زنا کی سزا جلد اور رجم کے بارے میں قرآن کا حکم ۔ امین احسن اصلاحی ؒ

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ  ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ (سورہ النور : 2 ) 

ترجمہ : 

زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور خدا کے قانون کی تنقید کے معاملے میں ان کے ساتھ کوئی نرمی تمہیں دامن گیر نہ ہونے پائے اگر تم اللہ اور روز آخر پم سچا ایمان رکھتے ہو اور چاہئے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود رہے ۔
--------------------
اس کی تفسیر میں امین احسن اصلاحی ؒ لکھتے ہیں : 

معاشرے کے انتشار و فساد میں سب سے زیادہ دخل زنا کو ہے اس لئے کہ معاشرہ کے استحکام کا انحصار رحمی رشتہ کی پاکیزگی اور اس کے ہر قسم کے اختلال و فساد سے محفوظ ہونے پر ہے اور زنا اس رشتہ کی پاکیزگی کو ختم کر کے معاشرے کو  انتشار کی راہ پر ڈال دیتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ایک پاکیزہ معاشرہ کے بجائے ڈھوروں ڈنگروں کا ایک۔  گلہ بن کے رہ جاتا ہے۔ یہ اختلال و انتشار چونکہ صالح تمدن کی بنیاد کو اکھاڑ دینے والا ہے اس وجہ سے تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو ایک مستوجب سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے بھی بالکل پہلے ہی مرحلہ سے اس انتشار کو روکنے کے لئے احکام دیئے۔ چنانچہ نساء کی آیات 16-15 میں اس سلسلہ کے ابتدائی احکام دیئے گئے جب کہ حالات حدود و تعزیرات کے نفاذ کے لئے ابھی سازگار نہیں ہوئے تھے اور ساتھ ہی یہ اشارہ فرما دیا گیا کہ اس بات میں قطعی اور آخری احکام بعد میں نازل ہوں گے۔ چنانچہ اس آیت سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔ زانیہ اور زانی دونوں کے لئے یہ حکم ہوا کہ ان کو سو سو کوڑے مارے جائیں ۔


تنفیذ حدود کے معاملہ میں مداہنت ایمان کے منافی ہے

ولا تاخذکم بھما رافۃ فی دین اللہ ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر یہاں دین، سے مراد یہی حد ہے جو زنا کی بیان ہوئی ہے۔ یعنی اس کی تنفیذ کے معاملے میں کسی نرمی یا مداہنت یا چشم پوشی کو راہ نہ دی جائے۔ نہ عورت کے ساتھ کوئی نرمی برتی جائے نہ مرد کے ساتھ، نہ امیر کے ساتھ نہ غریبت کے ساتھ، خدا کے مقرر کردہ حدود کی بے لاگ اور بے رو رعایت تنفیذ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کا لازمی تقاضا ہے۔ جو لوگ اس معاملے میں مداہنت اور نرمی برتیں ان کا اللہ اور آخرت پر ایمان معتبر نہیں ہے۔ یہاں یہ چیزبھی قابل توجہ ہے کہ سزا کے بیان میں عورت کا ذکر مرد کے ذکر پر مقدم ہے اس کی وجہ جہاں یہ ہے کہ زنا عورت کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہوسکتا وہاں یہ بھی ہے کہ صنف ضعیف ہونے کے سبب سے اس کے معاملہ میں جذبہ ہمدردی کے ابھرنے کا زیادہ امکان ہے۔ اس وجہ سے قرآن نے یہاں اس کے ذکر کو مقدم کردیا تاکہ اسلوب بیان ہی سے یہ بات واضح ہوجائے کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہے، عورت ہو یا مرد

حدود کے معاملہ میں یہود کی مداہنت

حدود کے معاملہ میں اس شدت کے ساتھ تاکید و تنبیہ کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ یہود نے اکثر حدود عملاً بالکل ساقط کر دیئے تھے۔ زنا کی سزا ان کی شریعت میں رجم تھی لیکن عملاً صورت یہ تھی کہ اگر کوئی غریب اس جرم میں ماخوذ ہوتا تب تو اس پر یہ سزا نافذ کی جاتی لیکن کوئی امیر اس کا ارتکاب کرتا تو اس سے تعرض نہ کرتے اور اب موجودہ زمانے میں تو یہ مستقل فلسفہ بن گیا ہے کہ جو لوگ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں وہ کسی ذہنی بیماری کے سبب سے کرتے ہیں اس وجہ سے وہ مستحق تربیت و اصلاح اور ہمدردی کے ہیں نہ کہ کسی سخت سزا کے اس فلسفہ کی یہ برکت ہے کہ خدا کی زمین گنڈوں اور بدمعاشوں سے بھر گئی ہے اور کسی شریف آدمی کی بھی جان اور عزت ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ آپ انپے ہی ملک کو لیجیے۔ اگر آپ اپنے قانون دامن کے ذمہ داروں کے سامنے زنا کی اس سزا کا ذکر کیجیے جو اوپر مذکور ہوئی ہے تو ایمان کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اس کو وحشیانہ کہیں گے اور اگر مصلحت کی وجہ سے وحشیانہ نہ کہیں تو بہرحال ان کو وحشیانہ سمجھتے ہیں لیکن ملک کی صورت حال یہ ہے کہ بلا مبالغہ سال میں ہزاروں جانیں اور آبروئیں نہایت بے دردی دبے رحمی کے ساتھ، بدمعاشوں کے ہاتھوں اس طرح برباد ہوتی ہیں کہ ان کی خبریں ہر صبح کو اخباروں میں پڑھ پڑھ کر کلیجہ شق ہوتا ہے ۔

چوروں اور زانیوں کے لئے تو ان حضرات کے جذبہ رافت و ہمدردی کا یہ حال ہے کہ یہ ان کے لئے گویا خدائے رحمان و رحیم سے بھی زیادہ مہربان بن گئے ہیں کہ ان کا ہاتھ کاٹنے اور ان کو کوڑے مارنے کیتصور سے ان کا دل کا نپتا ہے لیکن ان چوروں اور بدمعاشوں کے ہاتھوں خاندانوں کے خاندان جو آئے دن قتل و نہب اور بے عزتی و ناموسی کا شکار ہو رہے ہیں ان کی مظلومیت پر ن کے دل ذرا نہیں پسیجتے !

اسلامی حدود تعزیرات کی برت

اگر یہ حضرات اپنے دعوے ایمان کی لاج رکھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو کم از کم دنیا کے تجربات ہی سے کچھ سبق حاصل کریں۔ اسی روئے زمین پر نجد و حجاز اور یمن کی حکومتیں بھی ہیں۔ ان میں اسلامی حدود و تعیزرات نافذ ہیں۔ اس اعداد و شمار کے زمانے میں آسانی سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں چوری، رہزنی، ڈاکہ اور زنا کے کتنے واقعات ہوئے اور کتنے چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے اور کتنے زانیوں کو کوڑے لگائے گئے۔ میرے پاس اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن عینی شاہدوں کے بیانات بھی میرے علم میں ہیں اور میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے کہ وہاں نہ جرائم کا وجود ہے نہ مجرموں کا یہ صرف اسلامی حدود و تعزیرات کا دبدبہ ہے کہ وہاں نہ چوری اور زنا کے واقعات ہوتے ہیں نہ چوروں کے ہاتھ کاٹنے اور زانیوں کو کوڑے مارنے کی نوبت آتی ہے۔ اگر کبھی کبھار کوئی اکا دکا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے تو مجرم کو اس کی جو سزا ملتی ہے عوام کی سبق آموزی کے لئے وہی کافی ہوتی ہے۔ اس کے مقابل میں جب ہم اپنے ملک کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو سیدنا مسیح کے لافاظ میں یہ کہنا پڑتا ہے کہ تم نے میرے باپ کے گھر کو چوروں اور ڈاکوئوں کا بھٹ بنا کے رکھ دیا ہے ۔‘‘

اسلامی حدود و تعزیرات کا ایک اہم مقصد

ولیشھد عذابھما طآئفۃ من المومنین، اسلامی حدود و تعزیرات کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ ان کے سے دوسروں کو عبرت و موعظت حاصل ہ۔ چنانچہ قآن میں ان کو نکال، سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی معنی عبت انگیز سزا کے ہیں۔ اس مصلحت کا تقاضا یہ ہوا کہ یہ سزایں مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں دی جائیں۔ اگر یہ جملوں کی کوٹھڑیوں میں چپ کہ سزائیں پبلک میں، مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں دی جائیں۔ اگر یہ جیلوں کی کوٹھڑیوں میں چپ چپاتے دے دی جئیں تو ان کی یہ مصلحت فوت ہوجاتی ہے۔ طائفۃ کے معنی گوہ اور جماعت کے ہیں، بعض مفسرین کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق ایک شخص پر بھی ہوتا ہے۔ معلوم نہیں ان حضرات کی اس نادر تحقیق کا ماخذ کیا ہے !

آیت ٢ کے عموم پر فقہاء کی بعض قیدیں اور ان کے باب میں ہمار نقطہ نظر

اس آیت کے ظاہر الفاظ کا جاں تک تعلق ہے وہ تو ہر قسم کے زانی اور ہر قسم کی زانیہ کے لئے عام ہیں لیکن ہمارے فقہاء نے اس عموم پر بعض قیدیں عائد کی ہیں جن میں سے بعض صحیح ہیں، بعض ہمارے نزدیک غلط ہیں اور بعض محتاج تفصیل ہیں۔ اگرچہ ہمارے لئے فقہی مباحث میں زیادہ گھسنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن بعض ضروری باتوں کی طرف اشارہ ناگزیر ہے ۔

٭ ایک یہ کہ اس حد کے اجراء و نفاذ کے لیء دار الاسلام یا بالفظ دیگر اسلامی حکومتی کا ہونا ضروری ہے۔ ہمایر نزدیک یہ شرط لازمی ہے۔ یہ احکام نازل ہی اس وقت ہوئے ہیں جب اسلامی حکومت مدینہ میں استوار ہوگئی ہے ۔

٭دوسری یہ کہ یہ حد صرف عاقل و بالغ پر نافذ ہوگی۔ نابالغ اور فاتر العقل اس سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ بات بھی بالکل بدیہی ہے۔ نابالغ اور مجنون ہر قانون میں مرفوع القلم سمجھے گئے ہیں ۔

٭تیسری یہ کہ غلام اور لونڈی پر صرف نصف حد جاری ہوگی۔ یہ بات بھی صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اس کی دلیل سورۃ نساء آیت 25 میں موجود ہے۔ اصل یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں غلاموں کا عقلی و اخلاقی معیار اتنا پست ہوچکا تھا کہ ان کو ایک سبک آزادوں کی صف میں نہیں لایا جا سکتا تھا اس وجہ سے ان کے معاملات میں اسلام نے ایک تدریج ملحوظ رکھی۔ یہاں تک کہ جب ان کی ذہنی و اخلاقی حالت بلند ہوگئی تو ان کے لئے مکاتبت کا وہ قانون نازل ہوگیا جو اسی سورۃ میں آگے زیر بحث آئے گا۔ اس قانون کے بعد ہر ذی صلاحیت غلام کے لئے آزادی کی نہایت کشادہ راہ کھل گئی اور وہ حقوق اور ذمہ داریوں، دونوں میں دوسروں کیساتھ برابر کے شریک ہوگئے۔ آگے ہم اس مسئلہ کے بعض اہم پہلو واضح کریں گے ۔

٭چوتھی قید فقہا کے ایک گروہ نے یہ عائد کی ہے کہ یہ حد صرف مسلمان پر نافذ ہوگی، غیر مسلم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلم رعایا اپنے پرسنل لاء کے حد تک تو بے شک حکومت کے عام قوانین سے مستثنیٰ ہوگی لیکن حدود و تعزیرات سے، جن کا تعلق ملک کے امن و عدل سے ہے، اس کو مستثنیٰ رکھنا کس طرح ممکن ہے ؟ اگر ایک مسلمان کو بجرم زنا آپ کوڑے لگائیں یا رجم کریں اور سای جرم میں ایک غیر مسلم پر کوئی گرفت نہ کریں یا کوئی دوسری معمولی سزا دیں تو زنا کا سدباب نا ممکن ہوگا۔ یہی حال چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کا ہے۔ اگر ایک اسلامی حکومت چوری کے جرم میں مسلمانوں کے تو ہاتھ کاٹے لیکن اپنی غیر مسلم رعایا کو اس حد سے مستثنیٰ رکھے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ مسلمانوں کو چوری سے روک کر اپنے ملک میں غیر مسلموں کو چوری کا لائسنس دے رہی ہے۔ یہ بات بالبداہت خلاف عقل ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے عمل سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ آنحضرت نے بھی غیر مسلموں پر حدود جاری فرمائے اور خلفائے راشدین نے بھی۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق کی وضاحت ہم نے اپنی کتاب اسلامی ریاست میں کی ہے تفصیل کے طالب اس کو پڑھیں ۔

پانچویں قید تقریباً تمام فقہاء نے اس پر یہ عائد کی ہے کہ اس حد کا تعلق صرف اس زانی سے ہے جس کی شادی نہ ہوئی ہو یا شادی تو ہوئی ہو لیکن ابھی اس نے مباشرت نہ کی ہو۔ رہے وہ جن کی شادی بھی ہوچکی ہے اور جو مباشرت بھی کرچکے ہیں تو ان کے لئے سزا رجم کی ہے۔ اس رجم کا ثبوت وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے عمل سے لاتے ہیں اور اس طرح وہ اس آیت میں بیان کردہ حد کو کنوارے اور کنواری کے لئے خاص کر دیتے ہیں یا یوں کہیے کہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کے حد تک اس کو سنت کے ذریعہ سے منسوخ مانتے ہیں ۔

اس آیت پر فقہاء کی یہ قید بڑی اہم ہے۔ اس کو تخصیص کہیے یا فسخ مجرد اخبار احاد کی بنا پر قرآن کے کسی حکم عام کو اس طرح مقید یا منسوخ کر دینا بہرحال ایک ایسی بات ہے جس پر دل مطمئن نہیں ہوتا چنانچہ خوارج اس نسخ یا تخصیص کو نہیں مانتے، وہ رجم کا انکار کرتے ہیں اور اس حد کو، جو آیت میں مذکور ہوئی ہے، ہر قسم کے زانیوں کے لئے عام مانتے ہیں ۔

ان قدیم خوارج سے زیادہ اہم مسئلہ ہمارے جدید خوارج کا ہے۔ قدیم خوارج اس اعتبار سے غنیمت تھے کہ وہ صرف رجم کے منکر تھے۔ جلد کے منکر نہیں تھے۔ لیکن ہمارے جدید خوارج تو جلد کو بھی ماننے کے لئے تایر نہیں ہیں بھلا وہ رجم کی بات کب سننے والے ہیں ! اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ رجم کا ماخذ قرآن میں کیا ہے اور اس آیت کے حکم اور رحم کے حکم میں تطبیق کی کیا شکل ہے ؟ میں پہلے ان روایات پر ایک نظر ڈالوں گا جن سے فقہا نے رجم پر استدلال کیا ہے۔ اس کے بعد قرآن میں رجم کی سزا کا جو ماخذ ہے اس کی نشان دہی کروں گا اور پھر یہ واضح کروں گا کہ رجم کی سزا کس طرح کے مجرموں کے لئے ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن کو یہ سزا دی وہ کس قماش کے لوگ تھے۔ اگرچہ بحث طویل ہو رہی ہے لیکن ان کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں ہے اس وجہ سے اختصار کو محلوظ رکھتے ہوئے چند باتیں عرض کرتا ہوں ۔

رجم کی سزا کے حق میں فقہاء کے استدلال کا ماخذ

فقہاء نے جس روایت کی بنا پر شادی شدہ کے حد تک اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے وہ عبادہ بن صامت سے بدیں الفاظ مروی ہے ۔
عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خذاواعنی قد جعل اللہ لھن سبیلا البکو بالبکو جلد مائۃ و تغریب عام و الثیب بالشیب الجلد و الرجم
عبادہ بن صامت راوی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اس وقت جو کچھ بتا رہا ہوں اس کو میری طرف سے محفوظ کرو۔ زانیہ عورتوں کے باب میں اللہ نے جو حکم نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ نازل فرما دیا۔ پس اگر مرتکب زنا دونوں کنوارے ہوں تو ان کے لئے سو کروڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے اور اگر دونوں شادی شدہ ہوں تو کوڑے اور رجم کی سزا ہے ۔

اس روایت پر تنقید

اس روایت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس میں کنوارے زانی کے لئے ایک ہی ساتھ کوڑے مارنے کی سزا کا حکم بھی ہے اور ایک سال کی جلا وطنی کا بھی۔ اسی طرح شادی شدہ کے لئے ایک ہی ساتھ کوڑے کی سزا بھی مذکور ہوئی ہے اور رجم کی سزا بھی۔ 

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں سزائیں ساتھ ہی دی جائیں گی ؟ اس کا جواب ہمارے فقہاء حنفی اور شافعی دونوں یہ دیتے ہیں کہ جلد رجم دونوں سزائیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں اور حدیث میں کوڑے مارنے کی جو سزا مذکور ہے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے تعامل سے منسوخ ہوگئی، شادی شدہ کے لئے صرف رجم کی سزا ہے ۔

