہیں :

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۱۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا۱ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا۱ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ آیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (۱۰۳:۳)

اور (دیکھو!) سب مل جل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو، اللہ نے تم پر جو فضل و کرم کیا ہے اسے یاد کرو۔ تمہارا حال یہ تھا کہ ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں باہم دگر الفت پیدا کر دی، پھر ایسا ہوا کہ انعام الٰہی سے بھائی بھائی ہو گئے۔ اور (دیکھو!) تمہارا حال یہ تھا گویا آگ سے بھرا ہوا گڑھا ہے اور اس کے کنارے کھڑے ہو، لیکن اللہ نے تمہیں بچا لیا۔ اللی اسی طرح اپنی کار فرمائیوں کی نشانیاں تم پر واضح کرتا ہے، تاکہ ہدایت پاؤ۔

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ۱ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۱۰۵:۳)

اور (دیکھو!) ان لوگوں کی سی چال اختیار نہ کر لینا جو( ایک دن پر قائم رہنے کی جگہ) جدا جدا ہو گئے اور اختلاف میں پڑ گئے، باوجودیکہ روشن دلیلیں ان کے سامنے آ چکی تھیں۔ (یاد رکھو!) یہی لوگ ہیں جن کے لیے (کامیابی و فلاح کی جگہ) بڑا (بھاری) عذاب ہے۔

وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ۱ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ۱ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (۱۵۳:۲)

اور (دیکھو!) یہ میری راہ ہے، بالکل سیدھی راہ، پس اسی ایک راہ پر چلو، طرح طرح کی راہوں کے پیچھے نہ پڑ جاؤ کہ وہ تمہیں خدا کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی۔ یہی بات ہے جس کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم (نافرمانی سے ) بچو۔


قرآن اور اس کے مخالفوں میں بناء نزاع


اب چند لمحوں کے لیے اس نزاع پر غور کرو جو قرآن اور اس کے مخالفوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ یہ مخالف کون تھے ؟ پچھلے مذاہب کے پیرو تھے جن میں بعض کے پاس کتاب تھی، بعض کے پاس نہ تھی۔

اچھا! وہ بناء نزاع کیا تھی؟

کیا یہ تھی کہ قرآن نے ان کے بانیوں اور رہ نماؤں کو جھٹلایا تھا یا ان کی مقدس کتابوں سے انکار کیا تھا؟ اور اس لیے وہ اس کی مخالفت میں کمر بستہ ہو گئے تھے۔

کیا یہ تھی کہ اس نے دعویٰ کیا تھا خدا کی سچائی صرف میرے ہی حصے میں آئی ہے اور تمام پیروان مذاہب کو چاہیے اپنے اپنے نبیوں سے برگشتہ ہو جائیں ؟

یا پھر اس نے دین کے نام سے کوئی ایسی بات کر دی تھی جو پیروان مذہب کے لیے بالکل نئی تھی اور اس لیے قدرتی طور پر انہیں ماننے میں تأمل تھا؟

قرآن کے صفحے کھلے ہوئے ہیں اور اس کے نزول کی تاریخ بھی دنیا کے سامنے ہے۔یہ دونوں ہمیں بتلاتے ہیں کہ ان تمام باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی۔ اس نے صرف ان تمام رہنماؤں کی تصدیق کی جن کے نام لیوا اس کے سامنے تھے، بلکہ صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا: مجھ سے پہلے جتنے پیغمبر آ چکے ہیں، میں سب کی تصدیق کرتا ہوں اور ان میں سے کسی ایک کے انکار کو بھی خدا کی سچائی کا انکار سمجھتا ہوں۔ اس نے کسی مذہب کے ماننے والے سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے مذہب کی دعوت سے انکار کردے، بلکہ جب کبھی مطالبہ کیا تو یہی کیا کہ اپنے اپنے مذہبوں کی حقیقی تعلیم پر کر بند ہو جاؤ، کیونکہ تمام مذہبوں کی اصل تعلیم ایک ہی ہے۔ اس نے نہ تو کوئی نیا اصول پیش کیا، نہ کوئی نیا عمل بتایا، اس نے ہمیشہ انہیں باتوں پر زور دیا جو دنیا کے تمام مذاہب کی سب سے زیادہ جانی بوجھی ہوئی باتیں رہی ہیں، یعنی ایمان اور عمل صالح۔ اس نے جب کبھی لوگوں کو اپنی طرف بلایا ہے تو یہی کہا ہے : اپنے اپنے مذہبوں کی حقیقت از سر نو تازہ کر لو، تمہارا ایسا کرنا ہی مجھے قبول کر لینا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب قرآن کی دعوت کا یہ حال تھا تو پھر آخر اس میں اس کے مخالفوں میں وجہ نزاع کیا تھی؟ ایک شخص جو کسی کو برا نہیں کہتا، سب کو مانتا اور سب کی تعظیم کرتا ہے اور ہمیں انہیں باتوں کی تلقین کرتا ہے جو سب کے یہاں مانی ہوئی ہیں، کوئی اس سے لڑے تو کیوں لڑے ؟ اور کیوں لوگوں کو اس کا ساتھ دینے سے انکار ہو؟

