پانی ، بارش ، قرآن اور سائنسی تحقیقات


ارشاد باری تعالی ہے : 

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (الانبیاء : 30 ) " اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا "

پانی ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مائع ہے۔ یہ تمام حیات کے لیے نہایت اہم ہے۔ پانی نے کرۂ ارض کے ٪70.9 حصّے کو گھیرا ہوا ہے۔
سائنس دان کے مطابق پانی کیمیائی طور پر یہ ایک ایٹم آکسیجن اور دو ایٹم ہائیڈروجن سے مل کر بنا ہے۔


قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف آبیات یعنی بانی کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آبیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔ [ قرآن اور جدید سائنس،" ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحہ 16، اور " قرآن، بائبل اور جدید سائنس،" : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 125]


آبی چکر: (water cycle)


آج سائنس دان جس تصور کو آبی چکر (water cycle ) کے نام سے ذکر کرتے ہیں، اسے پہلے 1580ء میں برنارڈپیلیسی (Bernard Pallissy) نامی ایک شخص نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سمندروں سے کس طرح پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح وہ سرد ہو کر بادلوں کی شکل میں آتا ہے۔ کس طرح زمین سے بلند ہوکر تکثیف (Condensation) ہوتا ہے اور بارش برستی ہے۔ پھر یہ پانی جھیلوں، جھرنوں، ندیوں اور دریائوں میں آتا ہے اور بہتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتا ہے اس طرح پانی کا یہ چکر جاری رہتا ہے ۔



ساتویں صدی قبل مسیح میں تھیلس (Thallas) نامی ایک یونانی فلسفی کو یقین تھا کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار (اسپرے) پیدا ہوتی ہے۔ تیز ہوا اسی پھوار کو اٹھالیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کر برسا دیتی ہے۔ یہی بارش ہوتی ہے۔


پرانے زمانے میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین میں پانی ہے یا نہیں ۔ انکا خیال تھا کہ ہوا کی زبردست قوت کے زیراثر سمند ر کی پانی خشکی میں چلاآتا ہے۔ انہیں یہ یقین بھی تھا کہ یہ پانی ایک خفیہ راستے یا عظیم گہرائی سے آتا ہے، سمند ر سے ملا ہوا یہ تصوراتی راستہ افلاطون کے زمانے سے ٹار ٹار س کہلاتا تھا۔ حتی کے اٹھارویں صدی کے عظیم مفکّر ڈسکارٹس (Descartus) نے بھی انہی خیالات سے اتفاق کیا ہے۔


انسیویں صدی عیسوی تک ارسطو (Aristotle) کا نظریہ ہی زیادہ مقبو ل و معروف رہا۔ اس نظریے کے مطابق پہاڑوں کے سرد غاروں میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور وہ زیر زمین جھیلیں بناتا ہے جو چشموں کا باعث بنتی ہیں ۔


آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ بارش کا پانی زمین پر موجود دراڈوں کے راستے رس رس کر زیر زمین پہنچتا ہے اور چشموں کی وجہ بنتا ہے۔ درج ذیل آیات قرآنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔


اَ لَمْ تَرَ اَ نَّ اللّٰہَ اَنْزَ لَ مِنَ السَّمَا ئِ مَآ ئً فَسَلَکَہ یَنَا بِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِ جُ بِہ زَرْ عًا مُّخْتَالِفًا اَلْوَ انُہ ہ[ القرآن، سورة 39آیت 21]


ترجمہ:۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعے سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔


وَّ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئَ فَیُحْی بِہِ الْاَ رْضَ بَعْدَ مَوْ تِھَا اِ نَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰ یٰتٍٍ لِّقَوْ مٍٍ یَّعْقِلُوْ نَ ہ[ القرآن، سورة 30 آیت 24]


ترجمہ:۔ وہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔


وَ اَنْزَ لْنَا مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً بِقَدَرٍٍ فَاَ سْکَنّٰہُ فِی الْاَرْ ضِ وَاِ نَّا عَلٰی ذَ ھَا بٍٍ بِہ لَقٰدِ رُوْ نَ ہ[ القرآن، سورة 23آیت 18]


