حضرت مسیح علیہ السلام کی رسالت اور معجزات

حضرت مسیح علیہ السلام کی رسالت اور معجزات کا   تجزیاتی مطالعہ



وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ  اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   (سورہ آل عمران  49)

ترجمہ : "اور بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول مقرر کرے گا "۔﴿اور جب وہ بحیثیت رسول بنی اسرائیل کے پاس آیا تو اس نے کہا﴾ " میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں، وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور مردے کو زندہ کرتا ہوں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کر کے رکھتے ہو۔ اس میں تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ "( سید مودودی ؒ )

 رسولا  سے واضح ہے  کہ  آپ کامرتبہ پیغمبری کا ہوگا۔ نہ آپ معاذ اللہ ساحر وشعبدہ باز ہوں گے جیسا کہ بدتمیز یہود نے آپ کو سمجھا، اور نہ (نعوذ باللہ) آپ خود خدایا فرزند خدا ہوں گے۔ جیسا کہ نصرانیوں نے اپنی بیہودگی سے فرض کرلیا۔
’’ الی بنی اسرآء یل‘‘۔ یہ بالکل صریح ہے اس باب میں کہ آپ کی دعوت بنی اسرائیل تک محدود تھی اور دوسرے بنی اسرائیلی پیغمبروں کی طرح آپ (علیہ السلام) بھی صرف قومی نبی تھے، انجیل تک میں یہ تصریح، اتنی تحریفوں کے بعد بھی باقی رہ گئی ہے :۔ ’’ ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور انہیں حکم دے کے کہا کہ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔ (متی۔ 10:5۔7) ’’ اس نے جواب میں کہا کہ بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس بھیجا نہیں گیا‘‘ (متی۔ 16۔ 24)

تقریبا دو ہزار سال کی کلیسا کی ساری ملمع سازیوں کے بعد بھی آج بھی خود مسیحی فاضلوں کو اقرار ہے کہ تبلیغ نصرانیت کی یہ عالمگیری ایجاد بندہ ہے ورنہ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہاں اس تعلیم کا پتہ نہیں۔ مسیح (علیہ السلام) نے اسرائیل کے باہر اپنے مرید تلاش نہیں کئے ‘‘۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا جلد 5 ص 63 1 طبع چہاردہم) اور مسیح (علیہ السلام) تو مسیح (علیہ السلام) ، حواریوں تک کا بھی یہ خیال نہ تھا :۔ ’’ اولین شاگردوں کو تعلیم مسیح کی عالمگیری کا احساس نہ ہوا۔ (ایضا 632)

 ’’ جئتکم بایۃ ‘‘۔ ایۃ کے لفظی معنی نشان کے ہیں، یہاں معجزہ کے مفہوم میں آیا ہے۔ معجزہ ایسے واقعہ کے ظہور کا نام ہے جو عام ومتعارف سلسلہ اسباب سے الگ ہو۔ پیغمبر کے ذریعہ سے ایسے غیر عادی واقعہ کا وقوع اس امر کی دلیل ہوتا تھا کہ نصرت حق وتائید الہی پیغمبر کے ساتھ ہے۔ معجزہ کا فاعل کائنات کے بڑے چھوٹے، معمولی غیر معمولی ہر واقعہ کی طرح صرف اللہ تعالیٰ ہوتا ہے پیغمبر محض واسطہ یا ذریعہ ہوتا ہے۔ جو لوگ ایک قادر مطلق کے وجود کے قائل ہیں، ان کے لیے کسی بڑے سے بڑے معجزہ کا نفسی امکان تو قابل انکار بلکہ قابل اشتباہ بھی ہوہی نہیں سکتا، طبعی، غیر طبعی، عادی، غیر عادی، متعارف ومجہول، جلی وخفی اسباب کی تفریق تو بشری تجربات کے لحاظ سے ہے قادر مطلق کے لیے سب بالکل یکساں ہیں۔ اب رہا کسی متعین معجزہ کا ثبوت تو اس کا تعلق منطق سے نہیں تاریخ سے۔ عقل سے نہیں نقل سے درایت سے نہیں روایت سے ہے۔ ظن وتخمین کا یہاں دخل نہیں۔ اب گفتگو صرف سند متصل اور شہادت معتبر کی رو سے ہوگی۔ معجزات مسیح (علیہ السلام) کا ذکر انجیلوں میں بہ کثرت آیا ہے (آیت) ’’ من ربکم ‘‘۔ یہ اضافہ اس حقیقت کی تاکید اور اس پر زور دینے کے لیے ہے کہ معجزہ کا ظہور حق تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ نہ کہ پیغمبر کے اختیار وقدرت سے۔ یہ اور بات ہے کہ اس سے مقصود پیغمبرہی کی تائید ونصرت ہوتی ہے ۔ یعنی اگر تم خبث باطن اور ضد وعناد کو چھوڑ کر ایمان کے طالب اور یقین واطمینان حاصل کرنا چاہتے ہو۔

  ’’ اخلق ‘‘۔ فعل خلق کا انتساب جب خالق کی جانب ہوتا ہے تو اس سے مراد نیست سے ہست کرنا، عدم سے وجود میں لانا ہوتا ہے۔ اور جب انسان کی جانب ہوتا ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے اندازہ کرنا ایک خاص اندازسے بنانا اور صورت پیدا کرنا اور یہاں کھلی ہوئی مراد یہی ہے۔ خلقہ تقدیدہ ولم یرد انہ یحدث معدوما (تاج العروس) الخلق اصلہ التقدیر المستقیم (راغب اصفہانی) الذی یکون بالا ستحالۃ فقد جعلہ اللہ تعالیٰ بغیرہ فی بعض الاحوال والخلق لایستعمل فی کافۃ الناس الاعلی وجھین احدھما فی معنی التقدیر (راغب اصفہانی) ای اقدر واصور (کبیر) والمراد بالخلق التصویر والا براز علی مقدار معین (تفسیر روح المعانی) (آیت) ’’ لکم ‘‘۔ یعنی تم میں یقین پیدا کرنے کے لیے۔ ای لاجل تحصیل ایمانکم ودفع تکذیکم ایای (روح المعانی) واللام فی لکم معناہ التعلیل (بحر)

عوام ہمیشہ بجائے دلائل وعقلیات کے معجزہ وخارق عادت ہی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور یہود تو اپنی اعجوبہ پسندی میں خصوصیت کے ساتھ بڑھے ہوئے تھے، (آیت) ’’ من الطین ‘‘۔ اس فقرہ نے اور زیادہ کھول کراس حقیقت کو حضرت کی زبان سے ادا کردیا ہے کہ میں عدم محض سے وجود میں ہرگز نہیں لاتا صرف مادہ میں ایک خاص ترکیب وترتیب کے ساتھ تصرف کردیتا ہوں تقیید بانہ لایوجد من العدم الصرف بل ذکرالمادۃ التی یشکل منھا صورۃ الطیر (بحر) (آیت) ’’ کھیءۃ الطیر‘‘ یعنی پرندوں کی شکل کے کھلونے مٹی سے بناتاہوں۔ طیر۔ یہاں بہ طور اسم جنس کے ہے (آیت) ’’ فانفخ فیہ فیکون طیرا ‘‘۔ یعنی میرے نفخ دم سے ان میں جان پڑجاتی ہے اور وہ سچ مچ کے پرندے بن کر اڑنے لگتے ہیں۔

چاروں انجیلیں جو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا کے نزدیک مستند ہیں ان میں اس معجزہ کا ذکر نہیں لیکن جو انجیل کلیسائے قبط (مصر) Coptic Church کی مستند الیہ ہے، اس میں یہ صاف مذکور ہے جیسا کہ ڈاکٹر بج Budge نے اپنی کتاب Legends of our lady Mary کے مقدمہ صفحہ 29 میں نقل کیا ہے کہ :’’ وہ پرندوں کی شکل کے جانور بنادیتے تھے جو اڑ سکتے تھے ‘‘۔

 (آیت) ’’ باذن اللہ ‘‘۔ یعنی یہ جو کچھ بھی میں خردکھاتا ہوں، اسے کہیں میری قوت وقدرت کا نتیجہ نہ سمجھ لینا یہ جو کچھ بھی ہوتا ہے سب محض مشیت خداوندی وقدرت الہی کا ثمرہ ہے۔

 ’’ الاکمہ‘‘۔ اندھوں کو بغیر اپریش کے بینا کردینا یوں بھی آسان نہیں چہ جائے کہ مادر زاد اندھوں کو : اور اکمہ ایسے ہی کو کہتے ہیں۔ اس معجزۂ مسیح (علیہ السلام) کا ذکر انجیلوں میں متعدد مقامات پر ہے مثلا انجیل متی ۔9:27،30 میں اور انجیل مرقس 8:22،25۔ میں لیکن سب سے زیادہ تفصیل انجیل یوحنا 9: 1،7 میں ہے اور اس میں تصریح اندھے کے مادرزاد یا پیدایشی ہونے کی ہے۔ (آیت) ’’ الابرص ‘‘۔ کو ڑھیوں کے اچھا کرنے کا ذکر انجیل میں دو جگہ ہے۔ ایک جگہ ایک کوڑھی کو شفا دینے کا اور دوسری جگہ دس کوڑھیوں کو ’’ جب وہ اس پہاڑ سے اترا تو بہت سی بھیڑ اس کے پیچھے ہولی اور دیکھو ایک کوڑھی نے پاس آکر اسے سجدہ کیا اور کہا۔ اے خداوند اگر تو چاہیے تو مجھے پاک صاف کرسکتا ہے اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا اور کہا میں چاہتا ہوں تو پاک صاف ہوجا۔ وہ فورا کوڑھ پاک صاف ہوگیا‘‘ (متی 8 : 1۔ 3) ’’ اور ایسا ہوا کہ یروشلیم کو جاتے ہوئے وہ سامریہ اور گلیل کے بیچ سے ہوکر جارہا تھا اور ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت دس ( 10) کوڑھی اس کو ملے۔ انہوں نے دور کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا۔ اے یسوع، اے صاحب ہم پر رحم کر، اس نے انہیں دیکھ کر کہا جاؤ اپنے تئیں کاہنوں کو دکھاؤ اور ایسا ہوا کہ وہ جاتے جاتے پاک صاف ہوگئے (لوقا۔ 17: 1 1، 14)

