ام الکتاب ۔ تفسیر سورۃ الفاتحۃ (10/12)، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ

پیروان مذہب نے دین کی وحدت بھلا دی اور شرع کے اختلاف کو بناء نزاع بنا لیا

قرآن کا جب ظہور ہوا تو دنیا کا یہ حال تھا کہ تمام پیروان مذاہب،  مذہب کو صرف اس کے ظواہر و رسوم ہی میں دیکھتے تھے اور مذہبی اعتقاد کا تمام جوش و خروش اسی طرح کی باتوں میں سمٹ آیا تھا،  ہر گروہ یقین کرتا تھا کہ دوسرا گروہ نجات سے محروم ہے،  کیونکہ وہ دیکھتا تھا  دوسرے کے اعمال و رسوم ویسے نہیں ہیں جیسے خود اس نے اختیار کر رکھے ہیں۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ نہیں،  یہ اعمال و رسوم نہ تو دین کی اصل و حقیقت ہیں نہ ان کا اختلاف حق و باطل کا اختلاف ہے۔ یہ محض مذہب کی عملی زندگی کا ظاہری ڈھانچا ہے مگر روح و حقیقت ان سے بالاتر ہے اور وہی اصل دین ہے۔ یہ اصل دین کیا ہے ؟ ایک خدا کی پرستش اور نیک عملی کی زندگی،  یہ کسی ایک گروہ ہی کی میراث نہیں ہے کہ اس کے سوا کسی انسان کو نہ ملی ہو،  یہ تمام مذاہب میں یکساں طور پر موجود ہے۔ اور چونکہ یہ اصل دین ہے،  اس لیے نہ تو اس میں تغیر ہوا نہ کسی سے اختلاف رونما ہوا۔ اعمال و رسوم فرع ہیں،  اس لیے ہر زمانے اور ہر ملک کی حالت کے مطابق بدلتے رہے اور جس قدر بھی اختلاف ہوا انہیں میں ہوا۔


پھر وہ کہتا ہے : اعمال و رسوم کے اس اختلاف کو تم اس قدر اہمیت کیوں دے رہے ہو؟ خدا نے ہر زمانے اور ہر ملک کے لیے ایک خاص طرح کا طور طریقہ ٹھہرا دیا تھا،  جو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق مناسب تھا اور وہ اس پر کار بند ہو گیا،  اگر خدا چاہتا تو تمام نوع انسانی کو ایک ہی قوم و جماعت بنا دیتا اور فکرو عمل کا کوئی اختلاف وجود میں ہی نہ آتا،  لیکن معلوم ہے کہ خدا نے ایسا نہیں چاہا،  اس کی حکمت کا مقتضیٰ یہی ہوا کہ فکر و عمل کی مختلف حالتیں پیدا ہوں،  پس اس اختلاف کو حق و باطل کا اختلاف کیوں بنا لیا جائے ؟ کیوں اس اختلاف کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت سے بر سر پیکار رہے ؟ اصلی چیز جس پر تمام تر توجہ مبذول کرنی چاہیے "خیرات” ہے،  یعنی نیکی کے کام ہیں اور تمام اعمال و رسوم بھی انہیں کے لیے ہیں۔

غور کرو اس آیت میں  "لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا"کہا،  یعنی تم میں سے ہر جماعت کے لیے ہم نے ایک”شرع” اور”منہاج” ٹھہرا دی۔ یہ نہیں کہا کہ ایک”دین” ٹھہرا دیا،  کیونکہ دین تو سب کے لیے ایک ہی ہے،  اس میں تعدد اور تنوع نہیں ہو سکتا،  البتہ شرع و منہاج سب کے لیے یکساں نہیں ہو سکتے،  ضروری تھا کہ ہر عہد اور ہر ملک کے احوال و ظروف کے مطابق مختلف ہوں۔ پس مذاہب کا اختلاف اصل کا اختلاف نہیں ہوا،  محض فرع کا اختلاف ہوا۔

اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ جہاں کہیں قرآن نے اس بات پر زور دیا ہے  کہ”اگر خدا چاہتا تو تمام انسان ایک ہی راہ پر جمع ہو جاتے ” یا”ایک ہی قوم بن جاتے ” جیسا کہ آیت مندرجہ صدر میں ہے تو ان سب سے مقصود اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ وہ چاہتا ہے یہ بات لوگوں کے دلوں میں اتار دے کہ فکر و عمل کا اختلاف طبیعت بشری کا قدرتی خاصہ ہے اور جس طرح ہر گوشے میں موجود ہے،  اسی طرح مذہب کے معاملے میں بھی موجود ہے،  پس اس اختلاف کو حق و باطل کا معیار نہیں سمجھنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے : جب خدا نے انسان کی طبیعت ہی ایسی بنائی ہے کہ ہر انسان،  ہر قوم،  ہر عہد اپنی سمجھ،  اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا طور طریقہ رکھتا ہے اور ممکن نہیں کہ کسی ایک چھوٹی سی چھوٹی بات میں بھی تمام انسانوں کی طبیعت ایک طرح کی ہو جائے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ مذہبی اعمال و رسوم کی راہیں مختلف نہ ہوتیں اور سب ایک ہی طر ح کی وضع و حالت اختیار کر لیتے ؟ یہاں بھی اختلاف ہونا تھا اور اختلاف ہوا۔ کسی نے ایک طریقے سے اصل مقصود حاصل کرنا چاہا،  کسی نے دوسرے طریقے سے،  لیکن اصل مقصود یعنی خدا پرستی اور نیک عملی کی تعلیم تو اس میں سب  متفق رہے۔ پس جب اصل مقصود سب کا ایک ہے تو محض ظواہر و اعمال  کے اختلاف سے کیوں ایک دوسرے کے مخالف و معاند ہو جائیں ؟ کیوں ہر گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلائے ؟ کیوں مذہبی سچائی کسی ایک ہی نسل و گروہ کی میراث سمجھ لی جائے ؟

