انَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ ﴿ الحج : ۱﴾ کی تفسیر - سید ابوالاعلی مودویؒ


یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہو گا جب کہ زمین یکایک الٹی پھرنی شروع ہو جاۓ گی اور سورج مشرق کے بجاۓ مغرب سے طلوع ہو گا۔ یہ بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمہ اور شعبی نے بیان کی ہے کہ: یکون ذٰلک عند طلوع الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو ابن جریر اور طبرانی اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے نقل کی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے کہ نفخ صور کے تین مواقع ہیں۔ ایک نفخ فَزَع ، دوسرا نفخ صَعْق اور تیسرا نفخ قیام الرب العالمین۔ یعنی پہلا نفخ عام سراسیمگی پیدا کرے گا ، دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔ پھر پہلے نفح کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوۓ آپ بتاتے ہیں کہ اس وقت زمین کی حالت اس کشتی کی سی ہو گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ اس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔مثلاً : 

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّا حِدَۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُ کَّتَا دَکَّۃً وَّ احِدَۃً فَیَوْمَئِذٍ وَّ قَعَتِ الْوَ ا قِعَۃُ O (الحاقہ) ’’ پس جب صور میں ایک پھونک ماردی جاۓ گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ عظیم پیش آ جاۓ گا‘‘۔ 


اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا O وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَا لَھَا O وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا O (الزلزال) ’’ جب کہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جاۓ گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی، اور انسان کہے گا یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ ‘‘ یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّ اجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّ ادِفَۃ O قُلُوْ بٌ یُّوْمَئِذٍ وَّ ا جِفَۃٌ اَبْصَارُھَا خَاشِعَۃٌ O (انٰزعات 1 ) ’’جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا ، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہی خوف زدہ ہوں گی‘‘۔ 

اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَا نَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا O (الواقعہ 1 ) ’’ جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی کاۓ گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اڑنے لگیں گے ‘‘
۔ 
فَکَیْفَ تَتَّقُوْ نَ اِنْ کَفَرْ تُمْ یَوْ مًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا ِۨ السَّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ O (المزمل۔1) ’’ اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑ تا ہو گا۔ 

اگر چہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جب کہ مردے زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور اس کی تائید میں متعدد احادیث بھی نقل کی ہیں ، لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے قرآن اس کا وقت وہ بتا رہا ہے جب کی مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں کے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہو گا، کیونکہ قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہو چکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایات ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگر چہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کر دیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں ، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔

--------------------
تفہیم القرآن جلد سوم ص 199، سورۃ الحج حاشیہ نمبر 1