وجود باری تعالی اور ہماری زمین







"اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَهَآ اَنْهٰرًا وَّجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ۭءَ اِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ "


اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں ﴿پہاڑوں کی﴾ میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ﴿ان کاموں میں شریک﴾ ہے؟ نہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں ۔ (سورۃ النمل : 61) 

زمین کا اپنی بےحد و حساب مختلف النوع آبادی کے لیے جائے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔ اس کرہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادر مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہوسکتی تھیں، یہ کرہ فضائے بسیط میں معلق ہے، کسی چیز پر ٹکا ہوا نہیں ہے، مگر اس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہں ہے، اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا جس کے خطرناک نتائج کا ہم کبھی زلزلہ آجانے سے بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں، تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ تھی، یہ کرہ باقاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے آتا اور چھپتا ہے جس سے رات اور دن کا اختلاف رونما ہوتا ہے، اگر اس کا ایک ہی رخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا رخ ہر وقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رخ کو سردی اور بےنوری نباتات اور حیوانات کی پیدائش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رخ کو گرمی کی شدت بےآب و گیا ہ اور غیر آباد بنا دیتی۔ اس کرہ پر پانچ سو میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردا چڑھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوفناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے۔ ورنہ روزانہ دو کروڑ شہاب، جو 30 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں، یہاں وہ تباہی مچاتے کہ کوئی انسان، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا، یہی ہوا درجہ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے، یہی سمندروں سے بادل اٹھاتی اور زمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں فرا ہم کرتی ہے، یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی، اس کرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزاء بڑے پیمانے پر فراہم کردیے گئے ہیں جو نباتی، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں، جس جگہ بھی یہ سرو سامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو سہارنے کے لائق نہیں ہوتی، اس کرے پر سمندروں، دریاؤں، جھیلوں، چشموں اور زیر زمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کردیا گیا ہے، اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے، اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان نہ تھا، پھر اس پانی، ہوا اور تمام ان اشیاء کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں، سمیٹے رکھنے کے لیے اس کرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے، یہ کشش اگر کم ہوتی تو ہوا اور پانی، دونوں کو نہ روک سکتی اور درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہوجاتی، یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہوجاتی، اس کا دباؤ بہت بڑھ جاتا، بخارات آبی کا اٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہوسکتیں، سردی زیادہ ہوتی، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے، بلکہ کشش ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی، علاوہ بریں اس کرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو آبای کے لیے مناسب ترین ہے۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی، سردی بہت زیادہ ہوتی تو موسم بہت لمبے ہوتے، اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا، اور اگر فاصلہ کم ہوتا تو اس کے برعکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں ۔ 

ہپ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جائے قرار بنی ہے، کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان امور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثہ کے نتیجے میں خود بخود قائم ہوگئی ہیں، اور نہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور رو بعمل لانے میں کسی دیوی دیوتا، یا جن، یا نبی و ولی یا فرشتے کا کوئی دخل ہے۔ 


(تفہیم القرآن ، سورة النمل حاشیہ نمبر : 74، سید ابوالاعلی مودوی ؒ )