غور کیجیے، عبادہ بن صامت کی یہی روایت ہے جس کے بل پر سورۃ نور کی آیت کو منسوخ ٹھہرایا گیا حالانکہ قرآن کو قرآن کے سوا کوئی دوسری چیز منسوخ نہیں کرسکتی۔ پھر جب حدیث سے بھی بات نہیں بنی تو اس کو دوسری روایات سے منسوخ کردیا گیا۔ ہمارے فقہاء کی اسی طرح کی باتیں ہیں جن سے لوگوں کے دلوں میں دین کے متعلق بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ میں آگے چل کر دکھائوں گا کہ اگر روایت پر قرآن کی روشنی میں غور کیا جائے تو قرآن کے ساتھ اس کی مطابقت ہوجاتی ہے نہ کسی چیز کو ناسخ ماننے کی ضرورت پیش آتی ہے، نہ کسی چیز کو منسوخ۔

فقہاء کا ایک دوسرا ماخذ

عن ابن عباس قال قال عمر قد خشیت ان یطول بالناس زمان حتی یقول قائل لافجد الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلھا اللہ و قدقرانا الشیخ والشیغۃ اذا زنیا فارجموھا البتۃ۔ 
ابن عباس راوی ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر کچھ زمانہ گزر جائے گا تو وہ وقت آجائے گا کہ کہنے والے کہنے لگیں گے کہ رجم کی سزا کا ذکر اللہ کی کتاب میں تو ہم کہیں نہیں پاتے اور اس طرح وہ خدا کے ایک فریضہ کو جو اس نے نازل فرمایا ہے، ترک کر کے گمراہ ہوجائیں گے حالانکہ ہم نے خود یہ آیت تلاوت کی ہے الشیخ والشیغۃ افازنیا فادجموھا البتۃ (بوڑھی بوڑھا جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو لازماً سنگسار کر دو)

اس روایت پر تنقید

میں نے جیسا کہ عضر کیا اس روایت کو نہایت کراہت کے ساتھ، محض اس لئے نقل کیا ہے کہ اصل حقیقت تک پہنچنے کے لئے راہ فی ان الجھنوں کو صاف کرنا ضروری ہے جو زنا دقہ کی پھیلائی ہوئی ہیں اور ہمارے مفسرین اور فقہاء کی سادگی کی وجہ سے تفسیر اور فقہ کی کتابوں میں بھی ان کو جگہ مل گئی ہے ۔

اس روایت پر غور کیے کر تو ہر پہلو سے ہر کسی منافق کی گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور مقصود اس کے گھڑنے سے قرآن کی محفوظیت کو مشتبہ ٹھہرانا اور سادہ لوحوں کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کرنا ہے کہ قرآن کی بعض آیات قرآن سے نکال دی گی ہیں ۔

سب سے پہلے اس کی زبان پر غور کیجیے۔ کیا کوئی سلیم المذاق آدمی اس کو قرآن کی ایک آیت قرار دے سکتا ہے ؟ اس کو تو قول رسول قرار دینا بھی کسی خوش ذوق آدمی کے لئے ناممکن ہے چہ جائیکہ قرآن حکیم کی ایک آیت آخر قرآن کے مخمل میں اس ٹاٹ کا پیوند آپ کہاں لگائیں گے ! قرآن کی لا ہوتی زبان اور افصح العرب والعجم کے کلام کے ساتھ اس عبادت کا کیا جوڑ ہے !

دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ قرآن کی ایک آیت تھی تو اس کو نکال کس نے دیا جب کہ اس کا حکم یعنی سزائے رجم باقی ہے ؟ آیت کو نکال دینے اور حکم کو باقی رکھنے کا آخر کیا تک ہے ؟ اگر یہ قرآن کی ایک ایٓت تھی اور نکال دی گئی تو یہ اس بات کا ثبوت ہوا کہ رجم کا حکم پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ پھر اس سے رجم کے حق میں استدلال کے کیا معنی !

تیسری بات یہ ہے کہ اس کو اگر صحیح باور بھی کر لیجیے جب بھی اس سے ہمارے فقہاء کا مقد پورا نہیں ہوتا ان کو ثبوت چاہئے شادی شدہ زانی کے رجم کا اور اس میں حکم بیان ہوا ہے بوڑھی زانیہ اور بوڑھے زانی کا ہر شادی شدہ کا بوڑھا ہونا تو ضروری نہیں ہے ! پھر دعویٰ اور دلیل میں مطابقت کہاں رہی !

بہرحال یہ روایت بالکل بیہودہ روایت ہے اور ستم یہ ہے کہ اس کو منسوب حضرت عمر کی طرف کیا گیا ہے حالانکہ ان کے عہد مبارک میں اگر کوئی یہ روایت کرنے کی جرأت کرتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان کے درے سے نہ بچ سکتا ہمارے فقہاء میں یہ بڑی کمزوری ہے کہ جب وہ اپنے حریف سے مناظرہ پر آتے ہیں تو جو اینٹ پتھر انہیں ہاتھ آجائے وہ اس کے سر پر دے مارتے ہیں۔ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ اس کی زدخود دین پر کہاں تک پڑتی ہے ۔

رجم کی سزا کا ماخذ اور اس کا محل

رجم کے ثبوت میں جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں وہ یہی ہیں اور ان کا جو حال ہے وہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ رجم کی سزا کا ماخذ کیا ہے ؟ کس قسم کے مجرموں کے لئے یہ سزا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزا دی ؟ 

ان سوالات پر غور کرنا اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ بات بالبداہت معلوم ہے کہ رجم کی سزا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بعض مجرموں کی اور خلفائے راشدین نے بھی دی۔ جو لوگ اس امر واقعی کا انکار کرتے ہیں وہ ہر چیز کا انکار کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے مجھے ان کی زیادہ فکر نہیں ہے البتہ چونکہ میں خود رجم کی سزا کا قائل ہوں اس وجہ سے میں قرآن سے اس سزا کا ماخذ اور اس کا موقع و محل واضح کرنا اپنی ایک ذمہ داری سمجھتا ہوں ۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے پہلے ایک تمہید اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے ۔

مجرموں کی دو قسمیں

مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جن سے چوری یا قتل یا زنا یا قذف کا جرم صادر ہوجاتا ہے لیکن ان کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ وہ معاشرہ کے لئے آفت اور وبال (Nuisance) بن جائیں یا حکومت کے لئے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور جتھہ بند کر بھی معاشرے اور حکومت دونوں کے لئے آفت اور خطرہ بن جاتے ہیں۔ 

