تلاوت قرآن، نمازاور ذکر کی خوبی - مفکراسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ

ارشاد باری تعالی ہے : 

﴿اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﴾ تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کی ذریعے سے بھیجی گئی ہے۔ اور نماز قائم کرو، 77 یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے  اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو ۔
(سورة العنکبوت: 45)

 تلاوت قرآن کی خوبی :

"﴿اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﴾ تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کی ذریعے سے بھیجی گئی ہے۔"


خطاب بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، مگر دراصل مخاطب تمام اہل ایمان ہیں۔ ان پر جو ظلم و ستم اس وقت توڑے جارہے تھے اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر وثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوت قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف حرکات بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوت محرکہ بن جائے، نماز کے وصف مطلوب کو تو آگے کے فقرے میں قرآن خود بیان کررہا ہے۔ رہی تلاوت تو اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی وہ اسے کفر کی طغیانیوں کے مقابلے کی طاقت تو درکنار خود ایمان پر قائم رہنے کی طاقت بھی نہیں بخش سکتی، جیسا کہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ یقران القران ولا یجاوز حناجرھم یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ۔ " وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے"۔ (بخاری، مسلم، مؤطا) درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کرتا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں۔ اس کے متعلق تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاف فرماتے ہیں کہ ما امن بالقران من استحل محارمہ۔ " قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا" (ترمذی بروایت صہیب رومی رضی اللہ عنہ) ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اپنے خدا کے مقابلہ میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بےحیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیر کٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے کیا ہدایت دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس پوزیشن کو سرکار رسال مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القران حجۃ لک او علیک، "قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف" (مسلم) یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے باز پرس ہو تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے، اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضی اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں اور محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تو اس کے خلاف رویہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے، یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی، اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کر کے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گی۔

 نماز کی خوبی :"اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے"


 یہ نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف ہے جسے موقع و محل کی مناسبت سے یہاں نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے۔ مکہ کے اس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں مادی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت درکار تھی۔ اس اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کے نشو و نما کے لیے پہلے دو تدبیروں کی نشان دہی کی گئی۔ ایک تلاوت قرآن، دوسرے اقامت صلوۃ، اس کے بعد اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اقامت صلوۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ ان برائیوں سے پاک ہوسکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گردوپیش اہل عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہلی سوسائٹی اس وقت مبتلا ہے۔

غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود ان لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو، بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کو ان سب لوگوں پر زبردست برتری حاصل ہوجاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اس ناپاک نظام کو جو ان برائیوں کی پرورش کرتا ہے، برقرار رکھنے کے لیے ان پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں۔ فحشاء اور منکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت برا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ، خواہ وہ عملا کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اصولا ان کو برا ہی سمجھتے رہے ہیں۔ نزول قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلیے سے مستثنی نہ تھا۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے، بدی کے مقابلے میں نیکی کی قدر پہچانتے تھے، اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخس ہو جو برائی کو بھلائی سمجھتا ہو یا بھلائی کو بری نگاہ سے دیکھتا ہو۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر کسی ایسی تحریک کا اٹھنا جس سے وابستہ ہوتے ہی خود اسی معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہوجائیں، لامحالہ اپنا اثر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہلی تعصبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر ان لوگوں کا ساتھ دیے چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہلیت کے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے لڑ رہے تھے جو ان برائیوں کو صدیوں سے پرورش کررہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی تاکہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کرلیں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیر تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دیدے۔

نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا وصف لازم ہے یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے۔ اور دوسرا اس کا وصف مطلوب ہے، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے، نماز لازما یہ کام کرتی ہے، جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے۔ آخر اس سے بڑھ کر موثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی اد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات رازہ کی جائے کہ تو اس دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے حتی کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اس خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنے ا عمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ پھر اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کی جائے بلکہ آدمی کو عملا ہر نماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔ نماز کے لیے اٹھنے کے وقت سے لیکر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے۔ مثلا اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانون خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جارہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جارہا ہے، اور اس کو عملا اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبہ اطاعت کے زیر اثر خفیہ اور علانیہ ہر حال میں اس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکھنے کے معاملہ میں اس درجہ موثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملا بھی برائیوں سے رکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاح نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخس پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشو و نما ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ آدمی اسے جزو بدن بننے دے، اگر کوئی شخص ہر کھانے کے بعد فورا ہی قے کر کے ساری غزا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کا کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایسے شخس کی نظیر سامنے لاکر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب تغذیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے باوجود سوکھتا چلا جارہا ہے، اسی طرح بدعمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے، ایسے نمازی کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھا کر قے کردینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت کھانا نہیں کھاتا۔

ٹھیک یہی بات بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاء والمنکر فلا صلاۃ لہ۔ " جسے اس کی نماز نے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے"۔ (ابن ابی حاتم) ابن عباس حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : من لم تنھہ صلوتہ عن الفحشاء والمنکر لم یزدد بھا من اللہ الا بعدا۔ " جس کی نماز نے اسے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دور کردیا"۔ (ابن ابی حاتم، طبرانی) یہی مضمون جناب حسن بصری نے بھی حضور سے مرسلا روایت کیا ہے۔ (ابن جریر، بیہقی) ابن مسعود سے حضور کا یہ ارشاد مروی ہے لا صلوۃ لمن لم یطع الصلوۃ و طاعۃ الصلوۃ ان تنہی عن الفحشاء والمنکر۔ "اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رک جائے"۔ (ابن جریر، ابن ابی حاتم) اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرات عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، حسن بصری، قتادہ اور اعمش وغیرہم (رضی اللہ عنہم) سے منقول ہیں۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں، جو شخس یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے۔ (روح المعانی)

 ذکر کی خوبی :"اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔"


اس کے کئی معنی ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ اللہ کا ذکر (یعنی نماز) اس سے بزرگ تر ہے، اس کی تاثیر سرف سلبی ہی نہیں ہے کہ برائیوں سے روکے، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ نیکیوں پر ابھارنے والی اور سبقت الی الخیرات پر آمادہ کرنے والی چیز بھی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یاد بجائے خود بہت بڑی چیز ہے۔ خیر الاعمال ہے، انسان کا کوئی عمل اس سے افضل نہیں ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے اس کو یاد کرنے سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ (البقرہ، آیت 152) " تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا"۔ پس جب بندہ نماز میں اللہ کو یاد کرے گا تو لا محالہ اللہ بھی اس کو یاد کرے گا۔ اور یہ فضیلت کہ اللہ کسی بندے کو یاد کرے، اس سے بزرگ تر ہے کہ بندہ اللہ کو یاد کرے۔ ان تین مطالب کے علاوہ ایک اور لطیف مطلب یہ بھی ہے جسے حضرت ابو الدرداء (رض) کی اہلیہ محترمہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد نماز تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ جب آدمی روزہ رکھتا ہے یا زکوٰۃ دیتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو لا محالہ اللہ کو یاد ہی کرتا ہے، تبھی تو اس سے وہ عمل نیک صادر ہوتا ہے، اسی طرح جب آدمی کسی برائی کے مواقع سامنے آنے پر اس سے پرہیز کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی یاد ہی کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے یاد الہی ایک مومن کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے۔


(تفہیم القرآن  جلد سوم ، از مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ ، سورة العنکبوت حاشیہ نمبر :77، 78،79)