سفر کی حالت میں روزہ رکھنا

ارشاد باری تعالی ہے ۔ 

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ،  ايَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ  ۭ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ۭ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ  ۭ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ  (سورۃ البقرۃ :  ١٨٤)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں﴿پھر نہ رکھیں﴾ تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے ، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزہ رکھو۔ 

--------------------------------

سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو صحابہ (رض) سفر میں جایا کرتے تھے، ان میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہوگئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا : کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا : یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر (رض) کی روایت ہے کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقی پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابن عمر (رض) کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضُور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فافطروا۔ دوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قدد نوتم من عدوکم فافطروا اقوی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔

عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے، حضُور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ کرام (رض) کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرف عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافر انہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کے لیے کافی ہے۔ 

یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اس دن کا روزہ افطار کرلینے کا اس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہ (رض) سے ثابت ہیں۔ 

یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔

-----------------------

تفہیم القرآن ، سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :186، سید ابوالاعلی مودودی ؒ