ایمان لانا گویا اللہ سے عہد کرنا ہے ۔

بائبل کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں جب یہود سے عہد لیا گیا کہ وہ خدائی تعلیمات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے تو "خدا نے پہاڑ کو ان کے اوپر الٹ کر اوندھا کردیا اور ان سے کہا کہ توریت کو یا تو قبول کرو ورنہ یہیں تم سب کو ہلاک کردیاجائے گا" (تالمود) یہی معاملہ ہر اس شخص کا ہے جو اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانا گویا اللہ سے یہ عہد کرنا ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا خدا کی مرضی کے مطابق ہو گا۔ 

یہ ایک بے حد سنگین اقرار ہے۔ اس میں ایک طرف عاجز بندہ ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ خدا ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں آسمان و زمین کی طاقتیں ہیں۔ اگر بندہ اپنے عہد پر پورا اترے تو اس کے لے  خدا کی لازوال نعمتیں ہیں۔ اور اگر وہ عہد کرکے اس سے پھر جائے تو اس کے لیے یہ شدید خطرہ ہے کہ اس کا خدا اس کو جہنم میں ڈال دے جہاں وہ اس طرح جلتا رہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کے لیے باقی  نہ ہو ۔

ایمانی عہد کے وقت حضرت موسیٰ ؑ کی قوم پر جو کیفیت گزری تھی وہی ہر بندہ مومن سے مطلوب ہے۔ ہر شخص جو اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ ایمان کی رسی میں باندھتا ہے، اس کو اس کی سنگینی سے اس طرح کا نپنا چاہیے گویا کہ اس نے اگر اس عہد کے خلاف کیا تو "زمین و آسمان اس کے اوپر گر پڑیں گے"۔

ایک گروہ جس کو اللہ کی طرف سے شریعت دی جائے، اس کی گمراہی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ عملاً اسکے خلاف چلے اور تاویلوں کے ذریعہ یہ ظاہرکرے کہ وہ عین خدا کے حکم پر قائم ہے۔

 یہود کو یہ حکم تھا کہ وہ سنیچر کے دن کو روزہ اور عبادت کے لیے مخصوص رکھیں۔ اس دن کسی قسم کا کوئی دنیوی کام نہ کریں۔ مگر انہوں نے اس طرح کی لفظی تاویلوں سے ظاہر کرتے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ عین خدا کے حکم کے مطابق ہے۔ ان کی یہ ڈھٹائی اللہ کو اتنی ناپسند ہوئی کہ وہ بندر بنا دیے گئے۔ 

جب بھی آدمی شریعت سے انحراف کرتا ہے تو وہاں اپنے آپ کو جانوروں کی سطح پر لے جاتا ہے جو کسی اخلاقی ضابطہ کے پابند نہیں ہیں۔ اس لیے جولوگ شریعت کے ساتھ اس قسم کا کھیل کریں ان کو ڈرنا چاہیے کہ خدا کا قانون ان کو اسی حیوانی ذلت میں نہ مبتلا کردے جس میں یہود اپنے اسی قسم کے فعل کی وجہ سے مبتلا ہوئے ۔



(تذکیر القرآن ، سورۃ البقرۃ : آیات 63 تا 66، مولانا وحید الدین خاں )