پہلی قسم کے مجردوں کے لئے قرآن میں معین حدود اور قصاص کے احکام ہیں جو اسلامی حکومت انہی شرائط کے مطابق نافذ کرتی ہے جو شرائط قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔

 دوسری قسم کے مجرمین کی سرکوبی کے لئے احکام سورۃ مائدہ کی آیات 34-33 میں دیئے گئے ہیں اور ان کی تفصیل ہم ان کے محل میں کرچکے ہیں۔ وہاں ہم نے" انما جزآء الذین یجاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فساداً ان یقتلوا "کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس کا ضروری حصہ ہم یہاں بھی نقل کئے دیتے ہیں تاکہ آگے کی بحث کے لئے راہ صاف ہوجائے ہمارے الفاظ یہ ہیں ۔

جرم کی نوعیت کے مطابق سزا

’’ اللہ و رسول سے محاربہ یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ یا جتھہ جرأت و جسارت، ڈھٹائی اور بے باکی کے ساتھ اس نظام حق و عدل کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے جو اللہ اور رسول نے قائم فرمایا ہے۔ اس طرح کی کوشش اگر بیرونی دشمنوں کیطرف سے ہو تو اس کے مقابلے کے لئے جنگ و جہاد کے احکام تفصیل کے ساتھ الگ بیان ہوئے ہیں۔

 یہاں بیرونی دشمنوں کے بجائے اسلامی حکومت کے اند اندورنی دشمنوں کی سکوبی کے لئے تعزیرات کا ضابطہ بیان ہو رہا ہے جو اسلامی حکومت کی رعایات ہوتے ہوئے، عام اس سے کہ وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم، اس کے قانون اور نظم کو چیلنج کریں۔ قانون کی خلاف ورزی کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی جرم صادر ہوجائے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ شریعت کے عام ضابطہ حدود و تعزیرات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوشش کرے، اپنے شر و فساد سے علاقے کے امن ونظم کو درہم برہم کر دے، لوگ اس کے ہاتھوں ہر وقت اپنی جان، مال، عزت، آبرو کی طرف سے خطرے میں مبتلا ہیں، قتل، ڈکیتی رہزنی، آتش زنی، اغوا، زنا تخریب، تخریب اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لئے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے عام ضابطہ حدود و تعزیرات کے بجائے اسلامی حکومت مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کے مجاز ہے ۔‘‘

اس کے بعد ہم نے رجم کا ماخذ ان الفاظ میں واضح کیا ہے ۔ان یقتلوا یہ کہ فساد فی الارض کے یہ مجرمین قتل کر دیئے جائیں۔ یہاں لفظ قتل کے بجائے تقتیل باب تفعیل سے استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل معنی کی شدت اور کثرت پر دلیل ہوتا ہے اس وجہ سے تقتیل، شرتقتیل، کے معنی پر دلیل ہوگا۔ اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ ان کو عبرت انگزک اور سبق آموز طریقہ پر قتل کیا جائے جس سے دوسروں کو سبق حاصل ہو۔ صرف وہ طریقہ اس سے مستثنیٰ ہوگا جو شریعت میں ممنوع ہے مثلاً آگ میں جلانا۔ اس کے ماسوا دوسرے طریقے جو گنڈوں اور بدمعاشوں کو عبرت دلانے ان کو دہشت زدہ کرنے اور لوگوں کے اندر قانون اور نظم کا احترام پیدا کرنے کے لئے ضروری سمجھے جائیں، حکومت ان سب کو اختیار کرسکتی ہے۔ رجم یعنی سنگسار کرنا بھی ہمارے نزدیک تقتیل کے تحت داخل ہے۔ اس وجہ سے وہ گنڈے اور بدمعاش جو شریفوں کے عزت و ناموس کے لئے خطرہ بن جائیں، جو زنا اور اغوا کو پیشہ بنا لیں، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت و آبرو پر ڈاکہ ڈالیں اور کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوں ان کے لئے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے ۔‘‘

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں رجم کی سزا کا کوئی ذکر نہیں ہے، ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ اس سزا کا ذکر سورۃ مائدہ کی آیت ٣٣ سے ماخوذ ہے یہی وجہ ہے کہ عہد رسالت میں رجم کے جو واقعات پیش آئے ان کی اس مخصوص نوعیت کے پیش نظر امام بخاری نے اپنی الجامع الصحیح میں انہیں آیت محاربہ کے تحت بیان کیا ہے اور کتاب المحاربین ہی میں ایک ایس روایت بھی لائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف میں بعض لوگ رجم کی سزا کا ماخذ سورۃ مائدہ کی اس آیت کو سمجھتے تھے ۔

اب آیئے ایک اجمالی نظر ان بعض واقعات پر بھی ڈال لیجیے جو عہد رسالت میں اس سزا کے نفاذ کے پیش آئے ہیں ۔

ماعز کے جرم کی نوعیت

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں رجم کا سب سے زیادہ مشہور واقعہ ماعز کے رجم کا ہے۔ اس شخص کے بارے میں کتابوں میں جو روایات ملتی ہیں ان میں نہایت عجیب قسم کا تناقض ہے۔ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑا بھلا مانس تھا اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت بدخصلت گنڈا تھا۔ میری رہنمائی کے لئے یہ بات کافی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رجم کی سزا دلوائی اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اس وجہ سے میں ان روایت کو ترجیح دیتا ہوں جن سے اس کا وہ کردار سامنے آتا ہے جس کی بنا پر یہ مستحق رجم ٹھہرا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کسی غزوہ کے لئے نکلتے تو یہ چپکے سے دبک کے بیٹھ رہتا اور مردوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر شریف بہوئوں بیٹیوں کا تعاقب کرتا۔ 