کہا جاتا ہے کہ قریش مکہ کی مخالفت اس بناء پر تھی کہ قرآن نے بت پرستی سے انکار کر دیا تھا اور وہ بت پرستی کے طریقوں سے مالوف ہو چکے تھے، بلاشبہ ایک وجہ نزاع یہ بھی ہے، لیکن صرف یہی وجہ نزاع نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کہ یہودیوں نے کیوں مخالفت کی جو بت پرستی سے قطعاً کنارہ کش تھے ؟ عیسائی کیوں بر سر پیکار ہو گئے جنہوں نے کبھی بت پرستی کی حمایت کا دعویٰ نہیں کیا؟


پیروان مذہب کی مخالفت اس لیے نہ تھی کہ جھٹلاتا کیوں ہے، بلکہ اس لیے کہ جھٹلاتا کیوں نہیں ؟



اصل یہ ہے کہ پیروان مذاہب کی مخالفت اس لیے نہ تھی کہ وہ انہیں جھٹلاتا کیوں ہے، بلکہ اس لیے تھی جھٹلاتا کیوں نہیں ؟ ہر مذہب کا پیرو چاہتا تھا کہ وہ صرف اسی کو سچا کہے، باقی سب کو جھٹلائے، اور چونکہ وہ یکساں طور پر سب کی تصدیق کرتا تھا، اس لیے کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہو سکتا تھا۔ یہودی اس بات سے تو بہت خوش تھے کہ قرآن حضرت موسیٰ کی تصدیق کرتا ہے لیکن وہ صرف اتنا ہی نہیں کرتا تھا، وہ حضرت مسیح کی بھی تصدیق کرتا تھا اور یہیں آ کر اس میں اور یہودیوں میں نزاع شروع ہو جاتی تھی۔ عیسائیوں کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیح اور حضرت مریم کی پاکی و صداقت کا اعلان کیا جائے ؟ لیکن قرآن صرف اتنا ہی نہیں کرتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ نجات کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے، نہ کہ کفارہ اور اصطباغ پر۔ اور قانون نجات کی یہ عالم گیر بحث کی وسعت عیسائی کلیسا کے لیے ناقابل برداشت تھی۔

اسی طرح قریش مکہ کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دل خوش صدا نہیں ہو سکتی تھی کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی بزرگی کا اعتراف کیا جائے، لیکن جب وہ دیکھتے کہ قرآن جس طرح ان دونوں کی بزرگی کا اعتراف کرتا ہے، اسی طرح یہودیوں کے پیغمبروں اور عیسائیوں کے داعی کا بھی معترف ہے تو ان کے نسلی اور جماعتی غرور کو ٹھیس لگتی تھی۔ وہ کہتے تھے : ایسے لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے پیرو کیونکر ہو سکتے ہیں جو ان کی بزرگی اور صداقت کی صف میں دوسروں کو بھی لا کھڑا کرتے ہیں۔


تین اصول جو قرآن میں اور اس کے مخالفوں میں بناء نزاع ہوئے


مختصراً یوں سمجھنا چاہیے کہ قرآن کے تین اصول ایسے تھے جو اس میں اور تمام پیروان مذہب میں وجہ نزاع ہو گئے :

۱۔ وہ مذہبی گروہ بندی کی روح کا مخالف تھا اور دین کی وحدت یعنی ایک ہونے کا اعلان کرتا تھا۔ اگر پیروان مذاہب یہ مان لیتے تو انہیں تسلیم کرنا پڑتا کہ دین کی سچائی کسی ایک ہی گروہ کے حصے میں نہیں آئی ہے، سب کو یکساں طور پر ملی ہے، لیکن یہی ماننا ان کی گروہ پرستی پر شاق گذرتا تھا۔

۲۔ قرآن کہتا تھا: نجات اور سعادت کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے، نسل، قوم، گروہ بندی اور ظاہری رسم ریت پر نہیں ہے۔ اگر یہ اصل وہ تسلیم کر لیتے تو پھر نجات کا دروازہ بلا امتیاز تمام نوع انسانی پر کھل جاتا اور کسی ایک مذہبی حلقے کی ٹھیکے داری باقی نہ رہتی۔ لیکن اس بات کے لیے ان میں سے کوئی بھی تیار نہ تھا۔

۳۔ وہ کہتا تھا: اصل دین خدا پرستی ہے اور خدا پرستی یہ کہ ایک خدا کی براہ راست پرستش کی جائے، لیکن پیروان مذہب نے کسی نہ کسی شکل میں شرک و بت پرستی کے طریقے اختیار کر لیے تھے اور گو انہیں اس بات سے انکار نہ تھا کہ اصل دین خدا پرستی ہی ہے، لیکن یہ بات شاق گزرتی تھی کہ اپنے مالوف معتاد طریقوں سے دست بردار ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیں !