توحید کی دعوت

توحید کی دعوت ، قیامت اور احوال قیامت کی تصویرسُورَۃ ُ الغاَشِیہ  کی روشنی میں  

نام :

پہلی ہی آیت کے لفظ الغاشیۃ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ کی روشنی میں
زمانہ نزول :

سورت کا پورا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بھی ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تبلیغِ عام شروع کر چکے تھے اور مکہ کے لوگ بالعموم اسے سن سن کر نظر انداز کیے جا رہے تھے۔
موضوع اور مضمون :

اس کے موضوع کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تبلیغ زیادہ تر دو ہی باتیں لوگوں کے ذہن نشین کرنے پر مرکوز تھی۔ ایک توحید، دوسرے آخرت اور اہل مکہ ان دونوں باتوں کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد اب اس سورت کے مضمون اور انداز بیاں پر غور کیجیے۔
اس میں سب سے پہلے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانے کے لیے اچانک ان کے سامنے ایک سوال پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں اس وقت کی بھی کچھ خبر ہے جب سارے عالم پر چھا جانے والی ایک آفت نازل ہوگی؟ اس کے بعد فوراً بعد ہی تفصیل بیان کرنی شروع کر دی گئی ہے کہ اس وقت سارے انسان دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر دو مختلف انجام دیکھیں گے۔ ایک وہ جو جہنم میں جائیں گے اور انہیں ایسے اور ایسے سخت عذاب جھیلنے ہوں گے۔ دوسرے وہ جو عالی مقام جنت میں جائیں گے اور ان کو ایسی اور ایسی نعمتیں میسر ہوں گی۔
اس طرح لوگوں کو چونکانے کے بعد یکلخت مضمون تبدیل ہوتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے کہ کیا یہ لوگ جو قرآن کی تعلیمِ توحید اور خبرِ آخرت کو سن کر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں، اپنے سامنے کی ان چیزوں کو نہیں دیکھتے جن سے ہر وقت انہیں سابقہ پیش آتا ہے؟ عرب کے صحرا میں جن اونٹوں پر ان کی ساری زندگی کا انحصار ہے، کبھی یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ کیسے ٹھیک انہیں خصوصیات کے مطابق بن گئے جیسی خصوصیات کے جانور کی ضرورت ان کی صحرائی زندگی کے لیے تھی؟ اپنے سفروں میں جب یہ چلتے ہیں تو انہیں یہ آسمان نظر  آتا ہے، یا پہاڑ، یا زمین۔ انہی تین چیزوں پر یہ غور کریں۔ اوپر یہ آسمان کیسے چھا گیا؟ سامنے یہ پہاڑ کیسے کھڑے ہو گئے؟ نیچے یہ زمین کیسے بچھ گئی؟ کیا یہ سب کچھ کسی قادر مطلق صانعِ حکیم کی کاریگری کے بغیر ہو گیا ہے؟ اگر یہ مانتے ہیں کہ ایک خالق نے بڑی حکمت اور بڑی قدرت کے ساتھ ان چیزوں کو بنایا ہے، اور کوئی دوسرا ان کی تخلیق میں شریک نہیں ہے، تو اسی کو اکیلا رب ماننے سے انہیں کیوں انکار ہے؟ اور اگر یہ مانتے ہیں کہ وہ خدا یہ سب کچھ پیدا کرنے پر قادر تھا، تو آخر کس معقول دلیل سے انہیں یہ ماننے میں تامل ہے کہ وہی خدا قیامت لانے پربھی قادر ہے؟ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے؟ جنت اور دوزخ بنانے پر بھی قادر ہے؟
اس مختصر اور نہایت معقول استدلال سے بات سمجھانے کے بعد کفار کی طرف سے رخ پھیر کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کیا جاتا ہے اور آپ سے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں، تم ان پر جبار بنا کر تو مسلط کیے نہیں گئے ہو کہ زبردستی ان سے منوا کر ہی چھوڑو۔ تمہارا کام نصیحت کرنا ہے، سو تم نصیحت کیے جاؤ۔ آخرکار انہیں آنا ہمارے ہی پاس ہے۔ اس وقت ہم ان سے پورا پورا حساب لیں گے اور نہ ماننے والوں کو بھاری سزا دیں گے۔
(مزید تفسیری حاشیوں کے لے ترجمہ میں درج نمبروں پر کلک کریں )





بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾ تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾ تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ ؕ﴿۵﴾ لَیۡسَ لَہُمۡ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَرِیۡعٍ ۙ﴿۶﴾ لَّا یُسۡمِنُ وَ لَا یُغۡنِیۡ مِنۡ جُوۡعٍ ؕ﴿۷﴾ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۙ﴿۸﴾ لِّسَعۡیِہَا رَاضِیَۃٌ ۙ﴿۹﴾ فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۱۰﴾ لَّا تَسۡمَعُ فِیۡہَا لَاغِیَۃً ﴿ؕ۱۱﴾ فِیۡہَا عَیۡنٌ جَارِیَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾ فِیۡہَا سُرُرٌ مَّرۡفُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾ وَّ اَکۡوَابٌ مَّوۡضُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾ وَّ نَمَارِقُ مَصۡفُوۡفَۃٌ ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ زَرَابِیُّ مَبۡثُوۡثَۃٌ ﴿ؕ۱۶﴾ اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿ٝ۱۷﴾ وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸﴾ وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾ وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾ فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾ لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾ اِلَّا مَنۡ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ ﴿ۙ۲۳﴾ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الۡعَذَابَ الۡاَکۡبَرَ ﴿ؕ۲۴﴾ اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ﴿ۙ۲۵﴾ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ ﴿٪۲۶﴾

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
کیا تمہیں اُس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے1 ؟ کچھ چہرے2 اُس روز خوف زدہ ہوں گے، سخت مشقت کر رہے ہوں گے، تھکے جاتے ہوں گے، شدید آگ میں جھُلس رہے ہوں گے، کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کو دیا جائے گا، خاردار سُوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا اُن کے لیے نہ3 ہوگا، جو نہ موٹا کرے نہ بھُوک مٹائے ۔ کچھ چہرے اُس روز بارونق ہوں گے، اپنی کار گزاری پر خوش ہوں گے4، عالی مقام جنّت میں ہوں گے، کوئی بےہودہ بات وہاں نہ سُنیں گے5، اُس میں چشمے رواں ہوں گے، اُس کے اندر اُونچی مسندیں ہوں گی، ساغر رکھے ہوئے ہوں گے6، گاوٴ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی اور نفیس فرش بچھے ہوئے ہوں گے۔
﴿یہ لوگ نہیں مانتے﴾ تو کیا یہ اُونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اُٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی7؟
اچھاتو ﴿اے نبی ؐ ﴾ نصیحت کیے جاوٴ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو8۔ البتہ جو شخص منہ موڑے گا اور انکار کرے گا تو اللہ اس کی بھاری سزا دے گا۔ اِن لوگوں کو پلٹنا ہماری طرف ہی ہے، پھر اِن کا حساب لینا ہمارے ہی ذمّہ ہے۔ ؏

(ماخوز از تفہیم القرآن جلد 6 ، مفکراسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ )

 اس موضوع سے متعلق مزید مطالعہ کریں :

1-  آخرت کی جزا اور سزا کا اثبات سورۃ الفجر کی روشنی میں