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شریعتوں کے اس اختلاف ہی کے لیے نہیں،  بلکہ فکر و عمل کے ہر اختلاف کے لیے رواداری اور وسعت نظر کی تعلیم دیتا ہے،  یہاں تک کہ جو لوگ اس کی دعوت کے خلاف جبر و تشدد کام میں لا رہے ہیں،  ان کی طرف سے بھی اسے معذرت کرنے میں تامل نہیں۔ ایک موقع پر خود پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : تم جوش دعوت میں چاہتے ہو کہ ہر انسان کو راہ حقیقت دکھا دو،  لیکن تمہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اختلاف فکر و عمل طبیعت انسانی کا قدرتی خاصہ ہے۔ تم بہ جبر کسی کے اندر ایک بات نہیں اتار دے سکتے :

وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا۱ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (۹۹:۱۰)

اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو زمین میں جتنے انسان ہیں سب ایمان لے آتے (لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ ہر انسان اپنی اپنی سمجھ اور اپنی اپنی راہ رکھے )۔ پھر کیا تم چاہتے ہو لوگوں کو مجبور کر دو کہ مؤمن ہو جائیں ؟

وہ کہتا ہے :انسان کی طبیعت ایسی  واقع ہوئی ہے کہ ہر جماعت کو اپنا ہی طور طریقہ اچھا دکھائی دیتا ہے،  وہ اپنی باتوں کو دوسروں کی مخالفانہ نگاہ سے نہیں  دیکھ سکتا۔ جس طرح تمہاری نظر میں سب سے بہتر راہ تمہاری ہے،  ٹھیک اسی طرح دوسروں کی نظر میں سب سے بہتر راہ ان کی ہے۔ پس اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس بارے میں تحمل اور رواداری اپنے اندر پیدا کرو:

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ۱ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ۱۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۱۰۸:۶)

اور (دیکھو!) جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دوسروں معبودوں کو پکارتے ہیں،  تم ان پر سب و شتم نہ کرو،  کیونکہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ لوگ بھی از راہ جہل و نادانی خدا کو برا بھلا کہنے لگیں گے (یاد رکھو!) ہم نے انسان کی طبیعت ہی ایسی بنائی ہے کہ ہر گروہ کو اپنا ہی عمل اچھا دکھائی دیتا ہے۔ پھر بالآخر سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے اور وہیں ہر گروہ پر اس کے اعمال کی حقیقت کھلنے والی ہے۔


"تشیع" اور"تحزاب" کی گمراہی اور  تجدید دعوت کی ضرورت


اچھا!جب تمام مذاہب کا اصل مقصد ایک ہی ہے اور سب کی بنیاد سچائی پر ہے تو پھر قرآن کے ظہور کی ضرورت کیا تھی؟ وہ کہتا ہے : اس لیے کہ اگرچہ تمام مذاہب سچے ہیں،  لیکن تمام مذاہب کے پیرو سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں،  اس لیے ضروری ہے کہ سب کو ان کی گمشدہ سچائی پر از سر نو جمع کیا جائے۔

اس سلسلے میں اس نے پیروان مذاہب کی تمام گمراہیاں ایک ایک کر کے گنائی ہیں۔وہ اعتقادی اور عملی دونو طرح کی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک سب سے بڑی گمراہی جس پر جا بجا زور دیتا ہے،  وہ ہے جسے اس نے "تشیع” اور”تحزب” کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے،  عربی میں "تشیع” اور”تحزب” کے معنی یہ ہیں کہ الگ لاگ جتھے بنا لینا اور ان میں ایسی روح کا پیدا ہو جانا جسے اردو میں گروہ پرستی کی روح سے تعبیر کیا جا سکتا ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ۱ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ (۱۵۹:۶)

جن لوگوں نے اپنے ایک ہی دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور الگ الگ گروہ بندوں میں بٹ گئے،  تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں،  ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے،  جیسے کچھ ان کے عمل رہے ہیں اس کا نتیجہ خدا انہیں بتا دے گا۔

فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا۱ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ

پھر لوگوں نے ایک دوسرے سے کٹ کر جدا جدا دین بنا لیے،  ہر ٹولی کے پلے جو کچھ پڑ گیا ہے اسی میں مگن ہے۔



تشیع اور تحزیب کی حقیقت


"تشیع” اور”تحزیب” کی گمراہی سے کیا مقصود ہے،  اسے پوری وضاحت کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔ وہ کہتا ہے : خدا کے ٹھہرائے ہوئے دین کی حقیقت تو یہ تھی کہ نوع انسانی پر خدا پرستی اور نیک عملی کی راہ کھولتا ہے،  یعنی خدا کے اس قانون کا اعلان کرنا تھا کہ دنیا کی ہر چیز کی طرح انسانی افکار و اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں۔ اچھے فکر و عمل کا بدلا اچھا ہے،  برے فکرو عمل کا بدل برا ہے،  لیکن لوگوں نے یہ حقیقت فراموش کر دی اور دین و مذہب کو نسلوں،  قوموں،  ملکوں اور طرح طرح کی رسموں اور رواجوں کا ایک جتھا بنا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان کی نجات و سعادت کی راہ پہ نہیں سمجھی جاتی کہ کس کا اعتقاد اور عمل کیسا ہے،  بلکہ سارا دارومدار اس پر آ کے ٹھہر گیا ہے کہ کون کس جتھے اور گروہ بندی میں داخل ہے۔ اگر ایک آدمی کسی خاص مذہبی گروہ بندی میں داخل ہو جاتا ہے تو یقین کیا جاتا ہے وہ نجات یافتہ ہے اور دین کی سچائی اسے مل گئی۔ اگر داخل نہیں ہے تو یقین کیا جاتا ہے کہ نجات کا دروازہ اس پر بند ہو گیا اور دین کی سچائی میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ گویا دین کی سچائی،  آخرت کی نجات اور حق و باطل کا معیار تمام تر گروہ بندی اور گروہ پرستی ہو گئی،  اعتقاد اور عمل کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر باوجودیکہ تمام مذاہب کا مقصود اصلی ایک ہی ہے اور سب ایک ہی پروردگار عالم کی پرستش  کرنے کے مدعی ہیں،  لیکن ہر گروہ یقین کرتا ہے کہ دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے،  باقی تمام نوع انسانی اس سے محروم ہے۔ چنانچہ ہر مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کے خلاف نفرت و تعصب کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا میں خدا پرستی اور دین داری کی راہ سرتا سر بغض و عداوت،  نفرت و توحش اور قتل و خون ریزی کی راہ بن گئی ہے۔


