نزول قرآن کے وقت غیر ضروری سوالات کی ممانعت


نزول قرآن کے وقت غیر ضروری سوالات  میں پڑنے کی ممانعت


ارشاد باری تعالی ہے :   يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ  وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۔ قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِيْنَ۔   (سورۃ المائدۃ :101، 102)

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں،  لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا، وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے ۔ تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے۔ "

  غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی (دینی مسائل جاننے کا)صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیا گیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیا جائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود و قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے ۔(1)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔ مثلاً ایک موقع پر ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ بیٹھے کہ”میرا اصلی باپ کون ہے؟“ اسی طرح بعض لوگ احکام شرع میں غیر ضروری پوچھ گچھ کیا کرتے تھے، اور خواہ مخواہ پوچھ پوچھ کر ایسی چیزوں کا تعین کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معین رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں مجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے حکم سنتے ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر خاموش ہوگئے۔ تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ”تم پر افسوس ہے۔ اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کرسکو گے اور نافرمانی کرنے لگو گے“۔۔۔۔۔۔۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے۔ " ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ۔ ”  مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی“۔
 ایک دوسری حدیث میں ہے۔ "  ان اللہ فرض فرائض فلا تضیعوھا و حرم حرمات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا۔”
"اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں، انہیں ضائع نہ کرو۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ “۔

 ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے۔ جن امور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی، یا جو احکام برسبیل اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا ہے، ان میں اجمال اور عدم تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھول ہوگئی، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے، استنباط سے کسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصل، مطلق کو مقَیَّد، غیر معین کو معین بنا کر ہی چھوڑتا ہے، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی امور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ الجھن کے مواقع بڑھیں گے، اور احکام میں جتنی قیود زیادہ ہوں گی پیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے ۔(2)

اب قرآن کی آیات تلاوت کریں  ، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

  يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ  وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۔ قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِيْنَ۔   (سورۃ المائدۃ :101، 102)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں،  لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا، وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے ۔ تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے۔ "

مولانا امین احسن  اصلاحی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں " یہ بھی برسر موقع ایک تنبیہ ہے۔ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ اوپر ان سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں جو ابتدائے سورۃ میں بیان کردہ احکام سے متعلق پیدا ہوئے یا پیدا ہوسکتے تھے۔ اب یہ تنبیہ فرمائی کہ جو  مفید سوال تھے ان کے جواب دے دیے گئے لیکن ایسے سوال نہ کرو جن کے جواب اگر دے دیے جائیں تو تہارے مزاج اور تمہاری خواہش کے خلاف پڑنے کے سبب سے وہ تمہیں برے لگیں گے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح فرمادی کہ یہ زمانہ نزول قرآن کا زمانہ ہے۔ یہ زمانہ بارش کے ایام سے مشابہ ہے۔ بارش کے زمانہ میں جس طرح ہر بیج اگ پڑتا ہے اسی طرح اس زمانے میں جو سوال بھی کروگے اس کا جواب نازل ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے سوچ سمجھ کر وہی سوالات کرو جو دنیا اور آخرت میں تمہارے لیے نافع اور علمِ شریعت میں اضافہ کے موجب ہوں۔ غیر ضروری سوالات اٹھا کر اپنی پابندیوں میں اضافہ کی راہ نہ کھولو، خدا بخشنے والا اور بردبار ہے۔ اس وجہ سے اس نے تمہارے لیے ضرورت سوالات نظر انداز کردیے ہیں۔ اگر انکے بھی جواب دے دیے جاتے تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کو نباہ نہ پاتے اور اس طرح  اپنے ہی ہاتھوں اپنی راہ میں کانٹے بونے والے اور خدا کے غضب کو دعوت دینے والے بنتے۔
اس کے بعد بطور مثال ایک قوم کا حوالہ دیا ہے۔ مراد تو اس سے بالبداہت یہود ہیں لیکن ان کا نام نہیں لیا ہے بلکہ ان کا ذکر نکرہ کے ساتھ کیا ہے جس سے فی الجملہ اعراض اور نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ انہوں نے بھی اپنے نبی سے اسی طرح کے سوالات و مطالبات کیے لیکن جب ان کو جواب دے دیے گئے تو وہ ان کے منکر بن بیٹھے۔ ان کے سوالوں کی نوعیت سورۃ بقرہ میں گائے کے قصہ سے واضح ہوچکی ہے اور پچھلی سورتوں میں یہ بات بھی ہم تفصیل کے ساتھ بیان کرچکے ہیں کہ درحقیقت ان کے اسی طرح کے سوالات تھے جن سے انہوں نے اپنی ان قیدوں اور پابندیوں میں اضافہ کرایا جن کو قرآن نے اصر و اغلال سے تعبیر فرمایا ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے غیر ضروری سوالوں کو نظر انداز فرما کر ہمیں اصر و اغلال سے بچایا ہے اور ان معاملات کو ہمارے عقل و اجتہاد پر چھوڑ دیا جن میں ہماری عقل و فطرت میں ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ یہ شریعت آخری اور کامل شریعت ہے، اس میں کوئی بات بھی معیار، سے مختلف نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں تھا جو اس کو معیار پر لاتا۔ اس کے برخلاف یہود کی شریعت میں، یہ ایک وقتی شریعت تھی، اس میں اگر اصر و اغلال تھے تو وہ جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، آخری پیغمبر کے زریعہ سے دور ہوگئے۔ 'قد سالہا' میں ضمیر کا مرجع مذکورہ سوال ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے بعینہ وہی سوالات کیے جن کی طرف اوپر اشارہ ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس نوعیت کے سوالات کیے۔ عربی میں ضمیروں کا استعمال اس طرح بھی ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔۔۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)     (تذکیر القرآن ، سورۃ المائدۃ : 101 ، 102 مولانا وحید الدین خان )
(2)     (تفہیم القرآن ،جلد 1 سورۃ المائدۃ : 101 ، 102 سید ابوالاعلی مودودی ؒ )
(3)     (تدبر قرآن ، جلد 2 سورۃ المائدۃ : 101، 102 ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ )