يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ، اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۣ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ ، اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْهَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا وَجَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ۭ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ (سورۂ روم آیات : 7-9)
لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا ؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرر مدت ہی کے لیےپیدا کیا ہے۔مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کےمنکر ہیں۔اور کیا یہ لو گ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے ، انہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں نے نہیں کیا ہے۔ ان کےپاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔
-----------------
آیات : يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ، اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ ۣ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ
سید ابوالاعلی مودودی ؒ اس کی تفسیر حاشیہ 5 میں لکھتے ہیں :
یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں :
ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بےشمار چیزیں اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں، اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ اسے اپنی راہ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایمان اور کفر، طاعت اور معصیت، نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پر بھی جانا چاہے جاسکتا ہے۔ حق اور باطل، صحیح اور غلط جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کرسکتا ہے، خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔
تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیار اعمال میں فرق کرتا ہے، اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے اور بداہۃ یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اور برا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔
یہ تینوں خصوصیتیں جو انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے۔ جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں اس کو دیا گیا تھا اس پر تصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا ؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادی انتخاب کو استعمال کر کے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پر جزا اور برے عمل پر سزا دی جائے۔ یہ وقت لا محالہ انسان کا کارنامہ زندگی ختم اور اس کا دفتر عمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتا نہ کہ اس سے پہلے۔ اور یہ وقت لازما اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفتر عمل بند ہو۔ کیونکہ ایک فرد یا ایک قوم کے مرجانے پر ان اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑے ہیں۔ اس کے چھوڑے ہوئے اچھے یا برے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار ہونے چاہیں۔ یہ اثرات جب تک مکمل طور پر ظاہر نہ ہولیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا یا سزا دینا کیسے ممکن ہے ؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے اور زمین میں انسان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسرے زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو، انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے۔
آیات : اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْهَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا وَجَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ۭ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ
کی تفسیر حاشیہ نمبر 6 میں لکھتے ہیں :
اس فقرے میں آخرت کی دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظام کائنات کو بنظر غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی۔
ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئٰ ہے۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بےڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بےمعنی ہوں۔ بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے جس کا ایک ایک ذرہ اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے، جس کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے، جس کی ہر شے با مقصد ہے۔ انسان کا سارا تمدن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام علوم و فنون خود اس بات پر گواہ ہیں۔ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کر کے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے اسے تلاش کر کے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیر کرسکا ہے۔ ورنہ ایک بےضابطہ اور بےمقصد کھلونے میں اگر ایک پتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہوتا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدن کا تصور تک نہ کیا جاسکتا تھا۔ اب آخر یہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلی درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر، اختیارات دے کر، آزادی انتخاب دے کر، اخلاق کی حس دے کر اپنی دنیا کا بےشمار سروسمان تمہارے حوالہ کیا ہے، اس نے تمہیں بےمقصد ہی پیدا کردیا ہوگا ؟ تم دنیا میں تعمیر و تخریب اور نیکی و بدی، اور ظلم و عدل اور راستی و ناراستی کے سارے ہنگامے برپا کرنے کے بعد بس یونہی مر کر مٹی میں مل جاؤ گے گے اور تمہارے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا ؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پر اور دنیا کی بےشمار اشیاء پر بہت سے مفید یا مضر اثرات ڈال کر چلے جاؤ گے اور تمہارے مرتے ہی یہ سارا دفتر عمل بس یونہی لپیٹ کر دریا برد کردیا جائے گا ؟
دوسری حقیقت جو اس کائنات کے نظام کا مطالعہ کرنے سے صاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کسی چیز کے لیے بھی ہمیشگی نہیں ہے۔ ہر شے کے لے ایک عمر مقرر ہے جسے پہنچنے کے بعد وہ ختم ہوجاتی ہے۔ اور یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا بھی ہے۔ یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں۔ ایک وقت وقت تک ہی وہ کام کر رہی ہیں، اور کسی وقت پر انہیں لا محالہ خرچ ہوجانا اور اس نظام کو ختم ہوجانا ہے۔ قدیم زمانے میں تو علم کی کمی کے باعث ان فلسفیوں اور سائنسدانوں کی بات کچھ چل بھی جاتی تھی جو دنیا کو ازلی و ابدلی قرار دیتے تھے۔ مگر موجودہ سائنس نے عالم کے حدوث و قدم کی اس بحث میں جو ایک مدت دراز سے دہریوں اور خدا پرستوں کے درمیان چلی آرہی تھی، قریب قریب حتمی طور پر اپنا ووٹ خدا پرستوں کے حق میں ڈال دیا ہے، اب دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کر یہ دعوی کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی۔ پرانی مادہ پرستی کا سارا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادہ فنا نہیں ہوسکتا، صرف صورت بدلی جاسکتی ہے، مگر ہر تغیر کے بعد مادہ مادہ ہی رہتا ہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جاتا تھا کہ اس عالم مادی کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ لیکن اب جوہری توانائی (Atomicenergy) کے انکشاف نے اس پورے تخیل کی بساط الٹ کر رکھ دی ہے۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوت مادے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادہ پھر قوت میں تبدیل ہوجاتا ہے حتی کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولی۔ اب حرکیات حرارت کے دوسرے قانون (Second Law of Thermo-Dynamics) نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ عالم مادی نہ ازلی ہوسکتا ہے نہ ابدی۔ اس کو لازما ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے۔ اس لیے سائنس کی بنیاد پر اب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کن ٹانگوں پر اٹھ کر قیامت کا انکار کرے گا ؟