قرآن کا طریقِ دعوت

ابوسلیم محمد عبد الحی

قرآن کریم ایک دعوت کی کتاب ہے اور ایک دعوت اور ایک تحریک کے ساتھ ساتھ نازل کی گئی ہے۔ پورے ۲۳ سال کی مدّت میں اسلامی دعوت کو جن جن مرحلوں سے ہو کر گزرنا پڑا ، ان تمام مرحلوں میں اس کتاب نے بروقت رہنمائی کی ہے۔ ہر موقعے پر ضرورت کے لحاظ سے اس کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت کے تقاضوں کے ماتحت اندازبدل بدل کر ایک بات کو بار بار دُہرایا گیا ہے اور ہر موقعے پر کسی ضروری پہلو کو زیادہ ابھارا گیا ہے ۔

ایسی کتاب کو اگر آپ دوسری کتابوں کی طرح پڑھیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، جو باتیں کسی خاص موقعے اور کسی خاص محل پر کہی جاتی ہیںاگر آپ انھیں موقع اور محل کے تصور سے الگ کر کے دیکھیں تو ان میں نہ اثر باقی رہتا ہے اور نہ سننے والے اس سے وہ لطف محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ نے خود تجربہ کیا ہو گا ۔ کبھی کسی نازک موقعے پر خاص حالات کے تحت کسی شاعر کا ایک مصرع یا کسی شخص کا کوئی مقولہ سننے والوں کو تڑپا دیتا ہے لیکن وہی مصرع اور وہی مقولہ اگر ان حالات سے الگ ہوکر دھرایا جائے تو اس میں کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوتی ۔
٭قرآن ایک دعوت کی کتاب ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرآن آپ کی آنکھوں کو پُر نم اور آپ کی قوتوں کو متحرک کرے تو آپ پہلے اس دعوت کو اپنائیںجو قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ آپ اس دعوت کو عملاً دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اگر آپ سچ مچ اسلامی دعوت کو لے کر اٹھیں گے توآپ محسوس کریں گے کہ آپ کو قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے اور جب آپ کے حسبِ ضرورت وہ رہنمائی براہِ راست مالک ِ کائنات کے الفاظ میں آپ کے سامنے آئے گی تو ممکن نہیں کہ آپ کے جذبات میں اُبھار پیدا نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی آنکھیں پُر نم ہوجائیں اور آپ اپنے اندر ایسی قوت محسوس کرنے لگیں کہ آپ کو دنیا کی ساری قوتیں ہیچ نظر آئیں۔

ایک ایسا شخص جو پیاسا نہ ہو اور جسے پانی کی ضرورت بھی نہ ہو وہ پانی کے اوصاف بہت کچھ بیان کر سکتا ہے ۔ وہ اچھی طرح بتا سکتا ہے کہ پانی کس کس گیس سے مل کر بنا ہے، کیا خاصیتیں رکھتا ہے، کتنے درجے پر اُبلتا ہے، کس درجے پر جم جاتا ہے۔ غرض یہ کہ آپ اُس کی باتیں سن کر محسوس کریں گے کہ وہ پانی کا مکمل عالم ہے اور پانی کے بارے میں اُس کی معلومات انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ لیکن اگر پانی کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ کرنا ہو توآپ اس پیاسے سے پوچھئے جو کسی ریگستان میں کئی دن تک پانی کی تلاش میں گھوم چکا ہو ، اور آخر میں کہیں سے ایک پیالا بھر پانی پا سکے ۔

٭ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے غور کیجیے کہ قرآن پاک کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے داعیِ حق (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کچھ ایسی ہدایات دی ہیں جن میں انھیں اس مشکل کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی تاکید ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس اونچے کام کے لیے آپؐ کو منتخب فرمایا تھا، اس کے لیے ضروری صلاحیتیں آپؐ میںپہلے ہی پیدا ہو چکی تھیں۔ آپؐ دنیا کے تمام انسانوں میں سے بہترین انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد آپؐ کو حاصل تھی ۔ لہٰذا اپنے آپؐ کو تیار کرنے والی ہدایات کی ضرورت آپؐ کو اتنی نہ تھی جتنی کہ آپؐ کے بعد آنے والے ان لوگوں کو تھی جو آپؐ کی ہدایات کے تحت اللہ کے دین کو قائم کرنے کا کام کرنے والے تھے ۔ اب ظاہر ہے کہ آپؐ کی امت میں سے قیامت تک جو لوگ دعوت اسلامی کاکام کرنے کے لیے تیار ہوں گے، اللہ کے دین کو دنیا میں قائم کرنے کا ارادہ کریں گے اور اس راہ میں کوئی قدم بڑھائیں گے، وہ کتنی سخت ضرورت محسوس کریں گے کہ دنیا کے اس سب سے دشوار کام کے لیے انھیں کچھ ہدایات ملیں اور ان کی بروقت رہنمائی ہو۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب اس دور کا نازل شدہ قرآن آئے گا، تو انھیں وہی چیز ملے گی جس کو ان کے دل ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ سورۂ مزمل جس میں نماز ، ذکر اور تہجد سے قوت حاصل کرنے کے لیے آںحضرت ؐکو ہدایات دی گئی ہیں ، ایک جملہ یہ بھی ہے کہ : اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا ،’’بلاشبہہ تمھیں دن میں بڑا لمبا کام کرنا پڑتا ہے‘‘ (دعوتِ اسلامی کا کام )۔