بعض روایات سے اس تعاقب کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے کہ اس طرح تعاقب کرتا جس طرح بکرا بکریوں کا کرتا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی شرارتوں کی رپورٹ ملتی رہی لیکن چونکہ کسی صریح قانون کی گرفت میں یہ نہیں آیا تھا اس وجہ سے آپ نے کوئی اقدام نہیں کیا بالاخر یہ قانون کی گرفت میں آگیا۔ آپ نے اس کو بلوا کر نہایت تیکھے انداز میں پوچھ گچھ کی وہ تاڑ گیا کہ اب بات چھپانے سے نہیں چھپ سکتی اس وجہ سے اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا۔ جب یہ اقرار کر لای تو آپ نے اس کے رجم کا حکم دے دیا اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔

 اس کے رجم کے بعد لوگوں کا عام تاثر، جو روایات سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ تھا کہ بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ اس شخص کی شامت نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ یہ اپین کیفرکردار کو پہنچ گیا۔ اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کے بعد اس کے بارے میں لوگوں کو کف لسان کی ہدایت فرمائی۔ لیکن عام تاثر لوگوں کا یہی تھا ۔

یہاں ہم چند روایات ان کے اصل الفاظ میں نقل کر رہے ہیں، تاکہ حسب ذیل امور بالکل واضح ہو کر سامنے آجائیں : 
ایک یہ کہ ماغر نے بھلے مانسوں کی طرح خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اقرار نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ اپنے قبیلہ والوں کے اصرار پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس توقع پر آیا کہ خود حاضر ہوجانے سے غالباً وہ کسی بڑی سزا سے بچ جائے گا، حضور کو اس کے جرم کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی اور اس نے آپ کی پوچھ گچھ کے نتجیے میں اقرار جرم کیا ۔

دوسرے یہ کہ اس کا کردار ایک نہایت بدخصلت گنڈے کا کردار تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کسی غزوہ کے لئے نکلتے تو مردوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر یہ جنس زدہ بدمعاشوں کی طرح عورتوں کا تعاقب کرتا ہے ۔
تیسرے یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی مغفرت کے لئے دعا کی نہ اس کا جنازہ پڑھا جو اس بات کی شہادت ہے کہ اس کو کٹر منافق قرار دیا گیا ۔ روایات یہ ہیں :

(ا) قال یا ابن اخی انا اعلم الناس بھذا الحدیث، کنت فیمن رجم الرجل، انا لما خرجنا بہ فرجمناہ فوجد مس الحجارۃ صرخ بنا : یا قوم، ردونی الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فان قومی قتلونی و غزونی من نفسی وخبرونی ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیر قاتلی، فلم نزع عنہ حتی تتلاہ فلما رجعنا الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واخبرناہ قال نھلا ترکتمرہ و جتمونی بہ، لیستشبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منہ فاما لترک حد فلا قال فعرفت وجہ الحدیث۔ 
(الودائود، کتاب الحدود، باب رجم ماعزبن مالک)

…حضرت جابر (رض) نے فرمایا :’ بھتیجے ! میں سب لوگوں سے زیادہ اس بات سے واقف ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس شخص کو رجم کیا۔ واقعہ یوں ہے کہ ہم نے اسے باہر لا کر سنگ سار کرنا شروع کیا۔ پتھر پڑے تو وہ چیخا لوگو ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس لے چلو میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھویک میں رکھا وہ مجھے یہی کہتے رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے قتل نہیں کرائیں گے۔ لیکن ہم نے اسے قتل کئے بغیر نہیں چھوڑا۔ پس جب ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لوٹے اور آپ کو اس جزع فزع کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا :’ تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟ تم اسے میرے پاس کیوں نہیں لائے ؟ یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ حقیقت معلوم کر سکیں۔ آپ نے یہ بات حد ساقط کرنے کے لئے نہیں فرمائی تھی، راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد یہ حدیث میری سمجھ میں آگئی ۔

(ب) … فرمیناہ بجلامید الحرۃ (یعنی الحجارۃ) حتی سکت، قال، ثم قام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطیباً من العشتی، فقال، اوکلما انلطلقنا غزاۃ فی سبیل اللہ، تخلف رجل فی عیانا لہ نبیب کنبیب التیس علی ان زاوانی برجل فعل ذلک الزنکلت بہ قال : فما استغفرلہ ولاسبہ (صحبح مسلم، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسہ بالزنائ)
’ پس ہم نے اسے وادی حرہ کے پتھروں سے مارا، یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اسی دن عصر کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا : کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ جب کبھی ہم جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے نکلتے تھے تو ایک ایسا شخص پیچھے ہمارے اہل و عیال میں رہ جاتا تھا جو شہوت کے جوش میں بکرے کی طرح میاتا تھا۔ سنو مجھ پر لازم ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والا کوئی شخص میرے پاس لایا جائے تو میں اسے عبرت ناک سزا دوں، زراوی بیان کرتے ہیں کہ آپ نے نہ اس کے لئے مغفرت کی دعا کی اور نہ اسے برا بھلا کہا ۔

حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اعزبن مالک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو اس نے اقرار کیا کہ اس نے زنا کیا ہے۔ آپ نے اعراض کیا تو اس نے اپنا یہ اقرار کئی مرتبہ دہرایا اس پر بھی آپ متامل رہے، پھر آپ نے اس کی قوم کے لوگوں سے پوچھا کیا یہ پاگل ہے ؟ انہوں نے کہا ! نہیں یہ بھلا چنگا ہے، آپ نے اس سے پوچھا کیا تم نے واقعی اس لڑکی سے بدکاری کی ہے، اس نے کہا ’’ ہاں ! بس آپ نے حکم دیا کہ اسے رجم کردیا جائے چنانچہ اسے لے جایا گیا اور رجم کردیا گیا اور اس کا جنازہ نہیں پڑھا گیا ۔

ج) عن ابن عباس ان ماعز بن مالک اتی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال انہ زنی فاعرض عنہ فاعاد علبہ مراراً فسال مومہ : امجنون ھوء قالوا، لیس بہ باس قال انعلت بھا ؟ قال لعم فامرلہ ان یرحم فانطلق بہ فرجم ولم لصل علیہ (ابو دائود، کتاب الحدود باب رجم ما عز بن مالک

