قوم لوط پر عذاب کی تفصیل بائیبل ، قدیم یونانی اور لاطینی تحریروں کی روشنی میں ۔

ارشاد باری تعالی ہے : 

کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطِۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۶۰﴾ اِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ لُوۡطٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۚ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿۱۶۲﴾ۙ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۶۳﴾ۚ وَ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۴﴾ؕ اَتَاۡتُوۡنَ الذُّکۡرَانَ مِنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۵﴾ۙ وَ تَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ عٰدُوۡنَ ﴿۱۶۶﴾ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ یٰلُوۡطُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُخۡرَجِیۡنَ ﴿۱۶۷﴾ قَالَ اِنِّیۡ لِعَمَلِکُمۡ مِّنَ الۡقَالِیۡنَ ﴿۱۶۸﴾ؕ رَبِّ نَجِّنِیۡ وَ اَہۡلِیۡ مِمَّا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ فَنَجَّیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۷۰﴾ۙ اِلَّا عَجُوۡزًا فِی الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚ ثُمَّ دَمَّرۡنَا الۡاٰخَرِیۡنَ ﴿۱۷۲﴾ۚ وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۱۷۳﴾ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ؕ وَ مَا کَانَ اَکۡثَرُہُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۴﴾ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۷۵) (سورۃ الشعراء : 140 تا 1759 )

ترجمہ :

"لُوطؑ کی قوم نے رسُولوں کو جھُٹلایا۔  یاد کرو جبکہ ان کے بھائی لُوط ؑ نے ان سے کہا تھا”کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسُول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمّہ ہے۔

کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے ربّ نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟  بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔“ انہوں نے کہا”اے لُوطؑ ، اگر تُو اِن باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں اُن میں تُو بھی شامل ہو کر رہے گا۔“  اس نے کہا”تمہارے کرتُوتوں پر جو لوگ کُڑھ رہے ہیں میں اُن میں شامل ہوں۔

اے پروردگار، مجھے اور میرے اہل و عیال کو ان کی بد کرداریوں سے نجات دے۔“  آخر کار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا، بجز ایک بُڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔  پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو اُن ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی۔

یقیناً اس میں ایک نشانی ہے ، مگر اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبر دست بھی ہے اور رحیم بھی۔ "



 اس بارے میں  یہاں سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی تفہیم القرآن سے  سُوْرَةُ الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :114 ملاحظہ کریں،  وہ لکھتے ہیں :

" قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت لوط جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گۓ تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک ایک زور کا دھماکا ہوا (فَاَ خَذَ تْھُمُ الصَّیْحَۃُمُشْرِقِیْنَ O )، ایک ہولناک زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا (جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا )، ایک زبردست آتش فشانی اِنفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر بر ساۓ گۓ (وَاَمْطَرْ نَا عَلَیْھَا حِجَا رَ ۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ O) اور ایک طوفانی ہو سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا (اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ حَاصِباً)۔ 

بائیبل کے بیانات، قدیم یونانی اور لاطینی تحریروں ، جدید زمانے کی طبقات الارضی تحقیقات اور آثار قدیمہ کے مشاہدات سے اس عذاب کی تفصیلات پر جو روشنی پڑتی ہے اس کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : 


بحیرہ مردار (Dead Sea) کے جنوب اور مشرق میں جو علاقہ آج انتہائی ویران اور سنسان حالت میں پڑا ہوا ہے ، اس میں بکثرت پرانی بستیوں کے کھنڈروں کی موجودگی پتہ دیتی ہے کہ یہ کسی زمانہ میں نہایت آباد علاقہ رہا تھا۔ آج وہاں سینکڑوں برباد شدہ قریوں کے آثار ملتے ہیں ، حالانکہ اب یہ علاقہ اتنا شاداب نہیں ہے کہ اتنی آبادی کا بوجھ سہار سکے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس علاقے کی آبادی و خوشحالی کا دور 2400 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح تک رہا ہے ، اور حضرت ابراہیمؑ کے متعلق مؤرخین کا اندازہ یہ ہے کہ وہ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں گزرے ہیں۔ اس لحاظ سے آثار کی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ علاقہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بھتیجے حضرت لوطؑ کے عہد ہی میں برباد ہوا ہے۔ 

اس علاقے کا سب سے زیادہ آباد اور سر سبز و شاداب حصہ وہ تھا جسے بائیبل میں ’’ سِدّیم کی وادی‘‘ کہا گیا ہے ، جس کے متعلق بائیبل کا بیان ہے کہ ’’ وہ اس سے پیشتر خداوند نے سَدُوم اور عمورہ کو تباہ کیا، خداوند کے باغ (عدن) اور مصر کے مانند خوب سیراب تھی‘‘ (پیدائش، باب 13۔ آیت 10 )۔ موجودہ زمانے کے محققین کی عام راۓ یہ ہے کہ وہ وادی اب بحیرہ مردار کے اندر غرق ہے ، اور یہ راۓ مختلف آثار کی شہادتوں سے قائم کی گئی ہے۔ قدیم زمانہ میں ، بحیرہ مردار جنوب کی طرف اتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے۔ شرق اُردن کے موجودہ شہر الکرک کے سامنے مغرب کی جانب اس بحیرے میں جو ایک چھوٹا سا جزیرہ نما’’اللّسان‘‘ پایا جاتا ہے ، قدیم زمانے میں جس یہی پانی کی آخری سرحد تھی۔ اس کے نیچے کا حصہ جہاں اب پانی پھیل گیا ہے (جسے ملحقہ نقشے میں ہم نے آڑی لکیروں سے نمایاں کیا ہے ) پہلے ایک س سبز وادی کی شکل میں آباد تھا اور یہی وہ وادی سدیم تھی جس میں قوم لوطؑ کے بڑے بڑے شہر سدوم، عمورہ، ادمہ، ضبوئیم اور ضُغر واقع تھے۔ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ایک زبردست زلزلے کی وجہ سے یہ وادی پھٹ کر دب گئی اور بحیرہ مردار کا پانی اس کے اوپر چھا گیا۔ آج بھی یہ بحیرے کا سب سے زیادہ اُتھلا حصہ ہے ، مگر رومی عہد میں یہ اتنا اُتھلا تھا کہ لوگ اللّسان سے مغربی ساحل تک چل کر پانی میں سے گزر جاتے تھے۔ اس وقت تک جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ پانی میں ڈوبے ہوۓ جنگلات صاف نظر آتے ہیں۔ بلکہ یہ شبہہ بھی کیا جاتا ہے کہ پانی میں کچھ عمارات ڈوبی ہوئی ہیں۔ 

بائیبل اور قدیم یونانی و لاطینی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں جگہ جگہ نفط (پٹرول) اور اسفالٹ کے گڑھے تھے اور بعض بعض زمین سے آتش گیر گیس بھی نکلتی تھی۔ اب بھی وہاں زیر زمین پٹرول اور گیسوں کا پتہ چلتا ہے۔ طبقات الارض مشاہدات سے اندازہ کیا گیا ہے کہ زلزلے کے شدید جھٹکوں کے ساتھ پٹرول، گیس اور اسفالٹ زمین سے نکل کر بھڑک اٹھے اور سارا علاقہ بھک سے اڑ گیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس تباہی کی اطلاع پاکر حضرت ابراہیمؑ جب حبرون سے اس وادی کا حال دیکھنے آۓ تو زمین سے دھواں اس طرح اٹھ رہا تھا جیسے بھٹی کا دھواں ہوتا ہے (پیدائش باب 19۔ آیت 28)۔