اس لمبے کام کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اس خدمت کے لیے تیاری لازمی ہے اور اس قوت اور اس تیاری کے لیے یہ نسخہ موجود ہے۔ بات بالکل کھلی ہوئی ہے۔ جسے کوئی لمبا کام کرنا ہی نہ ہو، اس کے لیے ان ہدایات میں کیا رکھا ہے۔ نسخہ اور دوا تو بیمار کو عزیز ہوتا ہے۔

٭ اسی طرح آگے بڑھیئے ۔ مکی دور کے پورے قرآن میں کفارِ مکہ کی وہ کش مکش جس نے اہلِ ایمان کا جینا دوبھر کر دیا تھا بطور پس ِ منظر کے موجود ہے۔ اللہ کا نام لینا جرم ہے۔ اپنے پرائے ہوتے جا رہے ہیں۔ دوست دشمنی کا برتائو کر رہے ہیں۔ اوچھے اور کمین لوگ بااخلاق اور شریف لوگوں پر قسم قسم کی بے ہودہ گندگیاںاُچھال رہے ہیں۔ پھر اہلِ ایمان جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں ان میں کوئی مادی غرض چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ خود سیدھی راہ پر چلنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو خود ان کے ہی بھلے کے لیے سیدھی راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بڑی سیدھی اور سچی بات ہے۔ پھر اسے زبر دستی منوانا نہیں چاہتے ۔ مان لینے ، سوچنے اور سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں، مگر مخالفین ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں۔ ہربات کو سنی اَن سنی کر دیتے ہیں۔ کسی بات کو معقولیت کے ساتھ سنتے ہی نہیں۔ غور اور فکر کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ۔

اب ذرا سوچیے اگر کوئی گروہ یا کوئی شخص حق کی دعوت لے کر اُٹھے ، اپنی حد تک دنیا میں اللہ کے دین کا پیغام دوسروں تک پہنچانا چاہے، اور اللہ کے دین کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش شروع کر دے اور اس کے نتیجے میں اسے بھی کچھ ایسے ہی حالات پیش آنے لگیں جن کا کچھ مختصراً ذکر اُوپر ہوا ہے۔ وہ بھی مخالفتوں کا نشانہ بن جائے۔ اسے بھی اپنے پرایا سمجھنے لگیں۔ اس کے لیے بھی صرف ایک اللہ کو اپنا حاکم ومالک مان لینا جرم ہو جائے۔ اس کی بات کو بھی لوگ سننے اور غورکرنے کے بدلے یوں ہی ہوا میں اڑانے لگیں، تو ایسے شخص کو ان نازک حالات میں مناسب اور بروقت ہدایت کی کیسی سخت ضرورت محسوس ہو گی ۔

جس اللہ نے امت ِ مسلمہ پر قیامت تک کے لیے دعوتِ دین کا فرض عائد کیا ہے، اس کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس مشکل خدمت کو انجام دینے کے لیے ہدایات بھی دے دی ہیں۔ لیکن ان ہدایات کی صحیح قدرو قیمت جب ہی محسوس ہو سکتی ہے جب اس خدمت اور فرض کو ادا کرنے کے لیے عملاً میدان میں اترا جائے جس کے سلسلے میں یہ ہدایات دی گئی ہیں۔
٭ اسی انداز پر آپ ان تمام مضامین پر غور کرتے جایئے،اور پھر فیصلہ کیجیے کہ جب تک واقعی کوئی متحرک دعوتی کام لوگوں کے سامنے نہ ہو، ان کے لیے اس سرمایے میں سے کتنا تھوڑا حصہ آ سکتا ہے۔

