درس قرآن اور ترجمہ قرآن کے سلسلہ میں مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کا تجربہ

اپنے خط بنام علامہ سید سلیمان ندوی ؒ میں لکھتے ہیں :

" قرآن حکیم پر تفسیر بالرائے و عقلیت سے الگ رہ کر احادیث ناقابل انکار کے ساتھ دے کر لغت و ادب کی باکل نئی تحقیقات و کاوش سے مدد لے کر ( جس سے نصف مشکلات حل ہوجاتی ہیں ) قرآن کے حقائق اجتماعی کے انکشاف پر زور دے کر اور اس کے درس کو تمام مسائل و عقائد و اعمال مہمہ اقوام و امم و مہمات مسئلہ اصلاح و تبلیغ اہل اسلام پر محیط کر کے درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا جا تا ہے نیز تمام علوم اسلامیہ پر مجتہدانہ لکچر دیے جائیں ۔ ---------------------
حالات وقت نزول و طرق تمثیل و بیان عرب جاہلیت ، یہ دو چیزیں نہ صرف امثال القرآن بلکہ تمام کے فہم ودروس کے لئے بمنزلہ اساس و اصل کے ہیں ، اور امثال و اقسام و انواع بیان و تخاطب و تذکیر کے لئے تو اولین نظر ان ہی پر ہونی چاہیے " (1)

ترجمۂ قرآن کی مشکلات پر اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ 


" ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا ہوں ، مثلا امثال القرآن ہیں اور ان کی مختلف حالتیں ہیں غالب صورت یہ ہے کہ صرف مثال پر قناعت کی ہے اور سوائے حکم تفکر و تعقل کے اور کوئی چیز اصل میں ایسی نہیں ہے کہ جو مشبہ بہ کو واضح کرے ، اب اگر ترجمہ میں بھی وہی شکل قائم رہتی ہے تو وضاحت و تفہیم جو کہ اصل مقصد ہے فوت ہوجاتا ہے ، اگر وضاحت کی جاتی ہے تو اختصار میں زور بلاغت نہیں اور اطناب میں بہت زیادہ اصل پر اضافہ ہوجاتا ہے بعض مقامات میں تھوڑا بہت کامیاب ہوا ہوں کہ ایسے الفاظ جمع ہوگئے ہیں جن میں ضمنا وضاحت ہوگئی اور متن سے بھی بہت زیادہ دور نہ نکل جانا پڑا ، لیکن بعض مقامات کی مشکلیں بہت سرگراں کرتی ہیں ،  سورۃ بقرہ کی مشہور مثال :

("مَثَلُھُم کمَثَلِ الذی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمّا اضَاءَتْ ---الی -- اَوْ کَصَیِّبٍ منَ السَّمَاءِ فِیْہ ظلُمَات و رَعْدٌ و بَرْقٌ")

، میرا خیال ہے کہ قرآن کریم کی پہلی سورت میں یہ مثال بلا وجہ عظیم نہیں ہے ، اور در اصل اس کے اندر بہت ہی بڑی تفصیل پوشیدہ ہے اسے محض یہود و منافقین یثرب سے جس سے باہر کوئی گروہ باقی نہیں رہا ، مجھے خوشی ہوئی کہ قدماء میں ابن قیم نے اسے محسوس کیا ہے اور اجتماع جیوش کے آٹھ صفحوں میں اس پر بحث کی ہے ، گو پھر بھی حسب دلخواہ نہیں ہے ۔ اب فرمائیے کہ اگر اس مثال کو اردو میں لکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے تو کیا اثر ہوگا لیکن اگر مسطور مثال سے ربط باقی رکھ کر مطلوب کو بڑھایا جائے اور کھولاجائے تو کس قدر اضافہ اصل پر ہوجائے گا علی الخصوص "او کصیب من السماء الخ۔۔" بہر حال کسی نہ کسی طرح کام جاری رکھا یہ کام دراصل یوں تھے کہ باہم یکجائی ہوتی اور دیر دیر تک صحبتیں اس بارے میں کی جائیں لیکن اللہ کو یہ منظور نہٰیں تو جس حال میں جو کچھ ہو جاتا ہے اور توفیق مساعد ہو اسی پر شکر کر نا چاہیے "۔ (2)

-----------------

حوالہ : 
1- ( مشاہیر کے خطوط بنام سلیمان ندوی ص 178)
2- ( ایضا ص 180)