قرآن کے معنی
قرآن مجید میں دونام سب سے زیادہ عام فہم اور مشہور ہیں: الکتاب اورالقرآن۔ پہلا نام " الکتاب" سے مراد اس کی تحریر ، اس کے الفاظ اور سطروں کا مجموعہ ہے، کیونکہ قرآن مجید ایک تحریری مواد کا مجموعہ ہے ، جو حروف اور الفاظ پر مشتمل ہے ۔ اور دوسرا نام القرآن کے معنی پڑھی جانے والی چیز ہے۔ ان دونوں ناموں کی معنوی مطابقت یہ ہے کہ یہ قرآن نہ صرف تحریری طور پر محفوظ ہے بلکہ زبانی تواتر سے لوگوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہے ۔ البتہ کچھ جدید علمائے لغت کا کہنا ہے کہ یہ دونوں نام آرامی زبان سے ماخوذ ہیں اس میں الکتاب کے معنی ہیں حروف (یا الفاظ) جبکہ القرآن کے معنی تلاوت کرنا ہے ، اس لے اس آخری وحی کو کتاب اور قرآن کہنا ایک فطری بات ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ کو اس آخری وحی کو دونوں طریقے سے محفوظ بنانے کا حکم ہوا۔ سب سے پہلی وحی میں اس طرف اشارہ ہے ، فرمایا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق: ۱۔۵) پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا
لغوی تحقیق
ہمارے قدیم علماء لغت کے ہاں لفظ" قرآن" کی تحقیق وتحلیل میں شدید اختلاف ہے ۔ ان میں سے ایک ایک گروہ نے کہا کہ قرآن کا لفظ اسم جامد ہے یعنی یہ قواعد کی روسے مشتق نہیں ہے ۔ اس رائی کی تائید کرنے والوں میں ابوعبیدہؒ ، ابنِ اوسؒ اور امام شافعی ؒ بھی ہیں ۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ قرآن مجید بھی تورات اور انجیل کی طرح ایک الہامی کتاب ہے، اس لئے یہ لفظ اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ ( تاريخ بغداد للخطيب 2/ 62 )۔ علما، کے دوسرے گروہ نے کہا ہے کہ لفظ قرآن مشتق ہے ۔ پھر ا س گروہ میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ لفظ مشتق کی کون سی قسم ہے یعنی مادے کے اعتبار سے اس کے اصلی حروف کیا ہیں ؟ ایک گروہ کا کہنا کہ اس کے حروف (ق رن) ہیں ۔ اس میں معروف امام اشعری اور ان کےکے ماننے والے شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ لفظ قرآن : قَرَنَ یَقرُنُ مصدر قَرۡن سے ماخوز ہے (یعنی کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ ملانا)، کیونکہ اس میں سورتیں اور آیات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ (کتاب البرهان للزرکشی 1 / 278) جبکہ امام فراء کہتے ہیں: یہ لفظ قرائن سے ماخوذ ہے، جو قرينة کی جمع ہے، اس کے معنی ہیں مشابہ ہونا ۔ کیونکہ اس کی آیات ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں گویا ہر آیت اور سورت دوسری آیت اور سورت کے لیے قرینہ ہے ۔ ( الإتقان للسیوطی 1 / 87)۔
انہیں اصحاب اشتقاق میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ لفظ قرآن عربی قواعد کے مطابق مہموز ہے یعنی اس کے حروف اصلی (ق ر ء) ہیں ، اس گروہ میں عربی لغت کے ماہر ابراہیم بن السری الزجاج اور ابوالحسن علی بن حازم اللحیانی اور ان کے پیرو کار شامل ہیں ۔ علامہ الزجاج کہتے ہیں: لفظ "قرآن" فعلان کے وزن پر ہے، اور "قرء" سے ماخوذ ہے جس کے معنی جمع کرنے کےہیں، جیسے عربی میں کہا جاتا ہے قَرَءَ الحوضَ بالماءِ : اس نے حوض کو پانی سے بھر دیا ۔ اس نام کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں پچھلی تمام کتابوں کے علوم و معارف جمع کردیا ہے ۔جبکہ حازم اللحیانی کہتے ہیں: یہ مصدر ہے اور غُفۡرَان کے وزن پر ہے ۔ اور قَرَأَ سے مشتق ہے جس کے معنی تلاوت ہے۔ یہ رائی سب سے زیادہ معقول اور وزنی معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن مجید میں اس مطلب کی صراحت موجود ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : {إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ}بعض مفسرین کے مطابق اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی شامل ہے: {الرَّحْمَنُ، عَلَّمَ الْقُرْآنَ} ’’الرحمٰن نے قرآن سکھایا یعنی پڑھایا۔
نزول قرآن سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اس کے معنی
اگر لفظ قرآن کو قَرَء سے مشتق مان لیا جائے تو زمانہ جاہلیت میں عرب لفظ "قرء" کو تلاوت کے علاوہ دیگر معنی کے لیے بھی استعمال کرتے تھے، جیسے وہ کہتے تھے: "هٰذه النَّاقَةُ لمۡ تَقۡرَأۡ سَلَى قَطّ" اس فقرہ کا مطلب ہے کہ اونٹنی حاملہ نہیں ہوئی ، اسی طرح عمرو بن کلثوم کا ایک مصرع ہے: هَجَان اللونِ لم تَقۡرَأۡ جنِيۡنا، کہ اونٹنی نے کوئی بچہ جنم نہیں دیا ۔جہاں تک " قَرَءَ " بمعنی "تلاوت" ہے ۔ جیسے ہم نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ جدید علمائے لغت کی تحقیق کے مطابق قرآن کےمعنی تلاوت ہے کیونکہ قدیم آرامی زبان میں بھی اس کے معنی یہی ہے۔ اس بات سے یوں لگتا ہے کہ اس معنی کو عربوں نے آرامی زبان سے لیا ہے ۔ ماہرین لسانیات اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کا اپنے ہمسایہ ممالک جیسے کہ فارس، حبش، روم، شام، اور مصرکے ساتھ تعلق رہا ہے اور اسی طرح فلسطین، شام اور عراق سے بھی تعلق رہا ہے قدیم زمانے میں ان تمام ممالک میں مختلف آرامی بولیاں رائج تھیں۔ اور اس قربت کے نتیجے میں الفاظ کا تبادلہ ہونا ایک قدرتی بات ہے کیونکہ کسی زبان کے لیے ہر طرح کے بیرونی اثرات سے محفوظ رہنا ناممکن ہے، کیونکہ زبانیں ایک دوسرے سے الفاظ اور اسلوب مستعار لیتی ہیں۔ اس زمانے میں عرب شاعروں اور ادیبوں نے بہت سے عجمی الفاظ اپنی شاعری اور تحریر میں شامل کیا ہے ۔ وہ روم، فارس اور حبش کے بادشاہوں کے دربار میں حاضری دیتے تھے اور ان کے دربار میں اپنا کلام پیش کرتے تھے۔اسی طرح کاروباری تعلق کی وجہ سے بہت سے عجمی الفاظ عربوں کی عام بول چال کا حصہ بن گئے۔ جیسے قرآن میں ذکر ہے کہ قریش قدیم زمانے میں دو دفعہ تجارتی دورے کرتے تھے، ایک سردیوں میں اور ایک گرمیوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ) چنانچہ اسلام سے پہلے مکہ تجارت کا ایک بڑا مرکز تھا اور اس میں سامان مشرق، مغرب، جنوب اور شمال سے پہنچایا جاتا تھا۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ عربوں کی یہودیوں سے بھی قربت تھی ، جن کی مذہبی زبان آرامی تھی، اس لیے کچھ آرامی مذہبی الفاظ عربی زبان میں داخل ہوا ہے ۔ مستشرقین کرینکو نے "اسلامی انسائیکلوپیڈیا" میں لفظ "کتاب" پر اپنی تحقیق میں اس کا حوالہ دیا ہے، اور مستشرقین بلیچر نے آرامی، سریانی اور عبرانی مذہبی الفاظ کے ایک گروہ کا حوالہ دیا ہے، اور اس بات کی تحقیق کی ہے کہ عربوں نے ان کا استعمال کیا تھا ۔ جیسے" "قرأ، كتب، كتاب، تفسير, تلميذ، فرقان، قيوم، زنديق" ہیں۔ انہی الفاظ میں سے قرآن کے ناموں میں ایک نام "الفرقان" ہے۔ جیسے اللہ اتعالیٰ نے فرمایا: {تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا} {بڑا بابرکت ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کے لیے ڈرانے والا ہو} جدید لغویین کہتے ہیں لفظ فرقان اصل میں آرامی ہے اور اس کے معنی امتیاز اور فرق کرنے کے ہیں ، تو قرآن کا یہ نام رکھنا اس معنی میں ہےکہ یہ حق و باطل میں فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ان میں سے قرآن کا ایک نام ذکر ہے {وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ} اور یہ ایک بابرکت ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ۔ اور یہ خالص عربی لفظ ہے۔اس کے معنی تذکرہ کے بھی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ} {یقیناً ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے}۔ ان کے علاوہ قرآن کا ایک نام تنزیل بھی قرآن میں آیا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے {وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ} (اور درحقیقت میں(یہ کتاب) یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے} ، یہ بھی خالص عربی ہے۔ یہ وہ چند نام ہے جو خود قرآن مجید میں مختلف سیاق وسباق میں استعمال ہوا ہے ۔ لیکن بعض علما ءعرب نے قرآن کے ناموں کو شمار کرنے میں مبالغہ آرائی کی ہے، یہاں تک کہ علامہ بدر الدین الزرکشی نے پچپن ناموں کا ذکر کیا ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے نام اور صفت کو ایک ہی فہرست میں شامل کردیا ۔ مثال کے طور پر العلی: عالی شان کتاب، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ} {اور بے شک وہ اصل کتاب میں ہے، ہمارے پاس جو عالی شان پر حکمت ہے} اور المجید: عظمت والی کتابِ، اللہ تعالی نے فرمایا: {بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ} بلکہ یہ ایک عظیم الشان قرآن ہے۔ عزیز: زبردست ، {وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيز} عربی: عربی زبان میں،{قُرْآنًا عَرَبِيًّا} ان کے علاوہ بھی بعض علماء نے قرآن مجید کے نوے سے زیادہ ناموں کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال قرآن کو جس نام سے بھی پکارا جائے وہ ایک معجزانہ کلام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، جو مصحف میں لکھا گیا، جو آپ ﷺسے تواتر سے نقل ہوا، اور اس کی تلاوت عبادت ہے ، اس تعریف پر تمام مکاتب فکر کے مجتہدین ، فقہاء اور علماء لغت سب متفق ہیں ۔
کیا قرآن عبرانی زبان کا لفظ ہے ؟
اس بات میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا کہ قرآن مجید میں ایسے مفرد الفاظ کا وجود ہے جو عجمی ہوں ؟ اس بارے میں جمہور علما ء کا خیال ہے کہ قرآن میں عجمی الفاظ نہیں ہیں، ایک گرو ہ نے درمیانی راہ اختیار کی انہوں نے کہا کہ قرآن میں کچھ ایسے الفاظ موجود ہیں جو عرب اورغیر عرب دونوں کے ہاں استعمال ہوتے تھے ۔ البتہ عربوں نے ان کو اپنی زبان اور اسلوب میں داخل کرلیا تھا ۔ اگرچہ اصل کے اعتبار سے وہ عجمی ہیں لیکن استعمال اور عربیت کے لحاظ سے وہ بھی عربی الفاظ ہی ہیں ۔ اس لحاظ سے اکثر ائمہ کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن میں ایسے الفاظ نہیں ہیں جو غیر عربوں کے اسلوب پر مبنی ہوں، جیسے نوح ، ولوط ، وإسرائيل ، وجبريل۔ (تفسیر القرطبی" (1/68)۔ علماء کہتے ہیں یہ اگرچہ غیر عربی الفاظ ہیں لیکن استعمال کے اعتبار سے یہ بھی عربیت کے اسلوب اور تلفظ سے ہم اہنگ ہیں ۔ اس لحاظ سے ان الفاظ کو عربی الفاظ ہی میں شمار کرنا چاہیئے ۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کریم عربوں کی زبان میں نازل ہواہے۔ تو اس بات میں بھی کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیئے نزول قرآن کے وقت عربی زبان میں عجمی الفاظ کا ایک گروہ بھی شامل تھا اور بعض صحابہ و تابعین نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی، جیسے عبد اللہ ابن عباس ؓ ہیں، جن کے بارے میں روایت میں ذکر ہے کہ ان کے نزدیک: "بہت سے قرآن کے حروف (الفاظ ) کسی دوسری زبان سے ہیں، جیسے سجیل، المشكاة، الطور، اليمّ، أباريق، إستبرق ، الزنجيل ، الفردوس۔و غیرہ ۔ ابن عباس ؓ سے ان کے ایک شاگرد نے ، اللہ تعالیٰ کا قول :" فَرَّتْ مِن قَسْوَرَة" کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ عجمی لفظ ہے فارسی زبان میں اس کے معنی شیر ہیں ۔
لیکن اس کے باجود بعض علماء نے قرآن کریم میں عجمی الفاظ کے واقع ہونے کی تردید کی ہے، اور ان میں سے بعض نے ایسا کہنے والوں پر کفر کا الزام لگایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا : "وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ " کہ قرآن کی زبان عربی مبین ہے۔ اس سے واضح ہے کہ قرآن عجمی زبان میں نہیں ہے ۔ لیکن اس سے پہلے جیسے ہم نے ذکر کیا کہ ہر زبان کا تعلق دوسری زبان سے ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ جس طرح انسان ایک دوسرےسے چیزوں کا تبادلہ کرتے ہیں اسی طرح زبان کے الفاظ کا تبادلہ ہونا لازمی ہے ۔ جس طرح عجمی لوگوں کے نام عربوں کی زبان میں منتقل ہوکر عربیت کے اسلوب بیان میں ڈھل گئے ہیں اسی طرح دیگر اسمائے معرفہ بھی عربیت میں ڈھل کر عربی بول چال کا حصہ بن جانا کوئی تعجب کی بات ہے ۔ چونکہ عربی زبان ایک زندہ زبان ہے، یہ اسی طرح الفاظ لیتی اور دیتی ہے جیسے زندہ لوگ ایک دوسرے سے چیزین لیتے اور دیتے ہیں، اور اگر اس میں غیر ملکی الفاظ شامل ہیں تو کوئی عار کی بات نہیں، بلکہ یہ اس کی طاقت اور قابلیت کا ثبوت ہے۔ قاموس الصحیح کے مصنف الجوہری نے عربیت کی تعریف یہ کی ہے: غیر عربی اسم کو عرب اپنے طریقے کے مطابق بول چال میں شامل کرلیں یعنی ان کی بولی کے مطابق استعمال کریں ۔ معروف لغوی ابن دورید کی کتاب الجمھرۃ میں بھی ایک باب اسی موضوع پر ہے ، ان حضرات کے مطابق قرآن میں دیگر زبانوں کھے الفاظ شامل ہیں۔
قرآن کے الفاظ مستشرقین کی نظر میں
بد قسمتی سے بعض مستشرقین نے قرآن کے بعض عجمی الفاظ کو سرقہ میں شمار کیا ہے اور یہ دلیل دی ہے کہ قرآن کے معانی عجمی مصادر سے ماخوذہیں ہمارے نزدیک اس بات کو تحقیق کے کسی بھی زاویہ سے درست کہنا علمی تحقیق کی توہین ہے۔ در اصل اس قسم کی تحقیقات کے پچھے ان محققین کے تعصبات شامل ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے غلط دعوے کے لیے ہر طرح کے دلائل پیش کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا تے ہیں ۔ چنانچہ بعض مستشرقین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کی مختلف مذہبی اصطلاحات دوسری زبانوں سے مستعار ہیں۔ ان کے نزدیک ان اصطلاحات میں لفظ قرآن بھی شامل ہے ۔ انہوں اس سے یہ نتیجہ برآمد کیا کہ جب الفاظ مستعار ہیں تو ان کے معنی اور مفہوم بھی مستعار ہیں۔ گویا اسلام قدیم مذاہب کا ایک چربہ ہے۔ ان کے نزدیک جیسے: اللہ، قرآن، صلٰواۃ، سجدہ، ملائکہ، مسجد، آیت اور قربان جیسے الفاظ عبرانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا یہ الفاظ یہودی مذہب سے لیے گئے ہیں ۔ اس لیے بعض مستشرق نے روزے کو عیسائی، مجوسی اور عرب بت پرستوں کی عبادت قرار دیا۔ (cf. Montgomary Watt; Mohammed at Medina, p.203) ایک مستشرق نے دعوی کیا کہ قرآن نے جنگِ بدر کو ، حضرت موسٰی ؑ کے خروج کی مناسبت سے فرقان کہا ہے ۔ جس طرح حضرت موسیٰ ؑ نے خروج کی کامیابی پر عاشوراء کے روزے رکھے۔ اسی طرح بدر میں کامیابی پر مسلمانوں نے رمضان کے روزے رکھے۔ مدینہ میں مسجدِ نبوی کی تعمیر کو یہود کے ہیکل کا اثر کہا گیا. (cf. Buhl; Origin of Islam, p.124) ۔ معروف مستشرق آرتھر جیفری نے اپنی کتاب : The Foreign Vocabulary of the Quran میں قرآنِ کریم میں واقع ہونے والے غیرعربی الفاظ کو درج کیا ہے۔ اوریہ ثابت کرنے کوشش کی ہے کہ قرآن محمد ﷺ کی تالیف کردہ کتا ب ہے ۔ کیونکہ اس میں اس دورکے غیر عربی مذہبی تصورات، رسم رواج کے اثرات اور الفاظ کے معانی موجود ہیں ۔
عربی اور عبرانی زبان کے معنوی اشتراک کی حقیقت
مورخین کے مطابق قدیم زمانے میں ان تمام اقوام کا تعلق جیسے بابلی، آسوری، کلدی، آموری، عبیری، عربی اور مصری ان سب کا نسلی تعلق حضرت آدمؑ کا بیٹا سام کی اولاد سے تھا ، سامی تہذیب کا گہوارہ یہی خطہ عرب تھا۔ اسی خطہ سے بعد کے ادوار میں ہجرت کرکے مختلف تہذیب میں آبسے اس کے بعد وہ فنیقی، شامی اور بابلی کہلائے، انہیں میں سے ایک عبرانی قوم کہلائے ۔ سامی تہذیب کی اسی سرزمین سے یہودیت کے آثار نمایاں ہوئے، یہیں عیسائیت پروان چڑھی۔ اسی ریگزار سے بالآخر اسلام ابھرا۔ (Phillips K. Hitti; History of Arabs, P.3)
جب سامی نسل عرب کے ریگزاروں سے نکلی تو وہی زبان لے کر نکلی جو اس دور میں عرب میں بولی جاتی تھی۔ بعد کے ادوار میں ان زبانوں میں تبدیلی آتی گئی اور یہ زبان آرامی کہلائی، اس دور میں شام و عرب اور عراق تینوں جگہوں میں آرامی رائج تھی۔ شامی آرامی سے عبرانی ، بابلی آرامی سے کلدانی، اور عربی آرامی سے عربی وجود میں آئی، عرب کے یمنی قبائل نے حبشہ میں اپنی نو آبادیاں قائم کیں تو ان کی زبان اور مقامی زبان کے اشتراک سے حبشی زبان بنی۔ اس لیئے علمائے لسانیات حبشی زبان کو عربی کی شاخ قرار دیتے ہیں۔ ( ملاحظہ ہو مولانا سید سلیمان ندوی؛ ارض القرآن، باب ‘ زبانیں)
وہ قومیں جو عرب سے باہر نکل گئیں اور جنہیں بیرونی اقوام سے سابقہ پڑا، ان کی زبانیں آہستہ آہستہ بیرونی اثرات کے لپیٹ میں آئیں ۔ لیکن جن قوموں نے عرب میں ہی بود و باش رکھی ان کی زبان بیرونی اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی، گویا انہوں نے اصل سامی زبان یا آرامی زبان کو تغیر و تبدل سے محفوظ رکھا، لہذا ایک ہی اصل زبان میں اگر الفاظ مشترک ملتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ! اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ قرآن مجید کے یہ سارے عجمی الفاظ جن کا ذکر عرب علماء اور مستشرقین نے کیا ہے ۔ اصلاً عربی الفاظ ہیں، جنہیں حبشی، آرامی، سریانی اور عبرانی زبانوں نے اصل قدیم عربی سے مستعار لے رکھا ہے۔ پھر دوبارہ یہی الفاظ عربی مبین کا حصہ بن گئے جن کو قرآن نے اپنے لیئے استعمال کیا ہے جس کو قرآن نے عربی مبین کا خطاب دیا ہے گویا قرآن مجید کے ذریعے ان قدیم عربی الفاظ کو دوبارہ ایک نئے زندگی مل گئی ہے ۔ اگر عربی اور عبرانی لغت کا موازنہ کیا جائے تو روز مرہ کے استعمال کے سینکڑوں ہزاروں الفاظ مشترک پائے جاتے ہیں۔ مثلاً اب، ارض، اسیر، امر، ام ، امہ، برد، برق، برکت، بطن، بکا، بکر ، بن ، بنت، بہق، بہیمہ، بئر، بیت، بیضۃ، تلمیذ، تنور، جبل، جمل، حرب، حکمت، حشر، حکیم، دم، ذئب، زرع، ستر، سفینہ، سکت، طعم، طعن، طہر، طول، عہد، عتیق، عقب، عقد، عقرب، عمل، عنب، عنق، عین، کبد ، کبش، کبیر، کتاب، کذب، کرم کنز، کوکب، لبن، لحم، لعب، لعن، لہب، ماء، ملح، مر، مسکن، ملک ، ملبوس، من، موت، نصر، نہار، نہر، نور، ہوا، ولد ، ید ، یلد، یم ، یمین، یوم، وغیرہ۔
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قدیم عبرانی اور عربی زبان کا گہرا رشتہ ہے ۔ اور دونوں زبانوں کے الفاظ کا باہمی معنوی اشتراک کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں زبانوں کا اصل ایک ہے ۔ اور اللہ تعالی نے قرآن کے لیئے وہ زبان و بیان اختیار فرمایا جو عوام و خواص میں رائج تھی اس حقیقت کی طرف ایک مستشرق نے ان الفاظ اشارہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
"All the properties of the Quranic diction including the foreign words and proper names, had been familiar in Mekka before the appeared on the scene"
قرآنی لغت کے تمام بنیادی الفاظ مع بیرونی الفاظ و اسمائے خاص، محمد ﷺ) کی بعثت سے پہلے مکے میں عمومی طور پر رائج تھے۔
( Genesis of the New Faith" C.C. Torrey; The Jewish Foundation of Islam, 2nd Lecture)
قرآن مجید سابقہ انبیا کے پیغام کا تسلسل ہے اور اصل ان سب کا دین ایک ہی ہے وہ ہے اسلام ۔اس لئے زبان کے الفاظ کے اشتراک پر یہ دعوی کرنا کہ اس کی اصل فلاں روایت یا مذہب ہے، درست نہیں ہے۔قرآنِ کریم کی زبان ،عربی مبین میں دیگر زبانوں کے صرف چند الفاظ ہیں، ان میں بھی صرف اسمائے معرفہ ہیں، البتہ افعال و اسالیب بیان، اور جملوکی ساخت تمام تر عربی ہیں ۔ علامہ جلال و الدین سیوطی کی کتاب ‘ الاتقان ‘ میں ایک باب، قرآن میں مستعمل عجمی الفاظ سے متعلق ہے ۔ اس میں انہوں نے تقریباً سو ایسے الفاظ کا ذکر کیا ہے جو عربی الاصل نہیں ہیں۔ ان الفاظ کے بارے میں ہمارے بیشتر علماء اور مفسرین کا مسلک یہ ہے کہ نزول قرآن سے پہلے وہ الفاظ معرب ہوچکے تھے، عربی بول چال اور اشعار میں کثرت سے استعمال ہونے لگے تھے۔ اس اعتبار سے ایسے تمام الفاظ عربی ہی ہیں۔ جب دین اسلام کا نظریہ ہی یہ ہے کہ آدم سے لیکر خاتم النییین ﷺ تک تمام انبیائے کی دعوت اور ان سب کی تعلیم مشترک ہے، لہذا اگر عبادتوں رسم ورواج میں مماثلت پائی جاتی ہے تو اسمیں حیرت کی کیابات ہے؟ قرآن نے دین اسلام کو ملت ابراہیم اور دینِ حنیف کہا ہے، یہودیت و عیسائیت بھی حضرت ابراہیم ؑ سے اپنے آپ کو منسوب کرتی ہے۔ اس اس لئے ان مذاہب کے ارکانِ عبادت میں مماثلت ناگزیرہے۔
عربی زبان کی اصلیت
بنی نوع انسان کی اولین زبان کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم قرآن و بائبل میں ابتدائی دور یعنی آدمؑ تا نوح ؑکے زمانے میں موجود ہستیوں، مقامات اور مصنوعی خداؤں کے اسمائے معرفہ پر غور کریں۔ تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ نے دنیا میں انسانوں کے لئے پہلی زبان عربی بنائی تھی۔ آدم (انسان رہنے والا)، قابِل (قبول کرنے والا)، نوح (غم زدہ)، وَدّ (چاہت)، عدن (رہنا، بسنا) فرات (میٹھا پانی)، یغوث (جوفر یا درسی کرتا ہے)، نسر (گدھ)، شیطان (زیادتی کرنے والا، ابلیس (ناامید) اور جبریل (الٰہ کا جبار) جیسے الفاظ خالص عربی زبان کے ہیں کیونکہ یہ عربی میں ایک خاص معنی رکھتے ہیں جن سے ان کی حیثیت، ہیت اور اسبابِ اسم پر روشنی پڑتی ہے۔ کسی دوسری زبان میں یہ الفاظ اس طرح کے معنی میں استعمال نہیں ہوئے ۔