ترجمہ:۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کر سکتے ہیں۔


تبخیر (Evaporation)


وَا لسَّمَآ ئِ ذَاتِ الرَّ جْعِ والار ض ذات الصدع [ القرآن ،سورة 86آیت11]


ترجمہ:۔ قسم ہے آسمان کی جو (پانی )کو لوٹاتا ہے (اپنے چکر میں)


۔ ( رجع ) کی تشریح اہل لغت نے المطر بعد المطر سے کی ہے۔ یعنی وہ بارش جو یکے بعد دیگرے ہوتی اور زمین کو زندگی و شادابی بخشتی ہے۔ صدع کے معنی پھٹنے کے ہیں۔ یعنی جب بارش ہوتی ہے تو زمین کے مسامات کھل جاتے ہیں اور پانی جذب کر کے پھول جاتی اور دیکھتے دیکھتے لہلہا اٹھتی ہے۔ اگرچہ یہاں لہلہا اٹھنے کا ذکر لفظوں میں نہیں ہے لیکن قرینہ اس پر دلیل ہے۔ اسلوب قسمیہ ہے اس وجہ سے بات اشارہ میں کہہ دی گئی ہے 


بادلوں کو بار آور کرتی ہوائیں


وَ اَرْ سَلْنَا الرِّ یٰحَ لَوَ ا قِحَ فَاَ نْذَ لْنَا مِنَ السَّمَآ ئِ مَا ئً فَاَ سْقَیْنٰکُمُوْ ہ [ القرآن ،سورة 15آیت 22]


ترجمہ:۔ اور ہم ہی ہوائوں کو بار آور بنا کر چلاتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں۔


یہاں عربی لفظ لواقح ّاستعمال کیا گیا ہے، جو لاقح کی جمع ہے اور لاقحہ سے نکلا ہے، جس کا مطلب بار آور کرنا یا پھر دیناہے، اسی سیاق و سباق میں، بار آور سے مراد یہ ہے کہ ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی تو ضیحات، قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں:


اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهٗ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ ۭ يَكَادُ سَـنَا بَرْقِهٖ يَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِ [ القرآن ،سورة نمبر24آیت 43]


ترجمہ:۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ بادلوں کو چلاتا ہے۔ پھر ان کو آپس میں ملا دیتا ہے۔ پھر ان کو تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے۔ پھر تم بارش کو دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ سے نکلتی ہے اور وہ آسمان سے— اس کے اندر کے پہاڑوں (جیسے بادلوں ) سے— اولے برساتا ہے۔ پھر ان کو جس پر چاہتا ہے گراتا ہے۔ اور جس سے چاہتا ہے ان کو ہٹا دیتا ہے۔ اس کی بجلی کی چمک معلوم ہوتا ہے کہ نگاہوں کو اچک لے جائے گی۔


اَ للّٰہُ الَّذِیْ یُرْ سِلُ الرِّ یٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَا بًا فَیَبْسُطُہ فِیْ السّمَآ ئِ کَیْفَ یَشَآ ئُ یَجْعَلُہ کِسَفًا فَتَرَ ی الْوَ دْ قَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ فَاِ ذَآ اَصَا بَ بِہ مَنْ یَّشَآ ئُ مِنْ عِبَا دِ ہ اِ ذَ ا ھُمْ یَسْتَبْشِر [ القرآن، سورة نمبر30آیت 48]


ترجمہ:۔ اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے، جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تودیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکا یک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں۔


آبیات (ہائیڈرولوجی Hydrology:) پر دستیا ب، جدید معلومات قرآن پاک میں بیان کردہ متعلقہ وضاحتوں کی پوری طرح تائید کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد د آیات مبارکہ میں آبی چکر کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ مثلاً ملا خطہ ہو: سورة 7آیت 57، سورة 13آیت 17، سورة 25آیات 48تا 49، سورة 35آیت 9، سورة3آیت 34، سورة 45آیت 5، سورة 50آیات 9تا 11، سورة 56آیات 68تا70اور سورة 67آیت 30۔