قبلہ کا تعین

مولانا وحید الدین خاں 

تذکیر القرآن : سورۃ البقرۃ ،  تفسیر آیات 144 تا 147

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِتَابِــعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِــعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙاِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ۭ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ  ، اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ 

ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ پس ہم تم کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس کو تم پسند کرتے ہو، اب اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔ اور تم جہاں کہیں بھی ہو، اپنے رخ کو اسی کی طرف کرو۔ اور اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اور ان کے رب کی جانب سے ہے۔ اور اللہ بےخبر نہیں اس سے جو وہ کر رہے ہیں ۔

اور اگر تم ان اہل کتاب کے سامنے تمام دلیلیں پیش کردو تب بھی وہ تمہارے قبلہ کو نہ مانیں گے اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرسکتے ہو۔ اور نہ وہ خود ایک دوسرے کے قبلہ کو مانتے ہیں۔ اور اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے، اگر تم ان کی خواہشوں کی پیروی کرو گے تو یقیناً تم ظالموں میں ہوجاؤ گے۔

جن کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک گروہ حق کو چھپا رہا ہے، حالاں کہ وہ اس کو جانتا ہے۔ حق وہ ہے جو تیرا رب کہے۔ پس تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔
--------------------------------------
 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت یہ تھی کہ جن امور میں ابھی وحی نہ آئی ہو ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقہ کی پیروی کرتے تھے۔ اسی بناء پر آپ نے ابتداءً بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا جو حضرت سلیمان کے زمانہ سے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا قبلہ رہا ہے۔
یہود کو جب اللہ تعالیٰ نے دین کی امامت و پیشوائی سے معزول کیا تو اس کے بعد یہ بھی ضروری ہوگیا کہ دین کو یہود کی روایات سے جدا کردیا جائے تاکہ خدا کا دین ہر اعتبار سے اپنی خالص شکل میں نمایا ہوسکے۔ اسی مصلحت کی بنا پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبدیلی قبلہ کے حکم کا انتظار رہتا تھا۔ چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال یہ حکم آگیا۔ یہود کے انبیاء جو یہود کو خبردار کرنے کے لیے آئے، وہ پہلے ہی اس فیصلہ الٰہی کی بابت یہود کو بتا چکے تھے اور ان کے علماء اس معاملہ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ تاہم ان میں صرف چند لوگ (جیسے عبداللہ بن سلام اور مخیریق (رض) ایسے نکلے جنہوں نے آپ کی تصدیق کی اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے دین کا اظہار فرمایا ہے۔ یہود کے نہ ماننے کی وجہ محض ان کی خواہش پرستی تھی۔ وہ جن گروہی خوش خیالیوں میں جی رہے تھے، ان سے وہ نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ اور جو انکار محض خواہش پرستی کی بنا پر پید اہو اس کو توڑنے میں کبھی کوئی دلیل کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی دلائل کے انکار سے اپنے لیے وہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے خالق نے صرف دلائل کے اعتراف میں رکھا ہے ۔

اللہ کی طرف سے جب کسی امر حق کا اعلان ہوتا ہے تو وہ ایسے قطعی دلائل کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس کی صداقت کو پہچاننے سے عاجز نہ ہرے۔ ایسی حالت میں جو لوگ شبہ میں پڑیں وہ صرف یہ ثابت کر رہے ہی کہ وہ خدا سے آشنا نہ تھے اس لیے وہ خدا کی بولی کو پہچان نہ سکے۔ اسی طرح وہ لوگ جو حق کے خلاف کچھ الفاظ بول کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حق کا اعتراف نہ کرنے کے لیے مضبوط استدلالی سہارے دریافت کرلیے ہیں، بہت جلد ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ محض فرضی سہارے تھے جو ان کے نفس نے اپنی جھوٹی تسکین کے لیے وضع کرلیے تھے ۔