محمد رسول اللہ ﷺکی شخصیت سورۃ الانشراح کی روشنی میں


                                                                    بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ   


اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ ۙ﴿۱﴾ وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡۤ اَنۡقَضَ ظَہۡرَکَ ۙ﴿۳﴾ وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ﴿۴﴾ فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ۙ﴿۵﴾ اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ؕ﴿۶﴾ فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ ﴿۷﴾ وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارۡغَبۡ ﴿۸﴾

﴿اے نبی ؐ ﴾ کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں دیا1؟ اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اُتار دیا جو تمہاری کمر توڑ ڈال رہا تھا اور تمہاری خاطر تمہارے ذِکر کا آواز  بلند کر دیا پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے لہٰذا جب تم فارغ ہو تو عبادت کی مشقت میں لگ جاوٴ اور اپنے ربّ ہی کی طرف راغب ہو 

----------------
حواشی :

1 -  اس سوال سے کلام کا آغاز ، اور پھر بعد کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس زمانے میں ان شدید مشکلات پر سخت پریشان تھے جو دعوت اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد ابتدائی دور میں آپ کو پیش آ رہی تھیں۔ ان حالات میں اللہ تعالی نے آپ کو مخاطب کر کے تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے نبی، کیا ہم نے یہ اور یہ عنایات تم پر نہیں کی ہیں؟ پھر ان ابتدائی مشکلات پر تم پریشان کیوں ہوتے ہو؟




سینہ کھولنے کا لفظ قرآن مجید میں جن مواقع پر آیا ہے ان پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو معنی ہیں:

(1) سورۃ انعام آیت 125 میں فرمایا ’’فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ‘‘’’پس جس شخص کو ا للہ تعالی ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے کھول دیتا ہے‘‘۔ اور سورہ زمر آیت 22 میں فرمایا ’’أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ‘‘’’تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو پھر وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔ ان دونوں مقامات پر شرح صدر سے مراد ہر قسم کے ذہنی خلجان اور تردد سے پاک ہو کر اس بات پر پوری طرح مطمئن ہو جانا ہے کہ ا سلام کا راستہ ہی برحق ہے اور وہی عقائد ، وہی اصول اخلاق و تہذیب و تمدن، اور وہی ا حکام و ہدایات بالکل صحیح ہیں جو اسلام نے انسان کو دیے ہیں۔

(2) سورہ شعراء آیت 12۔13 میں ذکر آیا ہے کہ حضرت موسیؑ کو جب اللہ تعالی نبوت کے منصب عظیم پر مامور کر کے فرعون اور اس کی عظیم سلطنت سے جا ٹکرانے کا حکم دے رہا تھا تو انہوں نے عرض کیا ’’قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ  و يَضِيقُ صَدْرِي‘‘’’میرے رب، میں ڈرتا ہو کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے‘‘۔

 اور سورہ طہ آیات 25۔26 میں بیان کیا گیا ہے کہ اسی موقع پر حضرت موسی نے اللہ تعالی سے دعا مانگی کہ ’’رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي  يَسِّرْ لِي أَمْرِي‘‘’’ میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر د ے‘‘۔ یہاں سینے کی تنگی سے مراد یہ ہے کہ نبوت جیسے کارِ عظیم کا بار سنبھالنے ا ور تن تنہا کفر کی ایک جابر و قاہر طاقت سے ٹکر لینے کی آدمی کو ہمت نہ پڑ رہی ہو۔ اور شرحِ صدر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہو جائے، کسی بڑی سے بڑی مہم پر جانے اور کسی سخت سے سخت کام کو انجام دینے میں بھی اسے تامل نہ ہو، اور نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کی اس میں ہمت پیدا ہو جائے۔

غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ ﷺ مشرکین عرب ، نصاری، یہود، مجوس، سب کے مذہت کو غلط سمجھتے تھے، اور اس حنیفیت پر بھی مطمئن نہ تھے جو عرب کے بعض قائلین توحید میں پائی جاتی تھی ، کیونکہ یہ ا یک مبہم عقیدہ تھا جس میں راہ راست کی کوئی تفصیل نہ ملتی تھی (اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، السجدہ، حاشیہ 5 کر چکے ہیں)، لیکن آپ کو چونکہ خود یہ معلوم نہ تھا کہ راہ راست کیا ہے، اس لیے آپ سخت ذہنی خلجان میں مبتلا تھے۔ نبوت عطا کر کے ا للہ تعالی نے آپ کو اس خلجان کو دور کر دیا اور وہ راہِ راست کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی جس سے آپ کو کامل اطمینان قلب حاصل ہو گیا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت عطا کرنے کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو وہ حوصلہ ، وہ ہمت ، وہ اولولعزمی اور وہ وسعت ِ قلب عطا فرما دی جو اس منصبِ عظیم کی ذ مہ داریاں سنبھالنے کے لیے درکار تھی۔ آپ اس وسیع علم کے حامل ہو گئے جو آپ کے سوا کسی انسان کے ذہن میں سما نہ سکتا تھا۔ آپ کو وہ حکمت نصیب ہو گئی جو بڑے سے بڑے بگاڑ کو دور کرنے اور سنوار دینے کی اہلیت رکھتی تھی۔ آپ اس قابل ہو گئے کہ جاہلیت میں مستغرق اور جہالت کے اعتبار سے انتہائی اکھڑ معاشرے میں کسی سرو سامان ا ور ظاہراً کسی پشت پناہ طاقت کی مدد کے بغیر اسلام کے علمبردار بن کر کھڑے ہو جائیں، مخالفت اور دشمنی کے کسی بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کرنے سے نہ ہچکچائیں، اس راہ میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیں، اور کوئی طاقت آپ کو اپنے موقف سے نہ ہٹا سکے۔ یہ شرح صدر کی بیش بہا دولت جب اللہ نے آپ کو عطا کر دی ہے تو آپ ان مشکلات پر دل گرفتہ کیوں ہوتے ہیں جو آغاز کار کے اس مرحلے میں پیش آ رہی ہیں۔
بعض مفسرین نے شرح صدر کو شق صدر کے معنی میں لیا ہے اور اس آیت کو اس معجزہ شق صدر کا ثبوت قرار دیا ہے جو احادیث کی روایات میں بیان ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معجزے کے ثبوت کا مداراحادیث کی روایات ہی پر ہے قرآن سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے لحاظ سے شرح صدر کو کسی طرح بھی شق صدر کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا۔ علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ ’’حمل الشرح فی الایۃ علی شق الصدر ضعیف عند المحققین‘‘’’محققین کے نزدیک اس آیت میں شرح کو شقِ صدر پر محول کرنا ایک کمزور بات ہے‘‘۔


2-   مفسرین میں سے بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبوت سے پہلے ایام جاہلیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ قصور ا یسے ہو گئے تھے جن کی فکر آپ کو سخت گراں گزر رہی تھی اور یہ آیت نازل کر کے ا للہ تعالی نے آپ کو مطمئن کردیا کہ آپ کے وہ قصور ہم نے معاف کر دیے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ معنی لینا سخت غلطی ہے۔ اول تو لفظ وزر کے معنی لازماً گناہ ہی کے نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ بھاری بوجھ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو خواہ مخواہ برے معنی میں لیا جائے۔ دوسرے حضورؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی اس قدر پاکیزہ تھی کہ قرآن میں مخالفین کے سامنے اس کو ایک چلینج کے طور پر پیش کیا گیا تھا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کفار کو مخاطب کر کے یہ کہوایا گیا کہ ’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ‘‘’’میں اس قرآن کو پیش کرنے سے پہلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں‘‘(یونس آیت 16) اور حضور اس کردار کے انسان بھی نہ تھے کہ لوگوں سے چھپ کر آپ نے کوئی گناہ کیا ہو۔ معاذ اللہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی تو اس سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا کہ جو شخص کوئی چھپا ہوا داغ اپنے دامن پر لیے ہوئے ہوتا اس سے خلق خدا کے سامےن بر ملا وہ بات کہلواتا جو سورہ یونس کی مذکورہ بالا آیت میں اس نے کہلوائی ہے۔