٭ صبر کی تلقین تو اسی شخص کے لیے موزوں ہے جو مخالفتوں کا شکار ہو رہا ہو اور مشکل حالات میں گھرا ہوا ہو ۔
٭ دنیا کو مقصود نہ بنانے کی نصیحت تو اسی کو کی جا سکتی ہے جو دنیا کو جیتنے اور حاصل کرنے کے لیے نکلا ہو۔
٭ توحید وآخرت کی دلیلیں تو اسی شخص کو وجد میں لا سکتی ہیں جو یا تو خود منکرِ توحید وآخرت رہا ہو یا جسے منکرین توحید وآخرت کو بات پہنچانے کی تڑپ ہو۔
٭ شرک کے خلاف قرآن کی پیش کردہ مہم تو اسی کے لیے سبق بن سکتی ہے جو شرک اور توحید کے فرق کو سمجھنے کا اور سمجھانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
٭ اسلام کے خلاف قسم قسم کے شبہوں کا جواب اور مخالفین کی ڈالی ہوئی الجھنوں کی صفائی کا لطف تو وہی اٹھا سکتا ہے جس نے ان شبہوں کو دور کرنے اور ان الجھنوں کو صاف کرنے کا دردِ سر اپنے ذمے لیا ہو۔
٭ کسی صالح جماعت کے بننے کی ضرورت اور اس کے اصولوں کا ذکر تو اسی شخص کے لیے مفید ہو سکتا ہے، جو اسلام کو بحیثیت ایک اجتماعی دین کے خود تسلیم کر چکا ہو اور دوسروں پر اس کی اس حیثیت کو واضح کرنا چاہتا ہو ۔
٭ اسلامی ریاست کی تعمیر کے لیے بنیادی اصول تو اسی شخص کی دل چسپی کا موجب ہو سکتے ہیں جس کے سامنے کسی اسلامی نظام کو واقعی برپا کرنے کا سوال ہو۔
٭ اسلامی تمدن اور اسلامی رہن سہن کے اصول وضوابط کو سمجھنے کی کوشش تو وہ کرے جسے واقعی کوئی اسلامی معاشرہ تیار کرنا ہو، اور ایسے معاشرے کو دنیا کے سامنے ایک جیتے جاگتے اسلامی نمونے کی حیثیت سے پیش کرنا ہو۔
٭ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی رہنمائی کا علم تو اس کے لیے ضروری ہے جس نے اپنی زندگی کے لیے یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ اسے بہرحال اسلامی اصولوں پر قائم رہنا ہے اور دنیا کے تمام دوسرے اصولوں پر ان اصولوں کی برتری کو اپنے قول اور اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے۔
٭ منافقوں کے ذکر میں تو اسی کے لیے نصیحت ہے جوہر آن اس بات سے ڈرتا ہو کہ کہیں کوئی منافقوں جیسی بات اس میں پیدا نہ ہو جائے، اور جو اس بات کا درد رکھتا ہو کہ اپنی حد تک اُمتِ مسلمہ سے اس روگ کو دُور کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔
٭ جنگ کی ہدایات، جنگ کے اخلاق اور جنگ کی پابندیوں کا تذکرہ تو اسی کے لیے مفید ہوسکتا ہے جس نے کسی ایسے کام کی ابتدا کی ہو جس کے نتیجے میں کبھی ایسا خطر ناک وقت آنے کا بھی کوئی امکان ہو، لیکن جن لوگوں نے خوب سوچ سمجھ کر اپنے خیال میں بے ضرر راستے اختیار کر لیے ہوں اور جو ہر قدم کو نہ صرف پھونک پھونک کر رکھتے ہوں، بلکہ ہر دم اس بات کے لیے تیار ہوں کہ جب اور جیسی ضرورت پڑے قدم فوراً واپس ہٹا لیا جائے، تو ان کے لیے یہ ساری باتیں پچھلے واقعات سے زیادہ کیا اہمیت رکھ سکتی ہیں۔

غرض یہ کہ پورے قرآن پر نظر ڈالی جائے ۔ اس کا ہر مضمون مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی منظم تحریک ، کسی مستقل دعوت کا پروگرام اور کسی عملی جدو جہد کا نمونہ ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر یہ سارے مضامین تقریباً بے روح ہوتے ہیں اور اس بات کاسب سے بڑا زندہ ثبوت خود آج اُمت ِ مسلمہ ہے۔

اب بھی مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ان کی بگڑی ہوئی حالت کا صحیح علاج صرف قرآن پاک ہے، لیکن یہ علاج ان ہی لوگوں کے لیے کار گر ہو سکتا ہے جو یہ طے کر لیں کہ وہ اُس پروگرام کو لے کر اٹھیں گے جو قرآن پیش کرتا ہے اور اُس دعوت کو عملاً پیش کرنے کی جدوجہد کریں گے جس کی ہدایات قرآن کے ہر صفحے پر مل سکتی ہیں۔ سب سے پہلے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس خدائی ہدایت کو سچے معنوں میں قبول کریں اور اسے دنیا کے سامنے پیش کریں لیکن اگر خدا نخواستہ انھوں نے اس خدمت کو انجام نہ دیا تو اللہ کا یہ نُورِ ہدایت تو پھیل کر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کچھ اور لوگوں کو اٹھائے گا اور وہ ان کی طرح ناکارہ نہ ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو محرومی سے بچائے اور اپنے دین کو قائم کرنے کی ہمیں سعادت نصیب فرمائے۔ یہی اس زندگی کی سب سے بڑی کمائی ہے۔

---------------------

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن 

شمارہ ، ستمبر 2018