(د)…فامربہ فرجم فکان الناس فیہ فریقین قائل یقول لم ھلک لقد احاطت بہ خطیئتہ (صحیح مسلم کتاب الحدود باب من اعترف علی نفسہ بالزنائ) 
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز کے بارے میں حکم دیا اور اسے رجم کردیا گیا تو لوگ اس کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک کی رائے تھی کہ اس کی شامت نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ یہ ہلاک ہوگیا ۔

(ھ) فامربہ فرجم فسمع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رجلین من اصحابہ …پس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز کے بارے میں حکم دیا تو اسے رجم کردیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے یہ کہتے ہوئے سنا : اس بدبخت کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانکے رکھا تھا۔ لیکن اس کے نفس نے اس کو نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ کتے کی طرح سنگ سار کردیا گیا ۔
الی ھذا الذی ستر اللہ علیہ فلم قدعہ نفسہ حتی رجم رجم الکلب (ابودائود کتاب الحدود، باب رجم ماعز بن مالک)

غامدیہ کا واقعہ رجم

ماعزبن مالک اسلمی کے بعد دوسرا بڑا واقعہ غامدیہ کا ہے جو قبیلہ غامد (قبیلہ جہنیہ کی ایک شاخ) کی ایک عورت تھی۔ اس کے بارے میں روایات میں جو تفصیلات ملتی ہیں، ان سے نہ اس کے کردار کے بارے میں کوئی معلومات حاصل ہوتی ہیں نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ تھی۔ تھوڑی بہت تفصیلات جو بیان ہوئی ہیں۔ ان میں ماعز کے واقعہ ہی کی طرح بہت سے امور باہم متناقض ہیں۔ 

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شروع میں اسے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن یہ اپنے اقرار پر مصر رہی تو آپ نے فرمایا : اچھا، نہیں مانتی تو جائو۔ وضع حمل کے بعد آئیو، حمل سے فارغ ہو کر وہ بچے کے ساتھ آئی تو آپ نیخ فرمایا اچھا نہیں مانتی تو جائو وضع حمل کے بعد آئیو، حمل سے فارغ ہو کر وہ بچے کے ساتھ آئی تو آپ نے فرمایا : جا اور اس کو دودھ پلا، دودھ چھٹانے کے بعد آئیوپھر وہ دودھ چھٹانے کے بعد آی تو اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے بچے کو کھلا کر حضور کو دکھایا۔ تب آپ نے اس کے رجم کا حکم صادر فرمایا اس کے برعکس بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اقرار کیا تو آپ نے اس وضع حمل تک ایک انصاری کی نگرانی میں دے دیا۔ وضح حمل کے بعد اس نے اطلاع دی تو آپ نے فرمایا اسے اس حالت میں رجم نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے چھوٹے بچے کو کوئی دودھ پلانے والا بھی نہیں۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا : اس کی رضاعت کی ذمہ داری مجھ پر ہے، اس کے بعد آپ نے بغیر کسی توقف کے اس کے رجم کا حکم دے دیا ۔

روایات کے مطالعہ سے بیان کا یہ تناقض ہی سامنے نہیں آتا۔ یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ کوئی آزاد قسم کی عورت تھی جس کا نہ کوئی شوہر تھا، نہ سرپرست جو اس کے کسی معاملے کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوتا۔ وضح حمل تک کی مدت اس نے ایک انصاری کے ہاں گزاری اس کے اقرار سے لے کر سزا کے نفاذ تک کسی موقع پر بھی اس کے خاندان یا قبیلہ کا کوئی آدمی مقدمہ کی کارروائی کے سلسلہ میں سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ غامدیہ کے کردار کے بارے میں روایات محفوظ نہیں ہو سکیں، لیکن ہمارے نزدیک اس کا معاملہ بھی ماعز کی طرح کا تھا جس کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اسے رجم کرایا ۔

اس عہد کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بہت سی ڈیرے والیاں ہوتی تھیں جو پیشہ کراتی تھیں اور ان کی سرپرستی زیادہ تر یہودی کرتے تھے جو ان کی آمدنی سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اسلامی حکومت قائم ہوجانے کے بعد ان لوگوں کا بازار سرد پڑگیا۔ لنک اس قسم کے جرائم پیشہ آسانی سے باز نہیں آتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی قماش کے کچھ مرد اور بعض عورتیں زیر زمین یہ پیش کرتے رہے اور تنبیہ کے باوجود باز نہیں م آئے۔ بالآخر جب وہ قانون کی گرفت میں آئے تو سورۃ مائدہ کی اسی آیت محاربہ کے تحت جس کا حوالہ اوپر گزرا، آپ نے ان کو رجم کرایا ۔

زنا بالجبر کے مجرم کو رجم کی سزا

زنا بالجبر کا جرم بھی چونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے حرابہ اور فساد فی الارض ہی کے قبیل سے ہے، اس وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے مرتکب کو، مجرد زنا کی سزا یعنی سو کوڑے کے بجائے سورۃ مائندہ کی آیت محاربہ کے تحت رجم ہی کی سزا دی ہے۔ اس مقدمہ میں مجرم، نماز کے لئے جاتی ہوئی ایک خاتون پر سرراہ حملہ آور ہونے کی وجہ سے چونکہ کسی رعایت کا مستحق نہیں تھا، اس لئے آپ نے اس کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کے بارے میں بھی کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔ حدیث میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے ۔

عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ، ان امرأۃ خرجت علی عھد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ترید الصلوۃ نتلقاھا رجل، فتجللھا فقضی حاجتہ منھا، فصاحت، وانطلق فمر علیھا رج، فقالت : ان ذاک فعل بی کذا وکذا و مرت عصابۃ من الھاجرین فقالت ان ذلک الرجل فعل بی کذاوکذا فانطلقوا فاخذوا الرجل الذی ظنت انہ وقع علیھا فاتواھابہ فقالت : نعم ھو ھذا فاتوابہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلما امربہ تام صاحبھا الذی وقع علیھا، فقال : یا رسول اللہ، انا صاحبھا، فقال لھا اذھبی فقد غفر اللہ لک وقال للرجل قولاً حسناً (قال ابودائود : یعنی الرجل الماخوذ) وقال للرجل الذی وقع علیھا : ارجموہ، (ابودائود، کتاب الحدود، باب فی صاحب الحد یحیئی فقیر والترمذی، ابواب الحدود)

علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک عورت نماز پڑھنے کے لئے گھر سے نکلی تو راستے میں ایک شخص نے اسے دیکھا، پس اس نے اس پر غلبہ پا لیا اور اپنے نفس کی پیاس بجھائی، اس پر وہ چیختی چلاتی تو وہ بھاگ کھڑا ہوا اسی اثناء میں ایک آدمی کا گزر اس طرف سے ہوا تو اس عورت نے اسے بتایا کہ ایک شخص نے اس طرح اسے رسوا کیا ہے۔ یہ بات ہو رہی تھی کہ مہاجرین میں سے ایک گروہ بھی اس طرف آ نکلا اس نے انہیں بھی اپنی روداد سنائی تو وہ بھاگے اور اس شخص کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت کا خیال تھا کہ اس نے اس سے زیادتی کی ہے۔ پس وہ اسے اس کے پاس لے آئے تو اس نے کہا : ہاں، یہ وہی ہے، چنانچہ وہ اسے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے تو آپ نے بلاتامل اسے سزا دینے کا حکم دے دیا یہ دیکھ کر اصل مجرم کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا ’ اے اللہ کے رسول یہ میں تھا جس نے اس عورت سے زیاد کی، اس پر آپ نے اس عورت سے کہا جا اللہ نے تجھے معاف کردیا اور اس شخص سے کلمات خیر فرمائے جو شبہ میں پکڑا گیا تھا پھر اس شخص کے بارے میں جس نے اس عورت سے بدکاری کی تھی، فرمایا : اے رجم کر دو ،

خلاصہ بحث

اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رجم کی سزا کے جو واقعات احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں وہ عام قسم کے زانیوں کے واقعات نہیں ہیں، بلکہ ان بدقماشوں کے واقعات ہیں جو اپنی آوارہ منشی، بد معاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و ناموس کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں، کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
اور اس فعل قبیح کو بطور پیشہ کے اختیار کرلیتے ہیں پھر جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ ان کی گردن تک پہنچنے ہی والے ہیں تو اس قبیل کے مجرموں کی عام نفسیات کے مطابق اعتراف و اقرار کے لئے حاضر ہوجاتے ہیں اتکہ معاشرے اور قانون دونوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ وہی یہ بات کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مجرموں کے شادی شدہ ہونے کی تحقیق بھی فرمایء تو اس کو جہ یہ ہے کہ دوسرے قوانین کی طرح اسلامی شریعت کا بھی یہ مسلمہ اصول ہے کہ حدود و تعزیرات کے نفاذ میں مجرم کے احوال کی رعایت کی جانی چاہئے۔ اس رعایت میں عمر، شادی، دماغی حالت، ماحول، غرض ہر وہ چیز جو جرم کی محرک یا اس کے ارتکاب میں رکاوٹ بن سکتی ہے، عدالت کے پیش نظر رہے گی۔ احادیث میں ثیب و بکرے الفاظ آئے ہیں۔ ان کا اطلاق عربیت کی رو سے جس طرح شادی شدہ اور غیر شادی شدہ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح پختہ عمر کے آدمی اور الہڑ نوجوان پر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے فقہاء کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے مجرم کی حالتوں میں سے ایک حالت کو مناظر حکم قرار دے دیا درآں حالیکہ اس کا تعلق مناط حکم سے نہیں ہے، اس طرح کی چیزیں تو ہر جرم کی سزا نافذ کرتے وقت محلوظ رکھی جاتی ہیں لہٰذا آیت زیر بحث کو جو لوگ منسوخ مانتے ہیں، ان کا خیال ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ قرآن کی کوئی آیت قرآن کے سوا کسی دوسری چیز سے منسوخ نہیں ہوتی ہے اور یہ ناسخ و منسوخ دونوں قرآن میں موجود ہیں۔ منسوخ ہونا تو الگ رہا اگر کسی آیت لی تحدید و غصیص بیا ہوئی ہے تو اس کے قرائن و اشارات یا تو آیت کے سیاق و سباق اور اس کے موقع و محل میں مضمر ہیں یا خود قرآن کے دوسرے مقامات میں موجود ہیں ۔
عبادہ بن صامت کی روایت کا صحیح محل

اس روشنی میں اگر عبادہ بن صامت کی روایت کی تاویل کیجیے تو اس کا بھی ایک موقع و محل نکل آتا ہے وہ یوں کہ اس میں جو حرف و ہے اس کو جمع کے بجائے تقسیم کے مفہوم میں لیجیے یعنی کوئی زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ دونوں کی اصل سزا تو جلد (تازیانہ) ہی ہے لیکن اگر کوئی کنوارا تازیانہ کی سزا سے قابو میں نہیں آ رہا ہے تو حکومت اس کو اگر مصلحت دیکھے، مائدہ کی مذکورہ بالا آیت کے تحت جلا وطنی کی سزا بھی دے سکتی ہی  اس لئے کہ اس آیت میں نفی (جلا وطنی) کا اختیار بھی حکومت کو دیا گیا ہے اسی طرح شادی شدہ زانی کی اصل سزا جیسا کہ روایت سے واضح ہے تو تازیانہ ہی لیکن اگر کوئی شخص تازیانہ کی سزا سے قابو میں نہیں آ رہا ہے اور معاشرے کے لئے ایک خطرہ بن چکا ہے تو اس کو حکومت تقتیل یعنی رجم کی سزا از روئے سورۃ مائدہ دینے کا اختیار رکھتی ہے ۔