وجود باری تعالی اور تخلیق کائنات





اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَهَا ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ (سورۃ النمل آیت : 60)

بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ﴿ان کاموں میں شریک﴾ ہے؟﴿نہیں﴾، بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں ۔ (سورۃالنمل : 60) 

مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کا یہ جواب نہ دے سکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں، یا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ان میں شریک ہے، قرآن مجید دوسرے مقامات پر کفار مکہ اور مشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے : وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ، " اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے" (الزخرف، آیت 87) وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ، " اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے" (العنکبوت، آیت 63) قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ الی قولہ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْر فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ، " ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون جاندار کو بےجان میں سے اور بےجان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون اس نظام عالم کی تدبیر کر رہا ہے، وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ " ( یونس، آیت 31) عرب کے مشرکین ہی نہیں، دنیا بھر کے مشرکین بالعموم یہی مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور نظام کائنات کا مدبر اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب ان میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پر برائے بحث بھی نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کہتا تو اس کی اپنی ہی قوم کے ہزارہا آمی اس کو جھٹلا دیتے اور صاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ 

اس سوال اور اس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے۔ مثلا اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اور اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی نباتات اگانے والا کون ہے؟ اب غور کیجیے، زمین میں اس مواد کا ٹھیک سطح پر یا سطح سے متصل موجود ہونا جو بےشمار مختلف اقسام کی نباتی زندگی کے لیے درکار ہے، اور پانی کے اندر ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اور نباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں اور اس پانی کا پے در پے سمندروں سے اٹھایا جانا اور زمین کے مختلف حصوں میں وقتا فوقتا ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا، اور زمین، ہوا، پانی اور درجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کے درمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشو ونما نصیب ہو اور وہ ہر طرح کی حیوانی زندگی کے لیے اس کی بےشمار ضروریات پوری کرے، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اور دانشمندانہ تدبیر اور غالب قدرت و ارادہ کے بغیر جو خود بخود اتفاقا ہوسکتا ہے، اور کیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاق حادثہ مسلسل ہزار ہا برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلا جائے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو، اسے ایک امر اتفاقی کہہ سکتا ہے، کسی راستی پسند عاقل انسان کے لیے ایسا لغو دعوی کرنا اور ماننا ممکن نہیں ہے۔ 



(تفہیم القرآن ، سورة النمل حاشیہ نمبر : 73، سید ابوالاعلی مودویؒ )