اللہ تعالی کا ایک نبی کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتاہے؟

اللہ  کاایک نبی کےساتھ اور ایک نبی  کاخلق خدا کےساتھ کیا برتاؤ ہوتاہے؟  

 سُورَۃ ُالضُّحیٰ کی روشنی میں 

نام :
پہلے ہی لفظ والضحٰی کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ 
زمانۂ نزول :
اس کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا تھا جس سے حضور سخت پریشان ہو گئے تھے اور بار بار آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو رہا تھا کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا جس کی وجہ سے میرا رب مجھ سے ناراض ہوگیا ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ وحی کے نزول کا سلسلہ کسی ناراضی کی بنا پر نہیں روکا گیا تھا، بلکہ اس میں وہی مصلحت کارفرما تھی جو روزِ روشن کے بعد رات کا سکون طاری کرنے میں کارفرما ہے۔ یعنی وحی کی تیز روشنی اگر آپ پر برابر پڑتی رہتی تو آپ کے اعصاب اسے برداشت نہ کر سکتے۔ اس لیے بیچ میں وقفہ دیا گیا تاکہ آپ کو سکون مل جائے۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نبوت کے ابتدائی دور میں گزرتی تھی جبکہ ابھی آپ کو وحی کے نزول کی شدت برداشت کرنے کی عادت نہیں پڑی تھی، اس بنا پر بیچ بیچ میں وقفہ دینا ضروری ہوتا تھا۔ (نزول وحی کا کس قدر شدید بار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعصاب پر پڑتا تھا اس کے لیے دیکھیے مضمون سورۂ مدثر اور مطالعہ کیجیے سورۂ مزمل) بعد میں جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اندر اس بار کو برداشت کرنے کا تحمل پیدا ہو گیا تو طویل وقفے دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

موضوع اور مضمون :
اس کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تسلی دینا ہے اور مقصد اُس پریشانی کو دور کرنا ہے جو نزولِ وحی کا سلسلہ رک جانے سے آپ کو لاحق ہو گئی تھی۔ سب سے پہلے روزِ روشن اور سکونِ شب کی قسم کھا کر آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو ہر گز نہیں چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ کو خوشخبری دی گئی ہے کہ دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور میں جن شدید مشکلات سے آپ کو سابقہ پیش آ رہا ہے یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ آپ کے لیے ہر بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہوتا چلا جائے گا اور کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ اللہ تعالٰی آپ پر اپنی عطا و بخشش کی ایسی بارش کرے گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔ یہ قرآن کی ان صریح پیشینگوئیوں میں سے ایک ہے جو بعد میں حرف بحرف پوری ہوئیں، حالانکہ جس وقت یہ پیشینگوئی کی گئی تھی اس وقت کہیں دور دور بھی اس کے آثار نظر نہ آتے تھے کہ مکہ میں جو بے یار و مددگار انسان پوری قوم کی جاہلیت کے مقابلے میں برسر پیکار ہو گیا ہے اسے اتنی حیرت انگیز کامیابی نصیب ہوگی۔
اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا ہے کہ تمہیں یہ پریشانی کیسے لاحق ہو گئی کہ ہم نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور ہم تم سے ناراض ہو گئے ہیں۔ ہم تو تمہارے روز پیدائش سے مسلسل تم پر مہربانیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تم یتیم پیدا ہوئے تھے، ہم نے تمہاری پرورش اور خبر گیری کا بہترین انتظام کر دیا۔ تم ناواقفِ راہ تھے، ہم نے تمہیں راستہ بتایا۔ تم نادار تھے، ہم نے تمہیں مالدار بنایا۔ یہ ساری باتیں صاف بتا رہی ہیں کہ تم ابتدا سے ہمارے منظور نظر ہو اور ہمارا فضل و کرم مستقل طور پر تمہارے شامل حال ہے۔ اس مقام پر سورۂ طٰہٰ آیات 37 تا 42 کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے جبار کے مقابلہ میں بھیجتے وقت اللہ تعالٰی نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لیے انہیں بتایا ہے کہ کس طرح تمہاری پیدائش کے وقت سے ہماری مہربانیاں تمہارے شامل حال رہی ہیں، اس لیے تم اطمینان رکھو کہ اس خوفناک مہم میں تم اکیلے نہ ہو گے بلکہ ہمارا فضل تمہارے ساتھ ہوگا۔
آخر میں اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتایا ہے کہ جو احسانات ہم نے تم پر کیے ہیں ان کے جواب میں خلق خدا کے ساتھ تمہارا برتاؤ کیا ہونا چاہیے، اور ہماری نعمتوں کا شکر تمہیں کس طرح ادا کرنا چاہیے۔






بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی ۙ﴿۲﴾ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾ وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی ؕ﴿۴﴾ وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾ اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ۪﴿۶﴾ وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾ فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕ﴿۹﴾ وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ﴿ؕ۱۰﴾ وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪۱۱﴾

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
قسم ہے روزِ روشن کی1 اور رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے2﴿ اے نبی ؐ ﴾ تمہارے ربّ نے تم کو ہر گز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا3۔ اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے4، اور عنقریب تمہارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاوٴ گے5۔ کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھِکانا فراہم کیا6؟ اور تمہیں ناواقفِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی7۔ اور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا8۔ لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو9، اور سائل کو نہ جھِڑکو10، اور اپنے ربّ کی نعمت کا اظہار کرو11۔ ؏١

(ماخوز از تفہیم القرآن جلد 6 ، مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ )