قیامت کا منظر سُوْرَةُ الْقَارِعَة کی روشنی میں - سید ابوالاعلی مودوی ؒ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾ مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۲﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۳﴾ یَوۡمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَالۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ ۙ﴿۴﴾ وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ الۡمَنۡفُوۡشِ ؕ﴿۵﴾ فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۶﴾ فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ؕ﴿۷﴾ وَ اَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۸﴾ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۹﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا ہِیَہۡ ﴿ؕ۱۰﴾ نَارٌ حَامِیَۃٌ ﴿۱۱﴾

قیامت کا منظر سورۃ القارعۃ کی روشنی میں 
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔

عظیم حادثہ!(1) کیا ہے وہ عظیم حادثہ؟ تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے؟ وہ دن جب لوگ بِکھرے ہوئے پروانوں کی طرح اور پہاڑ رنگ برنگ کے دُھنکے ہوئے اُون کی طرح ہوں گے۔(2) پھر (3) جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ دل پسند عیش میں ہوگا، اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے(4) اس کی جائے قرار گہری کھائی ہوگی۔(5) اور تمہیں کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟ بھڑکتی ہوئی آگ۔(6) ؏١

----------------------------

پہلے ہی لفظ القارعۃ کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے کیونکہ اس میں سارا ذکر قیامت ہی کا ہے۔ زمانۂ نزول اس کے مکی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بھی مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔

موضوع اور مضمون :

اس کا موضوع ہے قیامت اور آخرت۔ سب سے پہلے لوگوں کو یہ کہہ کر چونکایا گیا ہے کہ عظیم حادثہ! کیا ہے وہ عظیم حادثہ؟ تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے؟ اس طرح سامعین کوکسی ہولناک واقعہ کے پیش آنے کی خبر سننے کے لیے تیار کرنے کے بعد دو فقروں میں ان کے سامنے قیامت کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے کہ اس روز لوگ گھبراہٹ کے عالم میں اس طرح ہر طرف بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور پہاڑوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے، ان کی بندش ختم ہو جائے گی اور وہ دھنکے ہوئے اون کی طرح ہو کر رہ جائیں گے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ آخرت میں جب لوگوں کا حساب کرنے کے لیے اللہ تعالٰی کی عدالت قائم ہوگی تو اس میں فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کس شخص کے نیک اعمال برے اعمال سے زیادہ وزنی ہیں اور کس کے نیک اعمال کا وزن اس کے برے اعمال کی بہ نسبت ہلکا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں کو وہ عیش نصیب ہوگا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے، اور دوسری قسم کے لوگوں کو اس گہری کھائی میں پھینک دیا جائے گا جو آگ سے بھری ہوئی ہوگی۔

 حاشیہ نمبر : 1:   اصل میں لفظ قارعہ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے "ٹھونکنے والی" قرع کے معنی کسی چیز کو کسی چیز پر زور سے مارنے کے ہیں جس سے سخت آواز نکلے۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے قارعہ کا لفظ ہولناک حادثے اور بڑی بھاری آفت کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلا عرب کہتے ہیں قرعتہم القارعہ یعنی فلاں قبیلے یا قوم کے لوگوں پر سخت آفت آگئی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ یہ لفظ کسی قوم پر بڑی مصیبت نازل ہونے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورۃ رعد میں ہے وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ۔ " جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئہ نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہتی ہے" (آیت 31) لیکن یہاں القارعہ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور سورۃ الحاقہ میں بھی قیامت کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (آیت 4) اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں قیامت کے پہلے مرحلے سے لے کر عذاب و ثواب کے آخری مرحلے تک پورے عالم آخرت کا یکجا ذکر ہورہا ہے۔

 حاشیہ نمبر : 2 : یہاں تک قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے۔ یعنی جب وہ حادثہ عظیم برپا ہوگا جس کے نتیجے میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اس وقت لوگ گھبراہٹ کی حالت میں اس طرح بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے ہر طرف پراگندہ و منتشر ہوتے ہیں، اور پہاڑ رنگ برنگ کے ڈھنکے ہوئے اون کی طرح اڑنے لگیں گے۔ رنگ برنگ کے اون سے پہاڑوں کو تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ ان کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ۔