اگر ہم قرآن کی اس آیت کے پر غور کریں ۔ ’’ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَہَا (189) (۷:الاعراف) وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک نفس (یعنی انسان) سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘ یعنی روئے زمین پر جس قدر لوگ، قبائل اور قومیں رہتی ہیں۔ اگر یہ سب ایک انسان کی اولاد ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اولین انسانوں کی پہلی زبان کونسی تھی؟ قرآن کے مطابق آدمؑ کو جو چیز دوسروں سے نمایاں کرتی تھی وہ زبان کا علم تھا، جس کی برتری نے آدمؑ کو خلافت تک پہنچایا، اللہ فرماتا ہے: ’’وَعَلَّمَ آدَمَ الاَسْمَاء کُلَّھَا (البقرہ : ۳۱) اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔
قرآن کے مطابق ابتدائی دور میں تمام بنی نوع انسان ایک قوم کی صورت تھے جدید لغت میں ’’قوم‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کی ثقافت، تمدن، زبان، لباس، تاریخ اور تہوار وغیرہ مشترک ہوں۔ لغت کی رو سے دو الگ الگ زبانیں بولنے والے ایک قوم نہیں ہے بلکہ مختلف قومیں ہیں ۔ قرآن مجید کے مطابق بھی قوم کے لئے ایک زبان کا ہونا ضروری ہے۔ ’’وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لیُبَیِّنَ لَھُمْ (ابراھیم : ۴) اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قومی زبان میں بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام الٰہی) کھول کھول کر بتائے۔ تو اس لئے یہ استدلال بھی درست ہے کہ ان کی زبان بھی پھر ایک تھی ۔ جیسے اللہ فرماتا ہے۔ " وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلاَّ اُمَّۃ وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا" (۱۰:یونس : ۱۹) اور (سب) لوگ (پہلے ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوگئے۔‘ پھر امتِ واحدہ کیوں کر مختلف ہوئی؟ قرآن میں اس کا جواب یوں ملتا ہے : ’’یَا اَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّن ذَکَرٍ وَاُنْثَی وَجَعَلْنَا کُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا ( الحجرات : 13) اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے خلق کیا ہے تعارف کے لئے تمہاری شعوب اور قبائل بنائے۔ یعنی یہ ذاتیں اور قبائل اللہ نے صرف انسانی تعارف کے لئے بنائے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے مکہ کو قرآن کریم میں بستیوں کی ماں ’’اُمَّ الْقُرَی‘‘ (۴۲:شوریٰ:۷) قراردیا۔ یعنی روئے زمین پر سب سے اولین بستی اور بستیوں کا آغاز کرنے والی بستی اور کعبہ کو ’’اَوَّلَ بیتٍ‘‘ پہلا گھر (۳: عمران:۹۶) اور ’’بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقٍ‘‘ سب سے قدیم گھر (۲۲: حج:۲۹) قرار دیا۔ یعنی دنیا کی آبادی کا آغاز مکہ اور کعبہ کے علاقے سے ہوا اس ام القری آبادی کی ماں کی زبان آج بھی عربی ہے ۔ اس اعتبار سے بنی نوع انسان کی زبانوں میں سے صرف عربی زبان کو ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں کہنا درست معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے عربی کے الفاظ و آثار دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں جس کا اقرار ماہر لسانیات بھی کرتے ہیں۔