چار قرآنی اصطلاحات : الہ، رب، دین، اور عبادت کی اہمیت

سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی  کتاب " قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات " علوم قرآن  میں بڑی اھمیت رکھتی ہے یہ مواد اس سے ماخوز ہیں ۔ یہ کتاب قرآن کی ان بنیادی اصطلاحات (Terminologies) کو کھولتی ہے جن کے درست فہم پر ایک مسلم فرد اور معاشرے کی کامیابی کی بنیاد ہے۔

 اس کتاب کی اہمیت اس لے بھی ہے کہ عصر حاضر میں خدا کا تصور ، دین و عبادت کو انسان کی شخصی اور انفرادی زندگی تک محدود کرنا جدید تصورات حیات (مغربی جمہوریت ، سرمایہ دارانہ نظام معیشت ، شوشل ازم ، کمیونزم یا اشتراکیت وغیرہ ) کے ایجنڈے کا ایک باقاعدہ حصہ ہے۔ یہ اکتاب ایک طرف اسلام کے آفاقی اور ہمہ گیر تصور کی طرف راہنمائی کرتی ہے تو ساتھ ہی دین کو محض عقائد سے نتھی کر نے اور عبادت کو پوجا پاٹ ، اور چند مذھبی رسم ورواج کا نام دیکر زندگی کے ہر میدان سے الگ کر دینے کی ملحدانہ کوششوں کو بے نقاب کرتی ہے اور دین اسلام کے اصولی نقطہ نظر کو واضح کر تی ہے۔

الٰہ، رب، دین اور عبادت :یہ چار الفاظ قرآن کی اصطلاحی زبان میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کی ساری دعوت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب و الٰہ ہے، اس کے سوا نہ کوئی الٰہ ہے نہ رب، اور نہ الوہیت و ربوبیت میں کوئی اس کا شریک ہے، لہٰذا اسی کو اپنا الٰہ اور رب تسلیم کرو اور اس کے سوا ہر کسی کی الٰہیت اور ربوبیت سے انکار کر دو، اس کی عبادت اختیار کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اس کے لیے اپنے دین کو خالص کر لو اور ہردوسرے دین کو رد کر دو۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ(الانبیاء :۲۵)

"ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کی طرف یہی وحی کی ہے، کہ "میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے لہٰذا میری عبادت کرو”

وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ(التوبہ:۳۱)

"اور ان کو کوئی حکم نہیں دیا گیا بجز اس کے کہ ایک ہی الٰہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، وہ پاک ہے۔ اس شرک سے جو وہ کرتے ہیں "

إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (الانبیاء:۹۲)

"یقیناً تمہارا (یعنی تمام انبیاء کا) یہ گروہ ایک ہی گروہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا میری عبادت کرو"

قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ(انعام:۱۶۴)

"کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی ا ور رب تلاش کروں؟ حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے۔ "

فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَا ءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا۔ (کہف:۱۱۰)

"تو جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی اور کی عبادت شریک نہ کرے۔ "

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ(نحل:۳۶)

"ہم نے ہر قوم میں ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔ "

اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ وَلَهٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ(آل عمران:۸۳)

"تو کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالانکہ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔ سب چار و ناچار اس کی مطیع ہیں اور اسی کی طرف انہیں پلٹ کر جانا ہے۔ "

قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْن (زمر:۱۱)

"(اے نبی ﷺ) کہو، کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے "

اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ(آل عمران:۵۱)

"اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تم سب کا بھی، لہٰذا اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ "

یہ چند آیات محض نمونہ کے طور پر ہیں۔ ورنہ جو شخص قرآن کو پڑھے گا وہ اول نظر میں محسوس کر لے گا کہ قرآن کا سارا بیان انہی چار اصطلاحوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس کتاب کا مرکزی خیالCentral Idea یہی ہے کہ :

اللہ رب اور الٰہ ہے۔ اور ربوبیت و الٰہیت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہے۔ لہٰذا عبادت اسی کی ہونی چاہیے۔ اور دین دین خالصتا اسی کے لیے ہونا چاہیے۔

اب یہ بات ظاہر ہے کہ قرآن کی تعلیم کو سمجھنے کے لیے ان چاروں اصطلاحوں کا صحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا بالکل ناگزیر ہے۔ 

اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ الٰہ اور رب کا مطلب کیا ہے ؟ عبادت کی تعریف کیا ہے ؟ اور دین کسے کہتے ہیں ؟ تو دراصل اس کے لیے پورا قرآن بے معنی ہو جائے گا۔ وہ نہ توحید کو جان سکے گا، نہ شرک کو سمجھ سکے گا، نہ عبادت کو اللہ کے لیے مخصوص کر سکے گا، اور نہ دین ہی اللہ کے لیے خالص کر سکے گا۔

 اسی طرح اگر کسی کے ذہن میں ان اصطلاحوں کا مفہوم غیر واضح اور نامکمل ہو تو اس کے لیے قرآن کی پوری تعلیم غیر واضح ہو گی اور قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود اس کا عقیدہ اور عمل دونوں نامکمل رہ جائیں گے۔ وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا رہے گا اور اس کے باوجود بہت سے ارباب من دون اللہ اس کے رب بنے رہیں گے۔ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا، اور پھر بھی بہت سے معبودوں کی عبادت میں مشغول رہے گا۔ وہ پورے زور کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے دین میں ہوں، اور اگر کسی دوسرے دی کی طرف اسے منسوب کیا جائے تو لڑنے پر آمادہ ہو جائے گا۔ 

مگر اس کے باوجود بہت سے دینوں کا قلادہ اس کی گردن میں پڑا رہے گا۔ اس کی زبان سے کسی غیر اللہ کے لیے "الٰہ” اور "رب” جیسے الفاظ تو کبھی نہ نکلیں گے مگر یہ الفاظ جن معانی کے لیے وضع کیے گئے ہیں ان کے لحاظ سے اس کے بہت سے الٰہ اور رب ہوں گے اور بے چارے کو خبر تک نہ ہو گی کہ میں نے واقعی اللہ کے سوا دوسرے ارباب و الٰہ بنا رکھے ہیں۔ اس کے سامنے اگر آپ کہہ دیں کہ تو دوسروں کی "عبادت” کر رہا ہے اور "دین” میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ پتھر مارنے اور منہ نوچنے کو دوڑے گا مگر عبادت اور د ین کی جو حقیقت ہے اس کے لحاظ سے واقعی وہ دوسروں کا عابد اور دوسروں کے دین میں داخل ہو گا اور نہ جانے گا کہ یہ جو کچھ میں کر ر ہا ہوں یہ حقیقت میں دوسروں کی عبادت ہے اور یہ حالت جس میں میں مبتلا ہوں حقیقت میں غیر اللہ کا دین ہے۔

غلط فہمی کا اصل سبب

عرب میں جب قران پیش کیا گیا تو ہر شخص جانتا تھا کہ الٰہ کے کیا معنی ہیں اور رب کسے کہتے ہیں، کیونکہ یہ دونوں لفظ ان کی بول چال میں پہلے سے مستعمل تھے، انہیں معلوم تھا کہ ان الفاظ کا اطلاق کس مفہوم پر ہوتا ہے، اس لیے جب ان سے کہا گیا اللہ ہی اکیلا الٰہ اور رب ہے اور الوہیت و ربوبیت میں کسی کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہے، تو وہ پوری بات کو پا گئے۔ انہیں بلا کسی التباس و اشتباہ کے معلوم ہو گیا کہ دوسروں کے لیے کس چیز کی نفی کی جا رہی ہے اور اللہ کے لیے کس چیز کو خاص کیا جا رہا ہے۔ جنہوں نے مخالفت کی یہ جان کر کی کہ غیر اللہ کی الوہیت و ربوبیت کے انکار سے کہاں کہاں ضرب پڑتی ہے، اور جو ایمان لائے وہ یہ سمجھ کر ایمان لائے کہ اس عقیدہ کو قبول کر کے ہمیں کیا چھوڑنا اور کیا اختیار کرنا ہو گا۔ اسی طرح عبادت اور دین کے الفاظ بھی ان کی بولی میں پہلے سے رائج تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ عبد کسے کہتے ہیں، عبودیت کس حالت کا نام ہے، عبادت سے کونسا رویہ مراد ہے، اور دین کا کیا مفہوم ہے، اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ سب کی عبادت چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کرو، اور ہر دین سے الگ ہو کر اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ، تو انہیں قران کی دعوت سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش نہ آئی۔ وہ سنتے ہی یہ سمجھ گئے کہ یہ تعلیم ہماری زندگی کے نظام میں کس نوعیت کے تغیر کی طالب ہے۔

لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصل معنی جو نزول قران کے وقتسمجھے جاتے تھے، بدلتے چلے گئے یہاں تک کہ ہر ایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ تو خالص عربیت کے ذوق کی کمی تھی، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام کی سوسائٹی میں جو لوگ پیدا ہوئے تھے ان کے لیے الٰہ اور رب اور دین اور عبادت کے وہ معانی باقی نہ رہے تھے جو نزول قرآن کے وقت غیر مسلم سوسائٹی میں رائج تھے۔ انہی دونوں وجوہ سے دور اخیر کی کتب لغت و تفسیر میں اکثر قرآنی الفاظ کی تشریح اصل معانی لغوی کی بجائے ان معانی سے کی جانے لگی جو بعد کے مسلمان سمجھتے تھے۔ مثلاً:

لفظ الٰہ کو قریب قریب بتوں اور دیوتاؤں کا ہم معنی بنا دیا گیا، رب کو پالنے اور پوسنے والے یا پروردگار کا مترادف ٹھہرایا گیا، عبادت کے معنی پوجا اور پرستش کیے گئے۔

دین کو دھرم اور مذہب اور (religion) کے مقابلہ کا لفظ قرار دیا گیا۔

طاغوت کا ترجمہ بت یا شیطان کیا جانے لگا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کا اصل مدعا ہی سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہو گیا۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو الٰہ نہ بناؤ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بتوں ا ور دیوتاؤں کو چھوڑ دیا ہے لہٰذا قرآن کا منشا پورا کر دیا، حالانکہ الٰہ کا مفہوم اور جن جن چیزوں پر عائد ہوتا ہے ان سب کو وہ اچھی طرح پکڑے ہوئے ہیں اور انہیں خبر نہیں ہے کہ ہم غیر اللہ کو الٰہ بنا رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو رب تسلیم نہ کرو۔ لوگ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے سوا کسی کو پروردگار نہیں مانتے لہٰذا ہماری توحید مکمل ہو گئی، حالانکہ رب کا اطلاق اور جن مفہومات پر ہوتا ہے ان کے لحاظ سے اکثر لوگوں نے خد اکی بجائے دوسروں کی ربوبیت تسلیم کر رکھی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ طاغوت کی عبادت کو چھوڑ دو اور صرف اللہ کی عبادت کرو۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بتوں کو نہیں پوجتے، شیطان پر لعنت بھیجتے ہیں، اور صرف اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، لہٰذا ہم نے قران کی یہ بات بھی پوری کر دی، حالانکہ پتھر کے بتوں کے سوا دوسرے طاغوتوں سے وہ چمٹے ہوئے ہیں اور پرستش کے سوا دوسری قسم کی تمام عبادتیں انہوں نے اللہ کی بجائے غیر اللہ کے لیے خاص کر رکھی ہیں۔ یہی حال دین کا ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خاص کرنے کا مطلب صرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی”مذہب اسلام” قبول کر لے اور ہندو یا عیسائی یا یہودی نہ رہے۔ اس بنا پر ہر وہ شخص جو "مذہب اسلام” میں ہے یہ سمجھ رہا ہے کہ میں نے اللہ کے لیے دین کو خالص کر رکھا ہے، حالانکہ دین کے وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کا دین اللہ کے لیے خالص نہیں ہے۔

غلط فہمی کے نتائج

پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی(۴/۳) سے زیادہ تعلیم بلکہ اس کی روح نگاہوں سے مستور ہو گئی ہے، اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد و اعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی مرکزی تعلیم اور اس کے حقیقی مدعا کو واضح کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان اصطلاحوں کی پوری پوری تشریح کی جائے۔

اگرچہ میں اس سلسلے میں اس سے پہلے اپنے متعدد مضامین میں ان کے مفہوم پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر چکا ہوں۔ لیکن جو کچھ اب تک میں نے بیان کیا ہے وہ نہ تو بجائے خود تمام غلط فہمیوں کو صاف کرنے کے لیے کافی ہے، اور نہ اس سے لوگوں کو پوری طرح اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس مضمون میں میں کوشش کروں گا کہ ان چار اصطلاحوں کا مکمل مفہوم واضح کر دوں، اور کوئی ایسی بات بیان نہ کروں جس کا ثبوت لغت اور قرآن سے نہ ملتا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