قرآنی لفظ کے معنی طے کرنے کا صحیح طریقہ، محمد رفیع مفتی

لفظ کے معنی طے کرنے کا صحیح طریقہ، رفیع مفتی 

سوال: میرے خیال میں غلام احمد پرویز کی یہ بات درست ہے کہ :
’’اعجاز قرآن لفظوں کے انتخاب میں چھپا ہوا ہے، یعنی یہ کہ خدا نے اپنی بات کہنے کے لیے فلاں لفظ ہی کیوں منتخب کیا ہے اور اُس لفظ کا خاص پس منظر کیا ہے، چنانچہ جب اس پس منظر کے حوالے سے بات واضح کی جاتی ہے تو تفسیر کے اس طریقے سے ہمارے اوپر حکمت قرآن کے دروازے کھلتے ہیں۔‘‘
پرویز صاحب کے اس اتنے اچھے نقطۂ نظر پر غامدی صاحب کی درج ذیل تنقید میری سمجھ میں نہیں آتی کہ:
’’کسی عربی لفظ کے مادے کی تحقیق کا تعلق علم لسانیات سے ہے، یہ ایک دلچسپ موضوع تو ہے، لیکن قرآن فہمی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘‘
جبکہ میرے خیال میں پرویز صاحب نے اپنے اسی طریقے سے سورۂ اخلاص کی جو تفسیر کی ہے، وہ طبیعت کو بہت متاثر کرتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ پرویز صاحب کے طریق تفسیر میں آخر کیا غلطی ہے اور اس طریقے سے دوسرے علما قرآن کی تفسیر کیوں نہیں کرتے اور وہ لوگوں کو اس طریقے سے کیوں نہیں سمجھاتے؟ (جنید احمد)
جواب: غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ ہی سے اس کا مفہوم سمجھا جائے گا اور پرویز صاحب بھی قرآن کے الفاظ ہی سے اس کا فہم سمجھنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ یہ دونوں کی ضرورت ہے کہ وہ قرآن کے الفاظ کو سمجھیں اور جو کچھ ان الفاظ سے سامنے آئے، اسے بطور تفسیر قبول کریں۔ اس کے بعد یہ اصولی سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ کو سمجھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
پرویز صاحب کے نزدیک لفظ کے معنی سمجھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ قرآن میں جو لفظ استعمال ہوا ہے، اس کا مادہ کیا ہے اور اس مادے کے اصل معنی کیا ہیں ، کیونکہ وہ لفظ جس روپ میں بھی ہمارے سامنے آ رہا ہے، لازماً اپنے مادے ہی کے معنی کو یا اس کے کسی پھیلاؤ ہی کو ظاہر کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں کوئی لفظ کبھی اپنے مادے کے اصل معنی سے مختلف معنی میں استعمال ہی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مفسر قرآن الفاظ قرآن کے معنی ان کے مادے ہی کی تحقیق سے طے کرے۔
غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح آپ معنی کے اعتبار سے لفظ کی تاریخ سے تو واقف ہو سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں جان سکتے کہ قرآن نے اسے کس معنی میں بولا ہے، کیونکہ قرآن نے تو اس لفظ کو اپنے مخاطبین کی لغت فصیحہ میں استعمال کیا ہے، تبھی تو مخاطبین کے لیے اسے سمجھنا اور اس سے متاثر ہونا ممکن ہوا ہے۔ قرآن مجید اپنے بارے میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں نازل ہوا ہے اور عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.(الدخان ۴۴ :۵۸ )
’’پس ہم نے اس (قرآن) کو تمھاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔‘‘
نیز فرمایا:
فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا. (مریم ۱۹: ۷ ۹ )
’’پس ہم نے اس (قرآن) کو تمھاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے تاکہ تم اس کے ذریعے سے اہل تقویٰ کو بشارت دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو اس کے ذریعے سے اچھی طرح خبردار کردو ۔‘‘
قرآن جس زبان میں نازل ہواہے ،وہ مکہ کی عربی معلّٰی ہے جو اس کے دور جاہلیت کی زبان تھی۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ وہی زبان ہے جو خداکا پیغمبر بولتا تھا اور جو اس زمانے کے مکہ میں اس کی قوم قبیلۂ قریش کے لوگ بولتے تھے۔
اس لیے اس کتاب کا فہم اب اس زبان کے صحیح علم اور اس کے صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس میں تدبر اور اس کی شرح و تفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کا جید عالم اور اس کے اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن کے مدعا تک پہنچنے میں کم سے کم اس کی زبان اس کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔
غامدی صاحب کے نزدیک لفظ کے معنی سمجھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ لفظ نزول قرآن کے زمانے میں اس کے براہ راست مخاطبین (قبیلۂ قریش)کے ہاں کن معنوں میں بولا جاتا تھا اور ان کے ہاں اس لفظ کے کیا کیا ’shade‘ پائے جاتے تھے۔ چنانچہ غامدی صاحب کے نزدیک یہ بات گمراہ کن ہو گی کہ ہم یہ دیکھنے لگ جائیں کہ لفظ اپنے مختلف زمانوں میں کس کس معنی میں بولا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مادہ کیا معنی رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بسااوقات لفظ اپنے بنیادی معنی سے اٹھ کر اس سے بہت مختلف معنوں میں استعمال ہونے لگ جاتا ہے، لہٰذا یہ کہنا بہت غلط ہو گا کہ لفظ وقت کے ساتھ جس جس معنی میں بھی استعمال ہو، اس کے مادے کے اصل معنی لازماً اس میں مرکزی حیثیت سے موجود رہتے ہیں۔
یہ تو ان دونوں حضرات کے قرآن فہمی کے اصولوں کا فرق ہے۔ اس فرق کو ہمارا سمجھنا اور اس کے صحیح غلط کو طے کرنا ہماری علمی ضرورت ہے، لیکن اگر اس فرق کی تہ میں اترے بغیر ہم محض اس بنیاد پر کسی کے اصول تفسیر کے صحیح اور غلط ہونے کو طے کرتے ہیں کہ فلاں کی بات سے ہمارا دل جھوم اٹھا اور ہمارا ذہن مطمئن ہو گیا اور ہمیں وہ بہت صحیح لگتا ہے تو ہمارے یہ داخلی احساسات اور طبعی معیارات ہیں، جو علم و عقل کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ ہمارے جاہل ہونے پر ہی دلالت کر سکتے ہیں۔
انسان کے دل کا کیا ہے، وہ تو بہت سے باطل فلسفوں پر بھی جھوم اٹھتا ہے،کروڑوں لوگ صدیوں سے تصوف پر کھڑے جھومتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں دل کا جھومنا اور (کسی فرد کے) ذہن کا مطمئن ہو جانا کوئی معیار نہیں ہے۔اصل معیار اصول فہم کا درست ہونا ہے
(حوالہ : http://www.javedahmadghamidi.com/books/view/lafz-kay-maani-taiy-kernay-ka-sahi-tariqa)