پس درحقیقت اس آیت میں وزر کے صحیح معنی بھاری بوجھ کے ہیں اور اس سے مراد رنج و غم اور فکر و پریشانی کا وہ بوجھ ہے جو اپنی قوم کی جہالت و جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حساس طبیعت پر پڑ رہا تھا آپ کے سامنے بت پوجے جا رہے تھے۔ شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم کا بازار گرم تھا۔ اخلاق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ معاشرت میں ظلم اور معاملات میں فساد عام تھا۔ زور د اروں کی زیادتیوں سے بے زور پس رہے تھے۔ لڑکیاں زنددفن کی جا رہی تھیں۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے تھے اور بعض اوقات سو سو برس تک انتقامی لڑائیوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ کسی کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط جتھا نہ ہو۔ یہ حالت دیکھ کر آپ کڑھتے تھے مگر اس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی صورت آپ کو نظر نہ آتی تھی۔

یہی فکر آپ کی کمر توڑے ڈال رہی تھی جس کا بارِ گراں اللہ تعالی نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپ کے اوپر سے اتار دیا ا ور نبوت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ توحید ا ور آخرت اور رسالت پر ا یمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا سکتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی کی اس رہنمائی نے آپ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ اس ذریعہ سے آپ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو ان خرابیوں سے نکلا سکتے ہیں جن میں اس وقت عرب سے باہر کی بھی ساری دنیا مبتلا تھی۔

3-   یہ بات اس زمانہ میں فرمائی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس فرد فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں اس کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہو گا ا ور کیسی ناموری اس کو حاصل ہو گی۔ لیکن اللہ تعالی نے ان حالات میں رسول اللہ صلی ا للہ علیہ و سلم کو یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اس کو پورا کیا۔ سب سے پہلے آپ کے رفعِ ذکر کا کام اس نے خود آپ کے دشمنوں سے لیا۔

کفار مکہ نے آپ کو زک دینے کے لیے جو طریقے اختیارکیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ کھچ کھچ کر ان کے شہر میں آتے تھے، اس زمانہ میں کفار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد (ﷺ) نامی ہے جو لوگوں پر ایسا جادو کرتا ہے کہ باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے، اس لیے ذرا اس سے بچ کر رہنا۔ یہی باتیں وہ ان سب لوگوں سے بھی کہتے تھے جو حج کے سوا دوسرے دنوں میں زیادرت ، یا کسی کاروبار کے سلسلے میں مکہ آتے تھے۔

اس طرح ا گرچہ وہ حضورؐ کو بدنام کر رہے تھے، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے میں آپ کا نام پہنچ گیا اور مکہ کے گوشہ گمنامی سے نکال کر خود دشمنوں نے آپ کو تمام ملک کے قبائل سے متعارف کرا دیا۔ اس کے بعد یہ بالکل فطری امر تھا کہ لوگ یہ معلوم کریں کہ وہ شخص ہے کون؟ کیا کہتا ہے؟ کیسا آدمی ہے؟ اس کے ’’جادو‘‘ سے متاثر ہونے والے کون لوگ ہیں اور ان پر اس کے ’’جادو‘‘ کا آخر کیا اثر پڑا ہے؟ کفار مکہ کا پروپیگنڈا جتنا جتنا بڑھتا چلا گیا لوگوں میں یہ جستجو بڑھتی چلی گئی ۔ پھر جب اس جستجو کے نتیجے میں لوگوں کو آپ کے اخلاق اور آپ کی سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا، جب لوگوں نے قرآن سنا اور انہیں پتہ چلا کہ وہ تعلیمات کیا ہیں جو آپ پیش فرما رہے ہیں، اور جب دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جس چیز کو جادو کہا جا رہا ہے اس سے متاثر ہونے والوں کی زندگیاں عرب کے عام لوگوں کی زندگیوں سے کس قدر مختلف ہو گئی ہیں، تو وہی بد نامی نیک نامی سے بدلتی شروع ہو گئی۔

حتی کہ ہجرت کا زمانہ آنے تک نوبت یہ پہنچ گئی کہ دور و نزدیک کے عرب قبائل میں شاید ہی کوئی قبلیہ ایسا رہ گیا ہو جس میں کسی نہ کسی شخص یا کنبے نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو، اور جس میں کچھ نہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ سے اور آپ کی دعوت سے ہمدردی و دلچسپی رکھنے والے پیدا نہ ہو گئے ہوں۔ یہ حضورؐ کے رفع ذکر کا پہلا مرحلہ تھا۔

اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں ایک طرف منافقین یہود اور تمام عرب کے ا کابر مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بد نام کرنے میں سرگرم تھے ، اور دوسری طرف مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست خدا پرستی و خدا ترسی ، زہد و تقوی، طہارت اخلاق، حسن معاشرت، عدل و انصاف، انسانی مساوات، مالداروں کی فیاضی، غریبوں کی خبر گیری، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں راستبازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا رہا تھا۔ دشمنوں نے جنگ کے ذریعہ سے حضورؐ کے اس بڑھنے ہوئے اثر کو مٹانے کی کوشش کی مگر آپ کی قیادت میں اہل ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی اس نے ا پنے نظم و ضبط ، اپنی شجاعت ، اپنی موت سے بے خوفی، اور حالت جنگ تک میں اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری اس طرح ثابت کر دی کہ سا رے ع رب نے ان کا لوہا مان لیا۔ 10 سال کے اندر حضورؐ کا رفع ذکر اس طرح ہوا کہ وہی ملک جس میں آپ کو بدنام کرنے کے لیے مخالفین نے ا پنا سارا زور لگایا تھا اس کا گوشہ گوشہ اشھد ان محمداً رسول اللہ کی صدا سے گونج اٹھا۔ پھر تیسرے مرحلے کا افتتاح خلافت راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ کا نامِ مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتاجا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا۔

دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں بآواز بلند محمد ﷺ کی رسالت کا ا علان نہ ہو رہا ہو، نمازوں میں حضورؐ پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جا ر ہا ہو، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضورؐ کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔

 قرآن کی صداقت کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ و رفعنالک ذکرک اس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ رفع ذکر اس شان سے اور اتنے بڑے پیمانے پر ہو گا۔ حدیث میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، ’’جبریل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رفع ذکر کیا؟ میں نے عرض کیا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کا ا رشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جا ئے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جا ئے گا‘‘۔ (ابن جریر، ابن ابی حاتم، مسند ابو یعلی، ابن المنذر ، ابن حبان، ابن مردویہ، ابو نعیم۔ بعد کی پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی۔


  اس بات کو دو مرتبہ د ہرایا گیا ہے تاکہ حضورؐ کوپوری طرح تسلی دے دی جائے کہ جن سخت حالات سے آپ اس وقت گزر رہے ہیں یہ زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کے بعد قریب ہی میں اچھے حالات آنے والے ہیں۔ بظاہر یہ بات متناقض معلوم ہوتا ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی ہو، کیونکہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوتیں۔ لیکن تنگی کے بعد فراخی کہنے کے بجائے تنگی کے ساتھ فراخی کے الفاظ اس معنی میں استعمال کیے گئے ہیں کہ فراخی کا دور اس قدر قریب ہے  کہ گویا وہ اس کے ساتھ ہی چلا آ رہا ہے۔

 5 ۔  فارغ ہونے سے مراد اپنے مشاغل سے فارغ ہونا ہے، خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے مشاغل ہوں یا اسلام قبول کرنے و الوں کی تعلیم و تربیت کے مشاغل ، یا اپنے گھر بار اور دنیوی کاموں کے مشاغل۔ حکم کا منشا یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو اپنا فارغ وقت عبادت کی ریاضت و مشقت میں صرف کرو اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔


------------------

 (ماخوز از تفہیم القرآن جلد 6 ، تفسیر سورۃ الانشراح ،  مفکراسلام سید ابوالاعلی مودودی ؒ )