دنیا اور آخرت کی زندگی کی حقیقت ۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ

مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے سورہ عنکبوت کی درج ذیل آیت  کی تفسیر کی ہے  جو انتہائی اہم ہے،  قاری کے لیے ہم اس کو شائع کررہے ہیں،  یہ ان کی تفسیر " اشرف التفاسیر" سے  ماخوذہے ۔ 

وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿ عنکبوت : ٦٤﴾ 

حقیقت دنیا

آیت میں دنیا کو لہوولعب سے تعبیر کیا گیا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ  (دنیوی زندگی محض لہوولعب ہے) گویا دنیا کی حقیقت کوواضح کردیا صرف دو چیزوں میں ایک لہو اور دوسرا لعب کہ دنیا بجز اس کے اور کو کچھ نہیں یہاں پر دو لفظوں کا استعمال کیا گیا ایک لہو دوسرا لعب اگرچہ یہ دونوں لفظ بظاہر بالکل مرادف معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتہً ان میں قدر تفاوت ہے لعب کہتے ہیں کسی لغووعبث فعل کو اور لہو کہتے ہیں غفلت میں ڈالنے والی بات کو۔

 حاصل یہ ہوا کہ دنیا میں دوصفتیں ہیں ایک صفت عبث ہونے کی جو موجب غفلت  ہونے کی ہے اول کو لعب فرمایا ہے اور دوسری کو لہو لیکن اس پر ایک شبہ پڑتا ہے دنیا بجمیع اجزائھا لغووعبث ہوگئی تو لازم آیا کہ جمیع مخلوقات خداوندی بے فائدہ اور مہمل محض رہ جائے گی حالانکہ خداوند تعالیٰ کی طرف یہ بات منسوب کرنا کہ وہ حکیم ذات ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرے جو فضول ہو سخت گستاخی ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا جرم ہے، علاوہ ازیں خود دوسرے ارشاد ہوا افحسبتم انما خلقنا کم عبثاً وانکم الینا لا ترجعون۔ کیا تم نے یہ خیال کرلیا ہے کہ ہم نے تم کو یوں ہی مہمل پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جائوگے) یہ استفہام انکاری ہے یعنی کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تم کو عبث اور لغو محض پیدا کیا ہے نیز ایک آیت میں ارشاد ہے ربنا ماخلقت ھذایا طلاً (اے ہمارے رب تونے بیکار پیدا نہیں کیا) 


جواب شبہ کا یہ ہے کہ فی الواقع کوئی شئے مخلوقات میں سے عبث اور بے کار نہیں البتہ تعین فوائد ایک امراہم ہے اور اس میں غلطی ہوسکتی ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا سے قابل قدر فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں انسان ان کے منافع اور ضروریات کو پورا کرتا ہے یہ سب کچھ دنیا کے منافع میں داخل ہیں لیکن ہم لوگوں نے ان جمیع منافع میں سے بعض منافع کو جو واقعی منافع تھے نظر انداز کردیا اور دنیا کے منافع کا انحصار صرف ان منافع کے اندر کردیا جو کہ خط نفسانی سے لبریز ہوتے ہیں اگرچہ منافع سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم بداہتہ دیکھتے ہیں کہ ہر شخص ان سے فائدہ مند ہے۔

آرام پاتا ہے لیکن ان کی وجہ سے وہ حظہ وافر جو نفع او قابل قدر فائدہ تھا ہم بھول جاتے ہیں اور اس نسیان کے باعث صرف یہی فوائد بنتے ہیں جو چند روز ہم کو حظ نفس کا مزہ چکھادیتے ہیں اور مقصود اصلی اور اس المنفعت کو چھڑادیتے ہیں لذتوں اور دلچسپیوں کو ہی فائدہ اور نفع قرار دے لینا اور انہیں پر قناعت کرلینا مثال تو بعینہ اس شخص کی سی ہے کہ جو ایک دور دراز ریل کا سفر کررہا ہے اور راستہ میں کہیں ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہوتی سنے اور وہاں جاکر کھڑا ہوجائے اور اس گھنٹی کو مزے لے لے کر سنتا اور بجاتا رہے اور اس طرف گاڑی چھوٹنے والی ہو انجن نے سیٹی دیدی ہو اور جب اسے کہا جائے کہ ارے ظالم گاڑی چھوٹنے والی ہے انجن نے سیٹی دیدی ہے تو وہ یہ کہے کہ مجھ کو تاس کی ٹن ٹن میں مزہ آرہا ہے، میں تو اس کو نہیں چھوڑ سکتا چاہے گاڑی چھوٹ گئی سفر کھوٹا ہوا۔

 اسی طرح اگر آپ بھی ان لذات دنیوی اور دلچسپ کی دلچسپیوں میں پڑے رہیں گے تو آپ کا بھی انجام یہی ہوگا کہ مقصود اصلی سے محروم ہوکر کوئی حظ وافر حاصل کرسکیں گے تو دیکھئے گو آرام پہنچنا اور ان میں ہونا یہ بھی منافع کی فہرست میں داخل ہے لیکن پھر وہ کس قدر مضرت رساں نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ اس نے ایک ضروری اور قابل قدر منفعت سے غافل کردیا اسی طرح دنیا کی ہر چیز فی نفسہ حکم ومصالح ومنافع سے لبریز ہے عبث وفضول کوئی نہیں مگر جب وہ مقصود اصلی سے مانع ہوجائے تو اس وقت یہی فائدہ جن کو ہم نے منافع دنیویہ کا اصل اصول سمجھ رکھا ہے اور وقعت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں انہیں لہوولعب سے تعبیر کیا جاوے گا یعنی جس صورت سے تم دنیا کے ساتھ انتفاع رکھتے ہو اس صورت میں وہ تمہارے لئے لہوولعب سے زیادہ نہیں گو فی نفسہ اس میں بہت مصالح و منافع ہیں مگر وہ منافع ایسے نہیں جن میں پڑکر منافع آخرت کو بھلا دیں جن منافع کے لئے یہ اشیاء وضع کی گئی ہیں ان کے اعتبار سے اس سے عبثیت کی نفی کی گئی ہے اور جو منافع اہل ہوا نے خود تراشے ہیں جو کہ واقع میں مضار ہیں ان کے اعتبار سے اس کو لہو ولعب فرمایا ہے ۔

بہرحال یہ دنیا اگر بہت سے اغراض کا سبب بن جاوے تو یہ لغو عبث ہے چنانچہ مقابلہ میں اس کے فرماتے ہیں کہ ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان (اصلی زندگی آخرت ہے) اس طرح تو دنیا کو لہوولعب سے تعبیر فرمایا اور اس طرح دار آخرت کو حیوان سے تعبیر کیا کیونکہ لہوولعب بااعتبار اپنے ثمرات کے مثل مردہ ہیں اور موت ثمرات دلیل ہے موت دنیا کی بخلاف دار آخرت کے اس کو حیوان بمعنے حیوۃ مراد زندہ سے تعبیر کیا کیونکہ اس کے ثمرات زندہ اور باقی رہنے والے ہیں اور حیات ثمرات دلیل ہے حیات آخرت کی لہٰذا آخرت خود بھی زندہ ہے باقی فوائد دنیویہ دراصل فانی ومردہ ہی ہیں زندہ فوائد کو چھوڑ کر مردہ فوائد کو کیا کریں کار آمد چیز کوچھوڑ کر بیکار شے کے پیچھے جانا اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔

 چنانچہ آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ ( لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ) کاش کہ یہ لوگ اپنی دینی منفعتوں کا احساس کرتے اور دنیوی مضرتوں کو جان لیتے سمجھتے کہ یہ دنیا اور اس کے لواحق سخت مضرت رساں ہیں اور آخرت اورا س کے متعلقات نفع رساں اور راحت بخش ہیں یہاں پر استعمال کیا گیا ہے حرف "  لو "کا جو کہ ان کے واسطے بھی آتا ہے اور یہاں یہی معنی ہیں تو اس سے انتہا درجہ کی شفقت ورحمت مترشح ہوتی ہے کہ جیسے ایک شفیق باپ اپنے بچے سے پیار کی باتیں کرتا ہے اور محبت میں اگر بچے کے ساتھ خود بھی تو تلابن جاتا ہے بلاشبہ اسی طرح خداوند تعالیٰ کی ذات سے کسی امر کی تمنا کرنا بالکل مستبعد اور ان کی شان کے خلاف ہے کیونکہ آرزو ہمیشہ ایسی چیز کی کی جایا کرتی ہے جو حاصل نہ ہو اور خود اس کے نفع کا محتاج ہو اور خداوند تعالیٰ قادر قیوم اور مالک کل شئی ہے اس کے واسطے کوئی شئے ایسی نہیں جو حاصل نہ ہو دوسرے وہ نفع کامحتاج نہیں پھر آرزو کیسے کرتے لیکن باوجود اس کے محض اپنے بندوں کی دلدہی کی خاطر ان سے مذاق کے موافق ان سے معاملہ فرمایا جس سے غرض ومقصود محض تقریب اور تفہیم ہے اور اس تفہیم کی دو صورتیں ہیں:

 ایک یہ کہ تم ہمارے موافق ہوجائو ۔ دوسرے یہ کہ خیر ہم ہی تمہارے موافق ہوجائیں کیونکہ تم میں اتنی قابلیت واستعداد نہیں کہ تم ہمارے موافق ہو یا ہم سے قریب ہو سکو لہٰذا چلو ہم ہی تمہاری خاطر تمہارے موافق ہوجاتے ہیں جن مواقع پر قرآن شریف میں الفاظ تمنی وترجی مستعمل ہیں ان سے تمنی ترجی حقیقی مراد نہیں ہوتی ۔

دنیائے مذموم

پہلے تو یہ مرض بیان فرمایا کہ انسان غیر ضروری امور میں مشغول ہے اور غیر ضروری امور کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ دنیا میں اس کی انہماک ہے اس لئے سب سے پہلے اس کی مذمت بیان فرمادی اور اس کے بعد امر ضروری یعنی دارآخرت کو ذکر کردیا کہ ذکر آخرت میں مشغول ہونا چاہیے تاکہ اس انہماک کا ازالہ ہو سو غیر ضروری کے ترک کرانے کی دو صورتیں تھیں ایک تو یہ کہ اس کی مذمت کردی جاوے اور اس سے ہٹایا جاوے مگر ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ اس سے نفع نہیں ہوسکتا کیونکہ مشغلہ ضروری بتانا بھی ضروری ہے ورنہ یہ شخص اس غیر ضروری کو چھوڑ کر دوسرے غیر ضروری میں مبتلا ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ غیر ضروری سے ہٹایا جاوے اور ضروری کی طرف متوجہ کیا جاوے یہی دوسرا طریقہ جو اسلم واحسن ہے یہاں اختیار کیا گیا ہے چنانچہ فرمایا وما ھذا الحیوۃ الدنیا الالھوو لعب کہ نہیں ہے حیوۃ دنیا مگر لہوولعب فضول وبیکار ہے۔

دیکھئے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا کہ حیات دنیا کی مذمت کردیں آگے فرماتے ہیں وان الدار الاخرۃ لھی الحیوان اور بے شک دار آخرت ہی حیات ہے یعنی زندگی تو واقع میں آخرت ہی کی زندگی ہے دنیا کی کیا زندگی یہ تو اس کے سامنے بالکل ہیچ ہے تو مذمت دنیا کے بعد آخرت کی طرف متوجہ کیا گیا اس اسلوب ہی سے سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہ مرض ایسا ہے جس کا مریض دائم المرض ہے جس کو آج کل کے جاہلانہ دائم المریض کہتے ہیں ۔
غرض دنیا وہ مذموم ہے جو غفلت میں ڈال دے ۔

چیست دنیا از خدا غافل بدن
نے قماش و نقرہ و فرزن

یعنی دنیا کسے کہتے ہیں خدا سے غافل ہونے کو نہ کہ مال دولت اور بیوی کو ایسی ہی دنیا والوں کو کہتے ہیں ۔

اہل دنیا چہ کہیں وچہ مہیں
لعنۃ اللہ علیہم اجمعین

دنیا دار خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے سب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت یہاں پر ایک سوال ہے وہ یہ کہ سب اہل دنیا پر لعنت کیسے کردی جواب یہ ہے کہ اصل میں یہ ترجمہ ہے ایک حدیث کا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے الدنیا ملعون وملعون مافیھا الاذکر اللہ وماوالاہ او عالم او متعلم یعنی رحمت سے دور ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی خدا کی رحمت سے دور ہے مگر خدا کا ذکر اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیز یعنی ذکر اللہ اور اس کے مقدمات ومتعلقات اور عالم ومتعلم کو تو خدا کی رحمت سے دور نہیں ہے باقی سب رحت سے بعید ہیں اور واقع میں یہ استثناء منقطع ہے کیونکہ دنیا کے مفہوم میں ذکر اللہ اور عالم ومتعلم پہلے ہی سے داخل ہیں تو لعنت یعنی بعد عن الرحمۃ (رحمت سے دوری) کا حکم خاص ان پر کررہے ہیں جن کو دین سے تعلق نہ ہو چنانچہ قرینہ اس کا وہ شعر ہے جو بعد میں کہتے ہیں ۔

اہل دنیا کا فران مطلق اند
روزوشب درزق زق ودربق بق اند

صرف کفار اہل دنیا  اس میں رات دن زق زق بق بق میں گرفتار رہتے ہیں اس پر کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ یہ تو لعنت سے بھی بڑھ کر ہے کہ یہاں سب اہل دنیا کو کافر بنادیا مگر ایک بزرگ نے اس کی خوب توجیہ فرمائی جس کے بعد یہ قرینہ ہوگیا بعد عن الرحمۃ کے محل کا وہ توجیہ فرمائی کہ اہل دنیا مبتدا اور کافر ان مطلق خبر نہیں ہے بلکہ اہل دنیا خبر مقدم ہے اور کافر ان مطلق مبتدائے موخر ہے یعنی جو کافران مطلق ہیں وہی اہل دنیا ہیں مومن اہل دنیا ہے ہی نہیں کیونکہ ابھی حدیث سے معلوم ہوگیا ہے کہ خدا کے ذکر کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ملعون نہیں ہیں کون مومن ایسا ہوگا جو خدا کے ذکر سے کچھ بھی علاقہ نہ رکھتا ہوگا۔

 غرض وہی دنیا مذموم ہے جو آخرت بمعنے دنیا کے مقابلہ میں ہو باقی اسباب دنیا تو اس میں حدیث نے دو قسمیں کردی ہیں ایک وہ جو آخرت میں کچھ دخل اور اس سے تعلق رکھتی ہوں اور ایک وہ جو آخرت میں اصلادخل نہ رکھتی ہوں تو جو دنیا آخرت میں دخل نہیں رکھتی یہ حقیقت میں دنیائے محضہ اور مذموم ہے اور اسی کو لہوولعب فرمایا گیا ہے تو حق تعالیٰ نے اس مقام پر فیصلہ فرمادیا ہے کہ ایسی دنیا متوجہ ہونے کے قابل نہیں بلکہ توجہ کے قابل تو آخرت ہے اسی کو ارشاد فرماتے ہیں وان الدار الاخرۃ لھی الحیوان کہ حیات آخرت ہی سراپا حیات ہے جس میں حصر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔

بہرحال یہ مرض تھا ہمارے اندر جس کا حق تعالیٰ نے کسی خوبی سے فیصلہ فرمادیا ہے کہ دنیا وآخرت دونوں کے حالات یعنی لہوولعب ہونا اور حیات کاملہ ہونا بتادیئے تاکہ دونوں کے حالات سننے کے بعد ہر عاقل نہایت آسانی سے خود ہی فیصلہ کرسکے کہ ان میں سے کون توجہ کے قابل ہے اور کون عدم توجہ کے قابل اور یہ حالت بتلا کر یہ بھی بتلا دیا کہ جس طرح بعض کام جن کی صورت دنیا ہے اور وہ دخل رکھتے ہیں آخرت میں واقع میں دنیا نہیں ہیں کیونکہ وہ لہوولعب نہیں اسی طرح اس کے مقابلہ وآخرت کا کام جو صورت میں آخرت کے ہیں اور واقع میں دنیا کے لئے ہیں وہ آخرت نہیں ہیں ۔