اس بارے میں دعوت قرآنی کی تین مہمات


اس سلسلے میں قرآن نے جن مہمات پر زور دیا ہے،  ان میں تین باتیں سب سے نمایاں ہیں :

۱۔ انسان کی نجات و سعادت کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے،  نہ کہ کسی خاص گروہ بندی پر۔

۲۔ نوع انسانی کے لیے دین الٰہی ایک ہی ہے اور یکساں طور پر سب کو اسی کی تعلیم دی گئی ہے،  پس یہ جو پیروان مذہب نے دین کی وحدت اور عالم گیر حقیقت ضائع کر کے بہت سے متخالف اور متخاصم بنا لیے ہیں،  یہ صریح گمراہی ہے۔

۳۔ اصل دین توحید ہے،  یعنی ایک پروردگار عالم کی براہ راست پرستش کرتی،  اور تمام بانیان مذاہب نے اسی کی تعلیم دی ہے۔ اس کے خلاف جس قدر عقائد اور اعمال اختیار کر لیے گئے ہیں،  اصلیت سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔

یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندی اور اس کا رد


چنانچہ آیات مندرجہ صدر کے علاوہ حسب ذیل آیات میں بھی اسی حقیقت پر زور دیا گیا ہے :

وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۱ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ۱ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۰۰۱۱۱ بَلٰى ۱ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ۱۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ  (۱۱۱:۲۔۱۱۲)

اور یہود اور نصاریٰ نے کہا: جنت میں کوئی انسان داخل نہیں ہو سکتا جب تک یہود اور نصاریٰ نہ ہو (یعنی جب تک یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندیوں میں داخل  نہ  ہو) یہ ان لوگوں کی (جاہلانہ) امنگیں ہیں۔ (اے پیغمبر!) ان سے کہہ دو: اگر تم (اس زعم باطل میں ) سچے ہو تو بتاؤ تمہاری دلیل کیا ہے ؟ ہاں ! (بلاشبہ نجات کی راہ کھلی ہوئی ہے،  مگر وہ کسی خاص گروہ بندی کی راہ نہیں ہو سکتی،  وہ تو ایمان و عمل کی راہ ہے )۔ جس کسی نے بھی خدا کے آگے سر جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہو تو(خواہ وہ یہودی اور نصرانی ہو،  خواہ کوئی ہو) وہ اپنے پروردگار سے اپنا اجر پائے گا،  اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہے،  نہ کسی طرح کی غمگینی۔

دوسری جگہ یہی حقیقت زیادہ واضح لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِِٕیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۱۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۶۲:۲)

جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لائے ہیں،  وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی کہلاتے ہیں یا نصاریٰ اور صابی ہوں (کوئی بھی ہو) لیکن جو کوئی بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے کام بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا،  اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہے،  نہ کسی طرح کی غمگینی۔

یعنی دین سے مقصود تو خدا پرستی اور نیک عملی کی راہ تھی،  وہ کسی خاص حلقہ بندی کا نام نہ تھا،  کوئی انسان ہو،  کسی نسل سے ہو،  کسی نام سے پکارا جاتا ہو،  لیکن اگر خدا پر اپنا ایمان رکھتا ہے اور اس کے اعمال بھی نیک ہیں تو دین الٰہی پر چلنے والا ہے اور اس کے لیے نجات ہے،  لیکن یہودیوں،  عیسائیوں نے ایک خاص طرح کی نسلی اور جماعتی گروہ بندی کا قانون بنا دیا،  یہودیوں نے گروہ بندی کا ایک دائرہ کھینچا اور اس کا نام”یہودیت” رکھ دیا۔ جو اس دائرے کے اندر ہیں وہ سچائی پر ہے اور اس کے لیے نجات ہے،  جو ا کے باہر ہے وہ باطل پر ہے اور اس کی نجات نہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے بھی ایک دائرہ کھینچ لیا اور اس کا نام”مسیحیت” یا کلیسا رکھ دیا۔ جو اس میں داخل ہے صرف وہی سچائی پر ہے اور صرف اسی کے لیے نجات ہے۔ جو اس سے باہر ہے اس کا سچائی میں کو حصہ نہیں اور نجات سے قطعاً  محروم۔ باقی رہا عمل و اعتقاد تو اس کا قانون یک قلم غیر مؤثر ہو گیا۔ ایک شخص کتنا ہی خدا پرست اور نیک عمل ہو۔ لیکن اگر”یہودیت” کی نسلی گروہ بندی یا”مسیحیت” کی جماعتی گروہ بندی میں داخل نہیں تو اسے کوئی یہودی اور عیسائی،  ہدایت یافتہ انسان تسلیم نہیں کر سکتا۔ لیکن ایک سخت سے سخت بد عمل اور بد  اعتقاد انسان بھی نجات یافتہ سمجھ لیا جائے گا،  اگر ان گروہ بندیوں میں داخل ہو گا۔ قرآن ان کے اسی اعتقاد کو ان لفظوں میں نقل کرتا ہے : كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا۱ؕ (۱۳۵:۲) یعنی، ہدایت کی راہ اعتقاد اور عمل کی راہ نہیں ہے بلکہ یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندی کی راہ ہے،  جب تک کوئی یہودی یا نصرانی نہ ہو جائے،  ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے :خدا کی ہدایت جو دنیا کا عالم گیر قانون ہے،  وہ بھلا ان خود ساختہ گروہ بندیوں میں کیونکہ محدود ہو جا سکتی ہے ؟ بَلٰى ۱ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ (۱۱۲:۲) کے زور اور عموم پر غور کرو! کوئی انسان ہو،  کسی نسل و قوم اور گروہ بندی کا ہو،  لیکن جس کسی نے بھی  اللہ کے آگے عبودیت کا سر جھکا دیا اور نیک عملی کی زندگی اختیار کی،  اس نے دین کی نجات اور وسعت پالی اور اس کے لیے کوئی غم اور کھٹکا نہیں۔ غور کرو،  مذہبی صداقت کی عالم گیر وسعت کا اس سے زیادہ واضح اور ہمہ گیر اعلان اور کیا ہو سکتا ہے :

وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ۱۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍ۱ۙ وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۱ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ۱ۚ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ (۱۱۳:۲)

اور یہودیوں نے کہا: عیسائیوں کا دین کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے کہا: یہودیوں کے پاس کیا دھرا ہے ؟ حالانکہ دونوں (اللہ کی) کتاب پڑھتے ہیں (اور دونوں کا سرچشمہ دین ایک ہی ہے )۔ ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب نے کہ وہ بھی صرف اپنے ہی کو نجات کا وارث سمجھتے ہیں )،  اچھا! جس بات میں باہم دگر جھگڑ رہے ہیں،  قیامت کے دن اللہ اس کا فیصلہ کر دیگا (اور اس وقت حقیقت حال سب پر کھل جائے گی)۔

یعنی باوجویکہ خدا کا دین ایک ہی ہے اور کتاب الٰہی یعنی تورات،  دونوں کے سامنے ہے،  بایں ہمہ مذہبی گروہ بندی کا نتیجہ یہ ہے کہ باہم دگر مخالفت اور مکذب جتھے قائم ہو گئے ہیں،  ہر جتھا دوسرے جتھے کو جھٹلاتا اور ہر جتھا صرف اپنے ہی کو نجات و سعادت کا مالک سمجھتا ہے۔



سچائی اصلاً سب کے پاس ہے مگر عملاً سب نے کھودی ہے


سوال یہ ہے کہ جب دین کی راہ ایک ہونے کی جگہ بے شمار جتھوں اور ٹولیوں میں بٹ گئی اور ہر جتھا ایک ہی طریقے پر اپنی سچائی کا مدعی ہے اور ایک ہی طریقے پر دوسروں کو جھٹلا رہا ہے تو اب اس بات کا فیصلہ کیونکہ ہو کہ فی الحقیقت سچائی ہے کہاں ؟ قرآن کہتا ہے : سچائی اصلاً سب کے پاس ہے،  مگر عملاً سب نے کھودی ہے۔ سب کو ایک ہی دین کی تعلیم دی گئی تھی اور سب کے لیے ایک ہی عالم گیر قانون ہدایت تھا،  لیکن سب نے اصل حقیقت ضائع کر دی اور”الدین” پر قائم رہتے کی جگہ الگ الگ گروہ بندیاں کر لیں،  اب ہر گروہ دوسرے گروہ سے لڑ رہا ہے اور سمجھتا ہے دین کی سعادت اور نجات صرف اسی کے ورثے میں آئی ہے،  دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔


عبادت گاہوں میں تفرقہ


سورۃ بقرۃ میں مندرجہ صدر آیت کے بعد ہی حسب ذیل بیان شروع ہو جاتا ہے :

 وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا۱ؕ اُولٰٓىِٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىِٕفِیْنَ۱ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۱۱۴:۲)

اور غور کرو! اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والا انسان کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی عبادت گاہوں میں اس کے نام کی یاد سے مانع آئے اور ان کی ویرانی میں کوشاں ہو؟ جن لوگوں کے ظلم و شرارت کا یہ حال ہے،  یقیناً وہ اس لائق نہیں کہ خدا کی عبادت گاہ  میں قدم رکھیں بجز اس حالت کے کہ (دوسروں کو اپنی طاقت سے ڈرانے کی جگہ خود دوسروں کی طاقت سے ) ڈرے سہمے ہوئے ہوں۔ یاد رکھو! ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی سخت ترین عذاب۔

یعنی مذہبی گروہ بندی کی گمراہی کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی عبادت گاہیں تک الگ الگ ہو گئی ہیں اور باوجودیکہ تمام پیروانِ مذہب ایک ہی خدا کے نام لیوا ہیں،  لیکن ممکن نہیں ایک مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کی بنائی ہوئی عبادت گاہ میں جا کر خدا کا نام لے سکے،  اتنا ہی نہیں،  بلکہ ہر گروہ صرف اپنی عبادت گاہ کو خدا کی عبادت گاہ سمجھتا ہے،  دوسرے گروہ کی عبادت گاہ اس کی نظروں میں کوئی احترام نہیں رکھتی حتیٰ کہ بسا اوقات وہ مذہب کے نام پر اٹھتا ہے اور دوسروں کی عبادت گاہیں منہدم کر ڈالتا ہے،  قرآن کہتا ہے : اس سے بڑھ کر انسان کا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا کے بندوں کو خدا کی یاد سے روکا جائے اور صرف اس لیے روکا جائے کہ وہ ایک دوسرے مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں یا ایک عبادت گاہ ڈھا دی جائے کہ وہ ہماری بنائی ہوئی نہیں ہے،  دوسرے گروہ کی بنائی ہوئی ہے۔ کیا تمہارے بنائے ہوئے مذہبی جتھوں کے اختلاف سے خدا بھی مختلف ہو گئے ؟ اور اس لیے ایک جتھے کی بنائی ہوئی عبادت گاہ تو خدا کی عبادت گاہ ہوئی،  مگر دوسرے کی بنائی ہوئی عبادت گاہ خدا کی عبادت گاہ نہیں :

وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِینَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن یُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِیتُمْ أَوْ یُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ (آل عمران: ۷۳)

اور (یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں ) یہ بات کبھی نہ مانو کہ دین کی جو سعادت تمہیں دی گئی ہے (یعنی یہودیوں کو دی گئی ہے ) ویسی اب کسی دوسرے انسان کو مل سکے،  یا اللہ کے حضور تمہارے خلاف کسی کی کوئی حجت چل سکے۔ (اے پیغمبر!) اب لوگوں سے کہہ دو: ہدایت تو وہی ہے جو اللہ کی ہدایت ہے (اور اس کی راہ سب کے لیے کھلی ہوئی ہے )۔ اور فضل اور بخشش کا سر رشتہ تمہارے ہاتھ نہیں ہے،  اللہ کے ہاتھ ہے،  جسے چاہے دے دے،  وہ (اپنے فضل میں ) بڑی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

یعنی یہودیوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وحیِ نبوت کی ہدایت جو انہیں دی گئی ہے،  وہ صرف انہیں کے لیے ہے،  ممکن نہیں کسی دوسرے انسان یا قوم کو یہ بات حاصل ہو سکے۔ چنانچہ اسی بناء پر وہ کہتے ہیں : اپنے مذہب کے آدمیوں کے علاوہ اور کسی آدمی کی سچائی اور بزرگی تسلیم نہ کرو اور یہ بات مانو کہ تمہارے خلاف (یعنی یہودیوں کے خلاف) کسی آدمی کی کوئی دلیل خدا کے حضور مقبول ہو سکتی ہے۔ قرآن اسی زعمِ باطل کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے "ان الھدیٰ ھدی اللہ” ہدایت کی راہ تو رہی ہے جو اللہ کی ہدایت ہے اور اللہ کا فضل کسی ایک انسان یا گروہ کے لیے نہیں ہے،  سب کے لیے ہے،  پس جو انسان بھی ہدایت کی راہ چلے گا،  ہدایت یافتہ ہو گا،  خواہ یہودی ہو یا کوئی ہو۔


یہودی اپنے آپ کو نجات یافتہ امت سمجھتے تھے اور کہتے تھے دوزخ کی آگ ان پر حرام کر دی گئی ہے


یہودیوں کی گروہ بندی کا غرور یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ وہ کہتے تھے : "خدا نے دوزخ کی آگ ہم پر حرام کر دی ہے،  اگر ہم میں سے کوئی آدمی جہنم میں ڈالا بھی جائے گا تو اس لیے نہیں کہ اسے عذاب میں ڈالا جائے،  بلکہ اس لیے کہ  گناہ کے داغ دھبوں سے پاک و صاف کر دیا جائے اور پھر جنت میں جا داخل ہو، ” قرآن ان کا یہ زعمِ باطل جا بجا نقل کرتا ہے اور پھر اس کا رد کرتے ہوئے پوچھتا ہے : یہ بات تمہیں کہاں سے معلوم ہو گئی کہ یہودی گروہ بندی کا ہر فرد نجات یافتہ ہے اور عذابِ اخری سے اسے چھٹکارا مل چکا ہے ؟ کیا تمہیں خدا نے غیر مشروط نجات کا کوئی پٹا لکھ کر دے دیا ہے کہ جہاں ایک انسان یہودی ہوا اور آتشِ دوزخ اس پر حرام ہو گئی؟ اگر نہیں دیا ہے تو پھر بتاؤ ایسا اعتقاد رکھنا خدا پر افترا نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ اس کے بعد صاف لفظوں میں خدا کے قانونِ عمل کا اعلان کرتا ہے : "جس کسی نے بھی اپنے عمل سے برائی کمائی،  اس کے لیے برائی ہے ” یرنی جس طرح سنکھیا کھانے سے ہر کھانے والا ہلاک ہو جاتا ہے،  خواہ یہودی ہو یا غیر یہودی،  اور دودھ پینے سے صحت و توانائی ملتی ہے،  خواہ پینے والا کسی نسل و قوم اور گروہ سے تعلق رکھتا ہو،  اسی طرح عالمِ معنویات میں بھی ہر عمل کا ایک خاصہ ہے اور وہ اس لیے بدلا نہیں جا سکتا کہ عمل کرنے والے کی نسل یا گروہ بندی کیا ہے ؟ چنانچہ سورۃ بقرۃ میں ہے :

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن یُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ  ۔   بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَیِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِیئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ   ۔  وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ  (البقرۃ: ۸۰-۸۲)

اور ان لوگوں نے (یعنی یہودیوں نے ) کہا: ہمیں جہنم کی آگ کبھی چھونے والی نہیں،  اور اگر چھوئے بھی تو اس سے زیادہ نہیں کہ چند دنوں کے لیے چھوئے۔ (اے پیغمبر!) ان سے کہو: یہ جو تم کہتے ہو تو کیا تم نے خدا سے کوئی قول و قرار کرا لیا ہے اور اب وہ اپنے قول و قرار سے نہیں پھر سکتا،  یا پھر تم خدا کے نام سے ایک ایسی (جھوٹی) بات کہہ رہے ہو جس کا تمہیں کوئی عمل نہیں۔ نہیں ! (خدا کا قانون تو یہ ہے کہ کسی نسل اور کسی گروہ کا انسان ہو،  لیکن) جس کسی نے بھی برائی کمائی اور اپنے گناہوں میں گھر کیا تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہی،  ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا اور جس کسی نے بھی ایمان کی راہ اختیار کی اور نیک عمل ہوا تو وہ بہشتی گروہ میں سے ہے،  ہمیشہ بہشت میں رہنے والا۔

قانونِ نجات کا اعلانِ عام


سورۃ نساء میں نہ صرف یہودیوں اور عیسائیوں کو بلکہ سب کو مخاطب کر کے صاف صاف اعلان کر دیا ہے،  ایسا اعلان جس کے بعد کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی:

لَّیْسَ بِأَمَانِیِّكُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗمَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ وَلَا یَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا (النساء: ۱۲۳)

(مسلمانو! یاد رکھو نجات اور سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ (خدا کا قانون تو یہ ہے کہ) جو کوئی برائی کرے گا اس کا نتیجہ اس کے سامنے آئے گا اور پھر نہ تو کسی کی دوستی بچا سکے گی نہ کسی طاقت کی مددگاری۔

یہودی سمجھتے تھے غیر مذہب والوں کے ساتھ معاملت میں دیانت داری ضروری نہیں،  قرآن کا اس پر انکار


اسی مذہبی گروپ بندی کا نتیجہ تھا کہ یہودی سمجھتے تھے سچائی اور دیانت داری کے جس قدر بھی احکام نہیں وہ اس لیے نہیں ہیں کہ تمام انسانوں کے ساتھ عمل میں لائے جائیں،  بلکہ محض اس لیے ہیں کہ ایک یہودی دوسرے یہودی کے ساتھ بد دیانتی نہ کرے۔ وہ کہتے تھے : اگر ایک آدمی ہمارا مذہب نہیں ہے تو ہمارے لیے جائز ہے کہ جس طرح بھی چاہیں اس لا مال کھا لیں،  کچھ ضروری نہیں کہ راست بازی و دیانت کے اصول ملحوظ رکھے جائیں۔ چنانچہ لین دین میں سود کی ممانعت کو انہوں نے صرف اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا اور آج تک ان کا  طرزِ عمل یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی کو دوسرے یہودی سے ظالمانہ سود نہیں لینا چاہیے۔ لیکن ایک یہودی غیر یہودی سے لے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ قرآن ان کے اس عقیدے کا ذکر کرتا اور اسے ان کی بہت بڑی گمراہی قرار دیتا ہے :

أَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا (النساء: ۱۶۱)

اور ان کا سود کھانا،  حالانکہ وہ اس سے روک دیے گئے تھے،  اور ان کی یہ بات کہ لوگوں کا مال ناجائز طریقے پر کھا لیتے تھے۔

اسی طرح جو یہودی عرب میں آباد تھے وہ کہتے تھے : عرب کے ان پڑھ  باشندوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں راست بازی و دیانت داری کچھ ضروری نہیں،  یہ لوگ بت پرست ہیں،  ہم ان لوگوں کا مال جس طرح کھا لیں،  ہمارے لیے جائز ہے :

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ یَعْلَمُونَ   ۔  بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ (آل عمران: ۷۵-۷۶)

(یہودیوں کی) یہ (بد معاملگی) اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں (عرب کے اِن) اَن پڑھ لوگوں سے (بد معاملگی کرنے میں ) ہم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی،  (جس طرح بھی ہم چاہیں ان کا مال کھا  سکتے ہیں،  حالانکہ) ایسا کہتے ہوئے وہ صریح اللہ پر افتراء کرتے ہیں۔ ہاں ! (ان سے باز پرسی ہو اور ضرور ہو،  کیونکہ اللہ کا قانون تو یہ ہے کہ) جو کوئی اپنا قول و قرار سچائی کے ساتھ پورا کرتا ہے اور برائی سے بچتا ہے تو وہی اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے،  اور اللہ برائی سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

یعنی ایسا عقیدہ رکھنا خدا کے دین پر صریح افتراء ہے،  خدا کا دین تو یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے اور ہر حال میں راست بازی و دیانت داری کی راہ چلنی چاہیے،  خواہ کوئی انسان ہو اور کسی عقیدے اور گروہ کا ہو،  کیونکہ سفید ہر حال میں سفید ہے اور سیاہ ہر حال میں سیاہ۔ سفید چیز اس لیے کالی نہیں ہو جاتی کہ کس آدمی کو دی گئی ہے،  اور کالی چیز اس لیے سفید نہیں ہو جا تی کہ کس نسل اور کس گروہ کے ہاتھوں نکلی ہے۔ پس دیانت داری ہر حال میں دیانت داری ہے اور بد دیانتی ہر حال میں بد دیانتی۔


حضرت ابراہیم کی شخصیت سے استشہاد



نزولِ قرآن کے وقت بڑے مذہبی گروہ عرب میں تین تھے : یہودی،  عیسائی اور مشرکینِ عرب۔ اور یہ تینوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت تو یکساں طور پر عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے،  کیونکہ تینوں گروہوں کے مورثِ اعلیٰ وہی تھے۔ پس قرآن مذہبی گروہ بندی کی گم راہی واضح کرنے کے لیے ایک نہایت سیدھا سادہ سوال ان تینوں کے آگے پیش کرتا ہے۔ اگر دین کی سچائی گروہ بندیوں کے ساتھ وابستہ ہے تو بتاؤ حضرت ابراہیم کس گروہ بندی کے آدمی تھے ؟ یہ ظاہر ہے کہ اس وقت تک نہ تو یہودیت کا ظہور ہوا تھا،  نہ مسیحیت کا اور نہ کوئی دوسری گروہ بندی ہی موجود تھی۔ پھر اگر ابراہیم کسی گروہ بندی میں داخل نہ ہونے پر بھی دینِ حق کی راہ پر تھے تو بتاؤ وہ راہ کون سی تھی؟ قرآن کہتا ہے : وہ اسی دینِ حقیقی کی راہ تھی جو تمہارے تمام بنائی ہوئی گروہ بندیوں سے بالاتر اور نوعِ انسانی کے لیے عالم گیر قانونِ نجات ہے،  یعنی خدا کی موحدانہ پرستش اور نیک عملی کی زندگی:

قَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ  (البقرۃ: ۱۳۵)

اور یہودی کہتے ہیں :  یہودی ہو جاؤ،  ہدایت پاؤ گے۔ نصاریٰ کہتے ہیں : نصرانی ہو جاؤ،  ہدایت پا ؤ گے۔ (اے پیغمبر!) تم کہو: نہیں (اللہ کی عالم گیر ہدایت تمہاری ان گروہ بندیوں کی پابند نہیں ہو سکتی)۔ ہدایت کی راہ تو وہی حنیفی راہ ہے جو ابراہیم کا طریقہ تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔

سورۃ آل عمران میں یہی مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا  ہے :

یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إِبْرَاهِیمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِیلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ  (آل عمران: ۶۵)

اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں حجت کرتے ہو؟ حالانکہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ تورات اور انجیل نازل نہیں ہوئیں مگر اس کے بعد۔ پھر کیا اتنی صاف بات بھی سمجھ نہیں سکتے ؟

یعنی وہ یہودیوں اور عیسائیوں سے سوال کرتا ہے : تمہارے ان گروہ بندیوں کی تاریخ زیادہ سے زیادہ تورات اور انجیل کے ظہور تک جا سکتی ہے،  کیونکہ انہیں کی نسبت سے گروہ بندیوں کے حلقے کھینچے گئے ہیں۔ اچھا! بتاؤ تورات سے پہلے بھی ہدایت یافتہ انسان موجود تھے یا نہیں ؟ اگر تھے تو ان کی راہ کیا تھی؟ خود تمہارے اسرائیلی گھرانے کے تمام نبیوں کی راہ کیا تھی؟ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو جس دین کی تلقین کی کی وہ دین کون سا تھا؟ حضرت یعقوب جب بسترِ مرگ پر تھے اور اپنے بیٹوں کو دینِ الٰہی پر قائم رہنے کی وصیت کر رہے تھے تو اس دین سے مقصود کون سا دین تھا؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ یہودیت یا مسیحیت کی گروہ بندی نہیں ہو سکتی،  کیونکہ یہ دونوں گروہ بندیاں حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح ہوئے۔ پس معلوم ہوا تمہارے ان خود ساختہ حلقہ ہائے نجات سے بھی کوئی بالا تر راہِ نجات موجود ہے جو اس وقت بھی نوعِ انسانی کے سامنے موجود تھی جب ان حلقہ بندیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قرآن کہتا ہے : یہی راہِ نجات ہے،  دین کی اصلی راہ  ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے کسی گروہ بندی کی  نہیں،  بلکہ اعتقاد اور عمل کی ضرورت ہے :

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرۃ: ۱۳۳)

پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کے سرہانے موت آ کھڑی ہوئی تھی اور اس نے اپنی اولاد سے پوچھا تھا: بتاؤ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انہوں نے جواب میں کہا تھا: اس ایک خدا کی عبادت کریں گے جس کی تو نے عبادت کی ہے اور تیرے بزرگوں ابراہیم،  اسماعیل اور اسحاق نے کی ہے،  اور ہم خدا کے حکموں کے فرماں بردار ہیں۔



اصلِ دین وحدت و اخوت ہے نہ کہ تفرقہ و منافرت



وہ کہتا ہے : دینِ الٰہی کی اصل نوعِ انسانی کی وحدت و اخوت ہے نہ کہ تفرقہ و منافرت۔ خدا کے جتنے بھی رسول دنیا میں آئے،  سب نے یہی تعلیم دی تھی کہ تم سب اصلاً ایک ہی امت ہو اور تم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے۔ پس چاہیے کہ سب اسی ایک پروردگار کی بندگی کریں اور ایک گھرانے کے بھائیوں کی طرح مل جل کر رہیں۔ اگرچہ ہر مذہب کے داعی نے اسی راہ کی تعلیم دی،  لیکن ہر مذہب کے  پیروؤں نے اس سے انحراف کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ملک،  ہر قوم،  ہر نسل نے اپنے اپنے جتھے الگ الگ بنا لیے اور ہر جتھا اپنے طریقے میں مگن ہو گیا۔

قرآن نے پچھلے رسولوں اور مذہب کے بانیوں میں سے جن جن رہنماؤں کے مواعظ نقل کیے ہیں ان سب میں بھی اصلِ اصول یہی حقیقت ہے اور عموماً اکثر مواعظ کا خاتمہ دین کی وحدت اور انسان کی عالمگیر اخوت کی تعلیم پر ہی ہوتا ہے۔ مثلاً سورۃ مؤمنون میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کا ذکر کیا ہے :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ (المؤمنون: ۲۳)

اس کے بعد ان دعوتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو حضرت نوح کے بعد ہوتی رہیں :

ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِینَ  ۔  فَأَرْسَلْنَا فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ  (المؤمنون:۳۱-۳۲)

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے :

 ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَارُونَ (المؤمنون:۴۵)

پھر ان تمام دعوتوں کے بعد یہ صدائے حق بلند ہوتی ہے :

یَا أَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖإِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ   ۔  وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ   ۔  فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَیْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُونَ  (المؤمنون: ۵۱-۵۳)

(اور) ہم نے تمام رسولوں کو یہی حکم دیا تھا کہ پاک و صاف چیزیں کھاؤ اور نیک عملی کی زندگی بسر کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے میں بے خبر نہیں ہوں۔ اور (دیکھو!) یہ تمہارے قوم دراصل ایک ہی قوم ہے اور میں تم سب کا پروردگار  ہوں،  پس نا فرمانی سے بچو۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ لوگوں نے ایک دوسرے سے  کٹ کر جدا جدا دین بنا لیے،  ہر ٹولی کے پلے جو کچھ پڑ گیا ہے اسی میں مگن ہے۔

یعنی تمام رسولوں نے یکے بعد دیگرے یہی تعلیم دی تھی کہ خدا کی بندگی کرو اور نیک عملی کی زندگی اختیار کرو۔ تم سب خدا کے نزدیک ایک ہی امت ہو اور تم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے۔ ہم میں سے کوئی گروہ دوسرے گروہ کو اپنے سے الگ نہ سمجھے،  نہ کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مخالف ہو جائے۔ "فتقطعوا امرھم بینھم زبرا” لیکن لوگوں نے یہ تعلیم فراموش کر دی اور اپنی الگ الگ ٹولیاں بنا لیں۔ "کل حزب بما لدیھم فرحون” اب ہر ٹولی اسی میں مگن ہے جو اس کے پلے پڑ گیا ہے۔


رسمِ اصطباغ



مذہبی گروہ بندی کی رسموں میں سے ایک رسم وہ ہے جو عیسائی کلیسا نے اختیار کر رکھی ہے اور جسے وہ اصطباغ (بپتسمہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ در اصل ایک یہودی رسم تھی جو اس وقت ادا کی جاتی تھی جب لوگ گناہوں سے توبہ کیا کرتے تھے اور اس لیے فی نفسہٖ ایک مقررہ رسم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن عیسائیوں نے اسے انسانی نجات و سعادت کی بنیاد سمجھ لیا ہے۔ جب تک ایک شخص مسیح علیہ السلام کے نام پر اصطباغ نہ لے وہ نجات یافتہ انسان نہیں سمجھا جاتا۔ قرآن کہتا ہے : یہ کیسی گمراہی ہے کہ انسانی نجات و سعادت،  جس کا دار و مدار عمل و اعتقاد پر ہے،  محض ایک مقررہ رسم کے ساتھ وابستہ کر دی جائے ! انسانوں  کا یہ ٹھہرایا ہوا اصطباغ اللہ کا اصطباغ نہیں ہے۔ اللہ کا اصطباغ تو یہ ہے کہ تمہارے دل خدا پرستی کے رنگ میں رنگ جائیں :

صِبْغَةَ اللَّهِ ۖوَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ  (البقرۃ: ۱۳۸)

یہ اللہ کا رنگ ہے (یعنی دینِ الٰہی کا قدرتی اصطباغ ہے ) اور اللہ سے بہتر رنگ دینے میں اور کون ہو سکتا ہے ؟ ہم تو اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔


قانونِ عمل



اسی طرح سورۃ بقرۃ میں بار بار کہتا ہے : دینِ الٰہی عمل کا قانون ہے اور ہر انسان کے لیے وہی ہونا جو اس کے عمل کی کمائی ہے۔ یہ بات کہ ایک گروہ میں بہت سے نبی اور برگزیدہ انسان ہو چکے ہیں یا نیک انسانوں کی نسل میں سے ہے یا کسی پچھلی قوم سے رشتۂ  قدامت رکھتا ہے،  نجات و سعادت کے لیے کچھ سود مند نہیں :

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖوَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ  (البقرۃ: ۱۳۴)

یہ ایک امت تھی جو گزر چکی اور اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو اپنے عمل سے کماؤ،  تم سے اس کی باز پرس نہیں ہو گی کہ اس کے عمل کیسے تھے۔



قرآن کی دعوت



چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کوئی بات بھی قرآن کے صفحوں پر اس درجہ نمایاں نہیں ہے جس قدر یہ بات ہے۔ اس نے بار بار صاف اور قطعی لفظوں میں اس حقیقت کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ کسی نئی مذہبی گروہ بندی کی دعوت لے کر نہیں آیا ہے،  بلکہ چاہتا ہے تمام مذہبی گروہ بندیوں کی جنگ و نزاع سے دنیا کو نجات دلا دے اور سن کو اسی ایک راہ پر جمع کر دے جو سب کی مشترک اور متفقہ راہ ہے۔

وہ بار بار کہتا ہے : جس راہ کی میں دعوت دے رہا ہوں وہ کوئی نئی راہ نہیں ہے اور نہ ہی سچائی کی راہ نئی ہو سکتی ہے۔ یہ وہی راہ ہے جو اول روز سے موجود ہے اور تمام مذاہب کے داعیوں نے اسی کی طرف بلایا ہے :

 شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَىٰ وَعِیسَىٰ ۖ أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ ۚ (الشوریٰ: ۴۳)

اور (دیکھو!) اس نے تمہارے لیے دین کی وہی راہ ٹھہرائی ہے جس کی وصیت نوح کو کی گئی تھی اور جس پر چلنے کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھ۔(ان سب کی تعلیم یہی تھی) کہ الدین (یعنی خدا کا ایک ہی دین) قائم رکھو اور اس راہ میں الگ الگ نہ ہو جاؤ۔

سورۃ نساء میں ہے :

إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ كَمَا أَوْحَیْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِن بَعْدِهِ ۚوَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِیسَىٰ وَأَیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ ۚ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ۔  وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَیْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِیمًا  (النساء: ۱۶۳-۱۶۴)

(اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں اسی طرح اپنی وحی سے مخاطب کیا ہے جس طرح نوح کو کیا تھا اور اُن تمام نبیوں کو کیا تھا جو نوح کے بعد ہوئے۔ نیز جس طرح ابراہیم،  اسماعیل،  اسحاق،  اولادِ یعقوب،  اور عیسیٰ،  ایوب،  یونس،  ہارون،  سلیمان (وغیرہم) کو مخاطب کیا اور داوٗد کو زبور عطا کی۔ علاوہ بریں وہ رسول جن میں سے بعض کا حال ہم تمہیں پہلے سنا چکے ہیں اور بعض ایسے ہیں جن کا حال تمہیں نہیں سنایا۔

سورۃ انعام میں پچھلے رسولوں کا ذکر کر کے پیغمبرِ اسلام کو مخاطب کیا ہے اور کہا ہے :

أُولَٰئِكَ الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ  (الأنعام : ۹۰)

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے راہِ حق دکھائی،  پس (اے پیغمبر!) تم بھی انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔

سب کی یکساں تصدیق اور سب کے متفقہ دین کی پیروی اس کی دعوت کا اصلِ اصول ہے


اسی لیے اس کی دعوت کی پہلی بنیاد ہی یہ ہے کہ تمام بانیانِ مذاہب کی یکساں طور پر تصدیق کی جائے،  یعنی یقین کیا جائے کہ سب حق پر تھے،  سب خدا کی سچائی کے پیغام بر تھے،  سب کے ایک ہی اصل و قانون کی تعلیم دی اور سب کا اس متفقہ تعلیم پر کاربند ہونا ہی ہدایت و سعادت کی تنہا راہ ہے :

قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَىٰ وَعِیسَىٰ وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ  (آل عمران : ۸۴)

(اے پیغمبر!) کہہ دو: ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ  اس نے  ہم پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لائے ہیں ۔  نیز جو کچھ ابراھیم اسماعیل اسحار یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوا ہے ان سب پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح جو کچھ موسی او عیسی کو اور دنیا کے تمام نبیوں کو ان کے پروردگار سے دیا گیا ہے سب پر ہمارا ایمان ہے۔ ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے سے جدا نہیں کرتے ( اسے نہ مانیں ، دوسروں کو مانیں ، ہم سب کی یکساں طور پر تصدیق کرتے ہیں ) اور ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں ( اس کی سچائی جہاں کہیں بھی اور جس کسی کی زبانی بھی آئی ہو اس پر ہمارا ایمان ہے )


یہ بھی پڑھیں !