 انجیل کے جدید ناقدوں نے طرح طرح پر جرح کرکے پچھلی صدی میں اناجیل اربعہ کا گوشہ گوشہ مجروح کرڈالا ہے۔ لیکن اتنے جزء پر یہ ناقدین بھی متفق ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کے معجزات شفا بخشی ثابت شدہ ہوں۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ج 15 ص 62) نیز انسائیکلوپیڈایا ببلیکا جو خاص انہیں تنقیدات کے لیے ہے۔ اس کا کالم 2445 ( احی الموتی) برناباحواری کی جو انجیل چلی آرہی ہے اس میں تو معجزہ احیاء اموات کی تصریح بھی موجود ہے (ص 437، 441۔ انگریزی ایڈیشن) رہیں اور اور انجیلیں جو موجودہ مسیحیوں کو مسلم اور ان کے نزدیک مستند ہیں وہ بھی اس ذکر سے خالی نہیں بلکہ ان میں متعدد مثالیں اس قسم کے معجزہ کی مذکورہ ہیں چنانچہ لوقا جو یونان میں طبیب کی حیثیت سے مشہور تھے ان کی جانب منسوب انجیل میں یہ درج ہے :۔’’ تھوڑے عرصہ کے بعد ایسا ہوا کہ وہ مائین نامی ایک شہر کو گیا اور اس کے شاگرد اور بہت سے لوگ اس کے ہمراہ تھے جب وہ شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھا ایک مردے کو باہرلئے جاتے تھے وہ اپنی ماں کا اکلوتا تھا اور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اس کے ساتھ تھے اسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا اور اس سے کہا رو نہیں۔ پھر اس نے پاس آکر جنازے کو چھوا اور اٹھانے والے کھڑے ہوگئے اور اس نے کہا اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اٹھو وہ مردہ اٹھ بیٹا اور بولنے لگا اورا س نے اسے اس کی ماں کو سونپ دیا اور سب پر دہشت چھا گئی (لوقا۔7: 1 1، 16) نیز (7:22) انجیل متی (9: 18۔25) میں ایک تازہ میت (ایک سردار کی لڑکی) کے جلا اٹھانے کا ذکر ہے۔ اور انجیل یوحنا ( 1 1: 1۔ 44) میں بڑی تفصیل کے ساتھ ایک چار روز کے دفن شدہ مردہ لعزر کے احیاء کا۔

’’ باذن اللہ ‘‘۔ مزید تاکید وتصریح کے لئے اس فقرہ کو مکرر لایا گیا ہے کہ کہیں ان اعجازی تصرفات کو میری جانب نہ منسوب کردینا۔ جو کچھ بھی ہوا۔ محض خدائے برحق کی قدرت ومشیت سے ہوا۔ صوفیہ عارفین نے کہا ہے کہ بعض اہل حال سے جو ایسے اقوال منقول ہیں جن میں وہ اپنی جانب ایسے افعال کو منسوب کرگئے ہیں جو حق تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں تو بشرط صحت نقل وہ دعوی غلبہ حال پر محمول ہوں گے لیکن انمیں جو اہل ادب ہیں وہ ہر ایسے موقع پر حضرت مسیح (علیہ السلام) ہی کی طرح باذن اللہ یا اس کے مرادف کسی فقرہ کی قید لگا دیتے ہیں۔
 (آیت) ’’ بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ‘‘۔ یہ بات آیت نے مثال اور نمونہ کے طور پر فرمائی یعنی تمہاری مخفی چیزوں پر بھی اللہ مجھے مطلع کردیتا ہے.

 ’’  ایۃ‘‘۔ یعنی نشان میرے پیغمبر اور مؤید من اللہ ہونے کا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہاتھ سے خوارق کا بہ کثرت صادر ہونا تاریخ کا ایک مسلم واقعہ ہے خواہ ان کی توجیہ مفکرین کچھ بھی کرتے رہے ہوں۔ یہود نے انہی خوارق کو دیکھ کر آپ کو ساحر وشعبدہ باز کہنا شروع کردیا چنانچہ جوزیفس (متوفی ( 100 ء) نے اپنی تاریخ آثار یہود میں آپ کا ذکر اس حیثیت سے کیا ہے اور جیوش انسائیکلوپیڈیا میں آپ کا ذکر ان الفاظ میں لکھا چلا آتا ہے :۔ ’’ یسوع نے بہ حیثیت معلم دین یا قانون ساز کے نہیں بلکہ بہ حیثیت شعبدہ باز کے اپنی زندگی میں شہرت وناموری گلیل کے سادہ مزاج باشندوں میں حاصل کی‘‘ (جلد 7 صفحہ 167)


(بحوالہ تفسیر ماجدی سورہ آل عمران، آیت 49، مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ)