دنیا میں انسان کی حیثیت - مفکراسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ

دنیا میں انسان کی حیثیت سُورَۃُ البلَد کی روشنی 

اس سورت میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے اور یہ قرآن کا کمال ایجاز ہے کہ ایک پورا نظریۂ حیات، جسے مشکل سے ایک ضخیم کتاب میں بیان کیا جا سکتا تھا، اس چھوٹی سی سورت کے چھوٹے چھوٹے فقروں میں نہایت مؤثر طریقے سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کا موضوع دنیا میں انسان کی، اور انسان کے لیے دنیا کی صحیح حیثیت سمجھانا اور یہ بتانا ہے کہ خدا نے انسان کے لیے سعادت اور شقاوت کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیے ہیں، ان کو دیکھنے اور ان پر چلنے کے وسائل بھی اسے فراہم کر کر دیے ہیں، اور اب یہ انسان کی اپنی کوشش اور محنت پر موقوف ہے کہ وہ سعادت کی راہ پر چل کر اچھے انجام کو پہنچتا ہے یا شقاوت کی راہ اختیار کر کے برے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔
سب سے پہلے شہر مکہ اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر گزرنے والے مصائب اور پوری اولادِ آدم کی حالت کو اِس حقیقت پر گواہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے آرام گاہ نہیں ہے جس میں وہ مزے اڑانے کے لیے پیدا کیا گیا ہو، بلکہ یہاں اس کی پیدائش ہی مشقت کی حالت میں ہوئی ہے۔ اس مضمون کو اگر سورۂ نجم کی آیت 39 لیس للانسان الا ما سعٰی کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کارگاہ دنیا میں انسان کے مستقبل کا انحصار اس کی سعی و کوشش اور محنت و مشقت پر ہے۔

اس کے بعد انسان کی یہ غلط فہمی دور کی گئی ہے کہ یہاں بس وہی وہ ہے اور اوپر کوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جو اس کے کام کی نگرانی کرنے والی اور اس پر مواخذہ کرنے والی ہو۔

پھر انسان کے بہت سے جاہلانہ تصورات میں سے ایک چیز کو بطور مثال لے کر بتایا گیا ہے کہ دنیا میں اس نے بڑائی اور فضیلت کے کیسے غلط معیار تجویز کر رکھے ہیں۔ جو شخص اپنی کبریائی کی نمائش کے لیے ڈھیروں مال لٹاتا ہے وہ خود بھی اپنی اِن شاہ خرچیوں پر فخر کرتا ہے اور لوگ بھی اسے خوب داد دیتے ہیں، حالانکہ جو ہستی اس کے کام کی نگرانی کر رہی ہے وہ یہ دیکھتی ہے کہ اس نے یہ مال کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں کس نیت اور کن اغراض کے لیے خرچ کیا۔

اس کے بعد اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو علم کے ذرائع اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دے کر اس کے سامنے بھلائی اور برائی کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیے ہیں۔ ایک راستہ وہ ہے جو اخلاق کی پستیوں کی طرف جاتا ہے اور اس پر جانے کے لیے کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی بلکہ نفس کو خوب لذت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرا راستہ اخلاق کی بلندیوں کی طرف جاتا ہے جو ایک دشوار گزار گھاٹی کی طرح ہے کہ اس پر چلنے کے لیے آدمی کو اپنے نفس پر جبر کرنا پڑتا ہے۔ یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ اس گھاٹی پر چڑھنے کی بہ نسبت کھڈ میں لڑھکنے کو ترجیح دیتا ہے۔

پھر اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ وہ گھاٹی کیا ہے جس سے گزر کر آدمی بلندیوں کی طرف جا سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریا اور فخر اور نمائش کے خرچ چھوڑ کر آدمی اپنا مال یتیموں اور مسکینوں کی مدد پر خرچ کرے، اللہ اور اس کے دین پر ایمان لائے، اور ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں حصہ لے جو صبر کے ساتھ حق پرستی کے تقاضوں کو پورا کرنے والا اور خلق پر رحم کھانے والا ہو۔ اس راستے پر چلنے والوں کا انجام یہ ہے کہ آدمی اللہ کی رحمتوں کا مستحق ہو، اور اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کرنے والوں کا انجام دوزخ کی آگ ہے جس سے نکلنے کے سارے دروازے بند ہیں۔


(مزید تفسیری حاشیوں کے لیے ترجمہ میں درج نمبرپر کلک کریں )


بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾ وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ﴿۳﴾ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾ اَیَحۡسَبُ اَنۡ لَّنۡ یَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ اَحَدٌ ۘ﴿۵﴾ یَقُوۡلُ اَہۡلَکۡتُ مَالًا لُّبَدًا ؕ﴿۶﴾ اَیَحۡسَبُ اَنۡ لَّمۡ یَرَہٗۤ اَحَدٌ ؕ﴿۷﴾ اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿۹﴾ وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾ فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۫ۖ۱۱﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾ فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾ اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾ یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾ اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ﴿ؕ۱۸﴾ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا ہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ ﴿ؕ۱۹﴾ عَلَیۡہِمۡ نَارٌ مُّؤۡصَدَۃٌ ﴿٪۲۰﴾


اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔


نہیں1، میں قسم کھاتا ہوں اِس شہر کی2 اور حال یہ ہے کہ ﴿اے نبی ؐ ﴾ اِس شہر میں تم کو حلال کر لیا گیا ہے3، اور قسم کھاتا ہوں باپ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی4، درحقیقت ہم نے انسان کو مشقّت میں پیدا کیا ہے5۔ کیا اُس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اُس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا6؟ کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اُڑا دیا7۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اُس کو نہیں دیکھا8؟ کیا ہم نے اُسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے9؟ اور دونوں نمایاں راستے اُسے ﴿نہیں ﴾ دکھا دیے10؟ مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمّت نہ کی11۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھُڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا12۔ پھر ﴿اِس کے ساتھ یہ کہ ﴾ آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے13 اور جنہوں نے ایک دُوسرے کو صبر اور ﴿خلقِ خدا پر﴾ رحم کی تلقین کی14۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔ اور جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا وہ بائیں بازو والے ہیں15، ان پر آگ چھائی ہوئی16 ہو گی۔ ؏١



( تفہیم القرآن جلد 6 ،)