کثرت پسندی کا انجام - مفکراسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ

کثرت یا تکاثر پسندی کا انجام: سُوْرَةُ التَّکَاثُر کا تجزیاتی مطالعہ


اس میں لوگوں کو اُس دنیا پرستی کے برے انجام سے خبردار کیا گيا ہے جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک زیادہ سے زیادہ مال و دولت، اور دنیوی فائدے اور لذتیں اور جاہ و اقتدار حاصل کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے، اور انہی چیزوں کے حصول پر فخر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس ایک فکر نے ان کو اس قدر منہمک کر رکھا ہے کہ انہیں اس سے بالاتر کسی چیز کی طرف توجہ کا ہوش ہی نہیں ہے۔ اس کے برے انجام پر متنبہ کرنے کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نعمتیں جن کو تم یہاں بے فکری کے ساتھ سمیٹ رہے ہو، یہ محض نعمتیں ہی نہیں ہیں بلکہ تمہاری آزمائش کا سامان بھی ہیں۔ ان میں سے ہر نعمت کے بارے میں تم کو آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی۔



بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ ثُمَّ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾ لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾ ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ٪﴿۸﴾


اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔


تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دُوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دُھن نے غفلت( 1) میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ ﴿اِسی فکر میں﴾ تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔ (2) ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا ۔(3) پھر ﴿سُن لو کہ﴾ ہرگز نہیں، عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا۔ ہر گز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے ﴿اِس روش کے انجام کو﴾ جانتے ہوتے ﴿تو تمہارا یہ طرزِ عمل نہ ہوتا﴾۔ تم دوزخ دیکھ کر رہو گے، پھر ﴿سُن لو کہ﴾ تم بالکل یقین کے ساتھ اُسے دیکھ لوگے۔ پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔(4) ؏


 حاشیہ نمبر : 1


اصل میں اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جاسکتا ہے ۔


الھکم لہو سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اس شغل کے لیے بولا جاتا ہے جس سے آدمی کی دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں منہمک ہوکر دوسری اہم تر چیزوں سے غافل ہوجائے۔ اس مادے سے جب الکاکم کا لفظ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی لہو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا جو اس سے اہم تر ہے، ہوش باقی نہیں رہا ہے۔ اسی کی دھن تم پر سوار ہے، اسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو، اور اس انہماک نے تم کو بالکل غافل کردیا ہے ۔


تکاثر کثرت سے ہے اور اس کے تین معنی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کریں۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے۔


پس اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ کے معنی ہوئے تکاثر نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ اس کی دھن نے تمہیں اس سے اہم تر چیزوں سے غافل کردیا ہے۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت اور الھکم میں کس چیز سے غافل ہوجانا مراد ہے، اور الھکم (تم کو غافل کردیا ہے) کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ اس عدم تصریح کی وجہ سے ان الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع ترین مفہوم پر ہوجاتا ہے، تکاثر کے معنی محدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع، سامان عیش، اسباب لذت، اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جدوجہد کرنا، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جاتانا اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح الھکم کے مخاطب بھی محدود نہیں رہتے بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے اور دوسروں کے مقابلے میں اس پر فخر جتانے کی دھن افارد پر بھی سوار ہے اور اقوام پر بھی۔ اسی طرح اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کسی چیز سے غافل کردیا ہے، اس لیے اس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس تکاثر کی دھن نے ہر اس چیز سے غافل کردیا ہے جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے۔ وہ خدا سے غافل ہوگئے ہیں۔ عاقبت سے غافل ہوگئے ہیں۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل ہوگئے ہیں۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں۔ انہیں معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہے، اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیار آدمیت کس قدر گر رہا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے، اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ انہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذتوں کے سامان زیادہ مطلوب ہیں، اس ہوس رانی میں غرق ہوکر وہ اس بات سے بالکل غافل ہوگئے ہیں کہ اس روش کا انجام کیا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت، زیادہ سے زیادہ فوجیں، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے، اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ جارہی ہے، اس بات کی فکر انہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ و برباد کردینے کا سروسامان ہے۔ غرض تکاثر کی بےشمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ انہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں سے بالا تر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے۔

حاشیہ نمبر : 2

یعنی تم اپنی ساری عمر اسی کوشش میں کھپا دیتے ہو اور مرتے دم تک یہ فکر تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

 حاشیہ نمبر : 3


یعنی تمہیں یہ غلط فہمی ہے کہ متاع دنیا کی یہ کثرت، اور اس میں دوسروں سے بڑھ جانا ہی ترقی اور کامیابی ہے۔ حالانکہ یہ ہرگز ترقی اور کامیابی نہیں ہے۔ عنقریب اس کا برا انجام تمہیں معلوم ہوجائے گا اور تم جان لو گے کہ یہ کتنی بڑی غلطی تھی جس میں تم عمر بھر مبتلا رہے۔ عنقریب سے مراد آخرت بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ جس ہستی کی نگاہ ازل سے ابد تک تمام زمانوں پر حاوی ہے، اس کے لیے چند ہزار یا چند لاکھ سال بھی زمانے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ لیکن اس سے مراد موت بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ تو کسی انسان سے بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہے، اور یہ بات مرتے ہی انسان پر کھل جائے گی کہ جن مشاغل میں وہ اپنی ساری عمر کھپا کر آیا ہے وہ اس کے لیے سعادت و خوش بختی کا ذریعہ تھے یا بد انجامی و بدبختی کا ذریعہ۔


 حاشیہ نمبر : 4


اس فقرے میں "پھر " کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے بعد جواب طلبی کی جائے گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر یہ خبر بھی ہم تمہیں دیے دیتے ہیں کہ تم سے ان نعمتوں کے بارے میں یہ سوال کیا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سوال عدالت الہی میں حساب لینے کے وقت ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متعدد احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بندوں کو دی ہیں ان کے بارے میں جواب دہی مومن و کافر سب ہی کو کرنی ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور شکر گزار بن کر رہے وہ اس محاسبہ میں کامیاب رہیں گے، اور جن لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا حق اد نہیں کیا اور اپنے قول یا عمل سے یا دونوں سے ان کی ناشکری کی وہ اس میں ناکام ہوں گے۔


حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کو ترو تازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر حضور نے فرمایا " یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا " (مسند احمد، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن مردویہ، عبد بن حمید، بیہقی فی الشعب)


حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے کہا کہ چلو ابو الہیثم بن التیہان انصاری کے ہاں چلیں۔ چنانچہ ان کو لے کر آپ ابن التیہان کے نخلستان میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے لاکر کھجوروں کا ایک خوشہ رکھ دیا۔ حضور نے فرمایا تم خود کیوں نہ کھجوریں توڑ لائے؟ انہوں نے عرض کیا، میں چاہتا تھا کہ آپ حضرات خود چھانٹ چھانٹ کر کھجوریں تناول فرمائیں۔ چنانچہ انہوں نے کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا۔ فارغ ہونے کے بعد حضور نے فرمایا " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تمہیں قیامت کے روز جواب دہی کرنی ہوگی، یہ ٹھنڈا سایہ، یہ ٹھنڈی کھجوریں، یہ ٹھنڈا پانی" (اس قصے کو مختلف طریقوں سے ملسم، ابن ماجہ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن جریر اور ابو یعلی وغیرہم نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے جن میں سے بعض میں ان انصاری بزرگ کا نام لیا گیا ہے اور بعض میں صرف انصار میں سے ایک شخص کہا گیا ہے۔ اس قصے کو مختلف طریقوں سے متعدد تفصیلات کے ساتھ ابن ابی حاتم نے حضرت عمر سے، اور امام احمد نے ابو عسیب، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام سے نقل کیا ہے۔ ابن حبان اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قریب قریب اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں پیش آیا تھا) ۔



ان احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سوال صرف کفار ہی سے نہیں، مومنین صالحین سے بھی ہوگا۔ رہیں خدا کی وہ نعمتیں جو اس نے ا نسان کو عطا کی ہیں، تو وہ لا محدود ہیں، ان کا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا، بلکہ بہت سی نعمتیں تو ایسی ہیں کہ انسان کو ان کی خبر بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا۔ " اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کا پورا شمار نہیں کرسکتے" (ابراہیم، 34) ان نعمتوں میں سے بےحدو حساب نعمتیں تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے براہ راست انسان کو عطا کی ہیں، اور بکثرت نعمتیں وہ ہیں جو انسان کو اس کے اپنے کسب کے ذریعہ سے دی جاتی ہیں۔ انسان کے کسب سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے متعلق اس کو جواب دہی کرنی پڑے گی کہ اس نے ان کو کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی براہ راست عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں اسے حساب دینا ہوگا کہ ان کو اس نے کس طرح استعمال کیا۔ اور مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے متعلق اس کو بتانا پڑے گا کہ آیا اس نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر دل، زبان اور عمل سے اس کا شکر ادا کیا تھا ؟ یا یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اسے اتفاقا مل گیا ہے؟ یا یہ خیال کیا تھا کہ بہت سے خدا ان کے عطا کرنے والے ہیں؟ یا یہ عقیدہ رکھا تھا کہ یہ ہیں تو خدا ہی کی نعمتیں مگر ان کے عطا کرنے میں بہت سی دوسری ہستیوں کا بھی دخل ہے اور اس بنا پر انہیں معبود ٹھہرا لیا تھا اور انہی کے شکریے ادا کیے تھے؟




( تفہیم القرآن ج 6 سید ابوالاعلی مودودی ؒ )