قبلہ اول کی تبدیلی ۔ مولانا وحید الدین خاں

تذکیر القرآن ، سورۃ البقرۃ : تفسیر آیات 142 تا 143

سَيَقُوْلُ السُّفَهَاۗءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِىْ كَانُوْاعَلَيْهَا ۭ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ  وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ۭ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ   

اب بےوقوف لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں کو کس چیز نے ان کے قبلہ سے پھیر دیا۔ کہو کہ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔  اور اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔ اور جس قبلہ پر تم تھے، ہم نے اس کو صرف اس لئے ٹھہرایا تھا کہ ہم جان لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اس سے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور بیشک یہ بات بھاری ہے، مگر ان لوگوں پر جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے۔ اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے۔ بےشک اللہ لوگوں کے ساتھ شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔

------------------------------------

 قبلہ کا تعلق مظاہر عبادت سے ہے نہ کہ حقیقت عبات سے۔ قبلہ کا اصل مقصد عبادت کی تنظیم کے لیے ایک عمومی رخ کا تعین کرنا ہے۔ ہر سمت اللہ کی سمت ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے جو سمت بھی مقرر کردے وہی اس کی پسندیدہ عبادتی سمت ہوگی، خواہ وہ مشرق کی طرف ہو یا مغرب کی طرف۔ مگر لمبی مدت تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کی وجہ سے قبلہ اول کو تقدس حاصل ہوگیا تھا۔ چنانچہ 2 ھ میں جب قبلہ کی تبدیلی کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں کے لیے اپنے ذہن کو اس کے مطابق بنانا مشکل ہوگیا۔
یہود نے اس کو بہانہ بنا کر آپ کے خلاف طرح طرح کی باتیں پھیلانی شروع کیں۔ بیت المقدس ہمیشہ سے نبیوں کا قبلہ رہا ہے۔ پھر اس کی مخالفت کیوں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ساری تحریک یہود کی ضد میں چلائی جا رہی ہے۔ کوئی کہتا کہ یہ مدعی رسالت خود اپنے مشق کے بارے میں متحیر و متردد ہیں، کبھی کعبہ کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کو کہتے ہیں اور کبھی بیت المقدس ہمیشہ سے نبیوں کا قبلہ رہا ہے۔ پھر اس کی مخالفت کیوں ؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ساری تحریک یہود کی ضد میں چلائی جا رہی ہے۔ کوئی کہتا کہ یہ مدعی رسالت خود اپنے مشن کے بارے میں متحیر و متردد ہیں، کبھی کعبہ ی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کو کہتے ہیں اور کبھی بیت المقدس کی طرف۔ کسی نے کہا : اگر کبعہ ہی اصل قبلہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے جو مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ان کی نمازیں بے کار گئیں، وغیرہ۔ مگر جو سچے خدا پرست تھے، جو مظاہر میں اٹکے ہوئے نہیں تھے، ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اصل چیز قبلہ کی ہمت نہیں، اصل چیز خدا کا حکم ہے۔ اللہ کی طرف سے جس وقت جو حکم آجائے وہی اس وقت کا قبلہ ہوگا۔ روایات میں آتا ہے کہ ہجرت کے تقریبا سترہ ماہ بعد جب قبلہ کی تبدیلی کا حکم آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ حکم معلوم ہوتے ہی آپ نے اور مسلمانوں نے عین حالت نماز میں اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف کرلیا۔ یعنی شمال سے جنوب کی طرف۔ 

قبلہ کی تبدیلی ایک علامت تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو امامت سے معزول کرکے امت محمدی کو اس کی جگہ مقرر کردیا ہے۔ اب قیامت تک بیت المقدس کے بجائے کعبہ خدا کے دین کی دعوت اور خدا پرستوں کے باہمی اتحاد کا عالمی مرکز ہوگا۔ "وسط" کے معنی بیچ کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے درمیانی وسیلہ ہیں۔ اللہ کا پیغام رسول کے ذریعہ ان کو پہنچنا ہے۔ اب اس پیغام کو انہیں قیامت تک تمام قوموں کو پہنچاتے رہنا ہے، اسی پر دنیا میں بھی ان کے مستقبل کا انحصار ہے اور اسی پر آخرت کا بھی ۔