کلید دردوزخ است آں نماز
کہ در چشم مردم گذاری دراز

(یعنی وہ نماز دوزخ کے دروازہ کی کنجی ہے جو لوگوں کو دکھانے کے لئے دراز کی جائے)

حقیقت آخرت : 

ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ آخرت سراپا حیواۃ ہے کیونکہ زیادہ مستعمل حیوان بمعنے مصدر ہے یہ ایسا ہے کہ جیسے زید عدل اور اگر صفت بھی ہو تو بمعنی ذی حیات ہوگی پس وہاں کی درودیوار میں بھی زندگی ہوگی دیواریں گائیں گی نغمات پیدا ہوں گے درخت گائیں گے اور بظاہر اس لئے کہا کہ کلام میں یہ بھی احتمال ہے کہ الدار کا مضاف مقدر ہو یعنی حیوۃ الدار الاخرۃ ہی الحیوۃ باقی جنت کا بولنا خودحدیث میں آیا ہی ہے اور وہ بظاہر حقیقت پر محمول ہے یہی صوفیہ کا مسلک ہے۔

 بعض اہل ظاہر خشک ہیں وہ کہتے ہیں کہیں جنت مثل بولنے والے کی ہوگی جیسے بے جان تصویر کا کہہ دیتے ہیں کہ ایسی جیسے اب بول پڑے گی۔ یہ حیات کے قائل نہیں مگر یہ محض تاویل ہے صوفیہ کا قول ظواہر نصوص سے متاید ہے ان کے نزدیک دوزخ بھی ذی حیات ہوگی دلیل یہ ہے کہ ہل من مزید پکارے گی نیز اس میں اور بھی آثار حیات کے پائے جاتے ہیں نیز بعض اہل کشف نے جہنم کی شکل کے بارہ میں کہا ہے کہ اس کی شکل اژدھے کی سی ہے اس کے پیٹ میں سانپ بچھو کھنکھجورے وغیرہ ہیں سارا جہنم اژدھے کی صورت ہے اس سے ایک حدیث کے معنی بلا تاویل کے سمجھ میں آجاویں گے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جہنم میدان قیامت میں لائی جاوے گی جس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر باگ کو ستر ہزار فرشتے پکڑے ہوں گے مگر پھر بھی قابو سے نکلی جاتی ہوگی اور کڑکتی ہوگی اور ہل من مزید پکارتی ہوگی اس کے معنی صوفیہ کے قلو پر اس طرح سمجھ میں آتے کہ چونکہ وہ ذی حیات ہے اس لئے اس قسم کے آثار اس سے پائے جاویں گے۔

بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کو جس سہولت سے اہل باطن سمجھتے ہیں اور لوگ نہیں سمجھتے اور جاندار ہونے کی صورت میں اس کا اثر فرحت میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے اہل باطن کے مسلک پر سیرابی کی فرحت صائمین کو بہت زیادہ حاصل ہوگی کیونکہ جب سنیں گے کہ باب الریان ذی حیات ہوگا تو یہ سمجھیں گے کہ دروازہ میں داخل ہونے والے تو خوش ہوں گے ہی مگر وہ دروازہ بھی بوجہ ذی حیات ہونے کے خوش ہوگا اور پھاٹک کے جاندار ہونے پر خلاف عادت ہونے کا خیال سے تعجب نہ کیا جاوے کیونکہ خلاف عادت بھی نہیں جیسے دنیا میں بچے کے لئے اماں جان پھاٹک بن جاتی ہیں کہ لڑکا اس کے طریق خاص سے نکلتا ہے ایسے ہی وہ دوازہ ہوگا اور یہ تعجب ایسا ہی ہے جیسے ایک ملحد نے اعتراض کیا تھا کہ جنت میں دودھ کی نہروں کے واسطے اتنی گائیں کہاں سے آئیں گی جواب یہ ہے کہ دنیا میں دودھ تھن میں سے نکلتا ہے اور خدا ہی پیدا کرتا ہے اگر وہاں وہ نہر ہی خاصیت میں ایک بڑا تھن ہو اور اس میں دودھ پیدا کردیا جاوے تو کیا تعجب کی بات ہے اس طرح جیسے یہاں جاندار پھاٹک پیدا کئے ہیں وہاں بھی پیدا کردیں تو کیا محل تعجب ہے ۔