دین و ایمان کا معیار ۔ مولانا وحید الدین خاں

تذکیر القرآن  : سورۃ البقرۃ ، تفسیرآیات 135 تا 141

 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے یہود و نصاری اپنے کو منسوب کیے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی کی دعوت کے مطابق دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہوکر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس یہود کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طور پر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی ہر فخر نفسیات پر زد پڑتی تھی، اس لیے وہ آپ کے دشمن بن گئے ۔

جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبر ان کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے۔ اس لیے وہی شخصیتیں ان کو شخصیتیں نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں۔ مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خد اکی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علماء کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے۔ مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انہوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔ 

"پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں۔ یہود اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔ 

"اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے" گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پر ایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلا معتبر ہے۔ صحابہ کرام ایسے زمانہ میں تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انہوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جبکہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو ۔