 حاشیہ نمبر : 3 یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے جب دوبارہ زندہ ہوکر لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔

 حاشیہ نمبر : 4 : اسل میں لفظ موازین استعمال ہوا ہے جو موزون کی جمع بھی ہوسکتا ہے اور میزان کی جمع بھی۔ اگر اس کو موزون کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد وہ اعمال ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وزن نہ ہو، جو اس کے ہاں کسی قدر کے مستحق ہوں۔ اور اگر اسے میزان کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد ترازو کے پلڑے ہوں گے۔ پہلی صورت میں موازین کے بھاری اور ہلکے ہونے کا مطلب نیک اعمال کا برے اعمال کے مقابلے میں بھاری یا ہلکا ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صرف نیکیاں ہی وزنی اور قابل قدر ہیں۔ دوسری صورت میں موازین کے بھاری ہونے کا مطلب اللہ جل شانہ کی میزان عدل میں نیکیوں کے پلڑے کا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونا ہے، اور ان کے ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت ہلکا ہو۔ اس کے علاوہ عربی زبان کے محاورے میں میزان کا لفظ وزن کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور اس معنی کے لحاظ سے وزن کے بھاری اور ہلکا ہونے سے مراد بھلائیوں کا وزن بھاری یا ہلکا ہونا ہے۔ بہرحال موازین کو خواہ موزون کے معنی میں لیا جائے، یا میزان کے معنی میں، یا وزن کے معنی میں، مدعا ایک ہی رہتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ آدمی اعمال کی جو پونجی لے کر آیا ہے وہ وزنی ہے، یا بےوزن، یا اس کی بھلائیوں کا وزن اس کی برائیوں کے وزن سے زیادہ ہے یا کم۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے جن کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس کا مطلب پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ سورۃ اعراف میں ہے " اور وزن اس روز حق ہوگا، پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے، اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے" (آیات، 8۔9) سورۃ کہف میں ارشاد ہوا " اے نبی ان لوگوں سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا، اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے" (آیات 104۔105) سورۃ انبیاء میں فرمایا "قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخس پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا، جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں" (آیت 47) ان آیات سے معلوم ہوا ہے کہ کفر اور حق سے انکار بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ برائیوں کے پلڑے کو لازما جھکا دے گی اور کافر کی کوئی نیکی ایسی نہ ہوگی کہ بھلائیوں کے پلڑے میں اس کا کوئی وزن ہو جس سے اس کی نیکی کا پلڑا جھک سکے۔ البتہ مومن کے پلڑے میں ایمان کا وزن بھی ہوگا اور اس کے ساتھ ان نیکیوں کا وزن بھی جو اس نے دنیا میں کیں۔ دوسری طرف اس کی جو بدی بھی ہوگی وہ بدی کے پلڑے میں رکھ دی جائے گی۔ پھر دیکھا جائے گا کہ آیا نیکی کا پلڑا جھکا ہوا ہے یا بدی کا۔


 حاشیہ نمبر : 5 اصل الفاظ ہیں اُمُّهٗ هَاوِيَةٌ " اس کی ماں ھاویہ ہوگی" ھاویہ ھوی سے ہے جس کے معنی اونچی جگہ سے نیچی جگہ گرنے کے ہیں، اور ھاویہ اس گہرے گڑھے کے لیے بولا جاتا ہے جس میں کوئی چیز گرے۔ جہنم کو ھاویہ کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ وہ بہت عمیق ہوگی اور اہل جہنم اس میں اوپر سے پھینکے جائیں گے۔ رہا یہ ارشاد کہ اس کی ماں جہنم ہوگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ماں کی گود بچے کا ٹھکانا ہوتی ہے، اسی طرح آخرت میں اہل جہنم کے لیے جہنم کے سوا کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔

حاشیہ نمبر : 6 یعنی وہ محض ایک گہری کھائی ہی نہ ہوگی بلکہ بھڑکتی ہوئی آگ سے بھری ہوئی ہوگی۔

--------------
( ماخوذ از تفہیم القرآن ج 6 ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )