نماز کائنات کی فطرت ہے۔ جاوید احمد غامدی

نماز کائنات کی فطرت ہے ۔ جاوید احمد غامدی 
نماز کائنات کی فطرت ہے ۔ انسان کی آنکھیں ہوں اور وہ اُن سے دیکھتا بھی ہو تو اِس حقیقت کو سمجھنے میں اُسے کوئی تردد نہیں ہوتا کہ اِس عالم کا ذرہ ذرہ فی الواقع اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمیدکرتا اور اُس کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے ۔ وہ اگرچہ اِس تسبیح و تحمید کو نہیں سمجھتا ، مگر دیکھ تو سکتا ہے کہ دنیا کی سب چیزوں کا ظاہر جس طرح ہر لحظہ خدا کے سامنے سرافگندہ اور اُس کے حکم کی تعمیل میں سرگرم ہے ، اُن کا باطن بھی اِس سے مختلف نہیں ہو سکتا ۔ زمین پر چلتے ہوئے جانور، باغوں میں لہلہاتے ہوئے درخت، فضاؤں میں چہکتے ہوئے پرندے ، سمندروں میں تیرتی ہوئی مچھلیاں اور آسمان پر چمکتے ہوئے تارے اور سورج اور چاند، سب اپنے وجود سے اِس بات کی گواہی دیتے ہیں:

تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ، وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٰ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ .﴿بنی اسرائیل ۷۱: ۴۴﴾

’’ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سب چیزیں جو آسمان و زمین میں ہیں ، اُس کی تسبیح کرتی ہیں۔ اور کوئی چیز بھی نہیں ہے جو حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ، لیکن تم اُن کی تسبیح نہیں سمجھتے ۔ ‘‘


یہ سب اپنی اپنی نماز اور تسبیح سے پوری طرح واقف ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی اُس سے غافل نہیں ہوتے ۔ انسان دیکھے تو دیکھ سکتا ہے کہ پرندے جب پر پھیلائے ہوئے فضاؤں میں محوپرواز ہوتے ہیں تو خدا کے سامنے کمال عجز کے ساتھ گویا بچھے ہوئے ہوتے ہیں:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ، کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہ، وَ تَسْبِیْحَہ، ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ.﴿النور ۴۲: ۱۴﴾

’’دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں وہ سب جو آسمان و زمین میں ہیں اور ﴿فضاؤں میں﴾ پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی ۔ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے اور جو کچھ یہ کرتے ہیں ، اللہ اُس سے پوری طرح واقف ہے۔‘‘
استاذ امام لکھتے ہیں :

’’اِس کائنات کی ہر چیز اپنی تکوینی حیثیت میں ابراہیمی مزاج رکھتی ہے ۔ سورج، چاند، ستارے ، پہاڑ اور چوپائے، سب خدا کے امر و حکم کے تحت مسخر ہیں ۔ اِن میں سے کوئی چیز بھی سرموخدا کے مقرر کیے ہوئے قوانین سے انحراف نہیں اختیار کرتی ۔ سورج ، جس کو نادانوں نے معبود بنا کر سب سے زیادہ پوجا ہے ، خود اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ وہ شب و روز اپنے رب کے آگے قیام ، رکوع اور سجدے میں ہے ۔ طلوع کے وقت وہ سجدے سے سر اٹھاتا ہے ، دوپہر تک وہ قیام میں رہتا ہے ، زوال کے بعد وہ رکوع میں جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت وہ سجدے میں گر جاتا ہے اور رات بھر اِسی سجدے کی حالت میں رہتا ہے ۔ اِسی حقیقت کا مظاہرہ چاند اپنے عروج و محاق سے اور ستارے اپنے طلوع و غروب سے کرتے ہیں ۔ پہاڑوں ، درختوں اور چوپایوں کا بھی یہی حال ہے ۔ اِن میں سے ہر چیز کا سایہ ہر وقت قیام ، رکوع اور سجود میں رہتا ہے اور غور کیجیے تو یہ حقیقت بھی نظر آئے گی کہ اِس سایے کی فطرت ایسی ابراہیمی ہے کہ یہ ہمیشہ آفتاب کی مخالف سمت میں رہتا ہے ۔ اگر سورج مشرق کی سمت میں ہے تو سایہ مغرب کی جانب پھیلے گا اور اگر مغرب کی جانب ہے تو ہر چیز کا سایہ مشرق کی طرف پھیلے گا ۔ گویا ہر چیز کا سایہ اپنے وجود سے ہمیں اِس بات کی تعلیم دے رہا ہے کہ سجدہ کا اصل سزاوار آفتاب نہیں ، بلکہ خالق آفتاب ہے ۔ ‘‘ ﴿تدبر قرآن ۵/۹۲۲﴾

ارشاد فرمایا ہے :

اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْ ئٍ، یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہ، عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَھُمْ دٰخِرُوْنَ ، وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلٰٓئِکَۃُ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ.﴿النحل ۶۱: ۸۴-۹۴﴾

’’اور کیا اِنھوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے جو چیزیں بھی پیدا کی ہیں ، اُن کے سایے دائیں اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور اُن پر فروتنی ہوتی ہے۔ اور زمین و آسمان میں جتنی جان دار مخلوقات ہیں، سب اللہ ہی کے آگے سر بہ سجود ہیں اور اُس کے فرشتے بھی اور وہ کبھی سرکشی نہیں کرتے۔ ‘‘

چنانچہ انسان جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا پورے عالم کی طرف سے تسبیح و تحمید اور رکوع و سجود کی اِس دعوت پر لبیک کہتا ہے ۔ وہ اپنی فطرت کا ساز اِس ساز سے ہم آہنگ کر دیتا ہے اور اپنے اِس عمل سے اعلان کرتا ہے کہ وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے گا اور اپنا جسم ہی نہیں ، اپنی روح بھی اُس پروردگار کے حضور میں جھکا دے گاجس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔ ساری کائنات سے الگ ہو کر وہ ایسی کوئی راہ نہیں نکالے گا جس میں اُس کا کوئی ہم سفر نہیں ہے اور اگر ہیں تو وہی ہیں جن کے لیے خدا کا عذاب لازم ہو چکا ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِیالْاَرْضِ، وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ، وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ.﴿الحج ۲۲: ۸۱﴾

’’دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہیں وہ سب جو زمین و آسمان میں ہیں اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی، اور بہت سے وہ ہیں کہ جن کے لیے عذاب لازم ہو چکا ہے۔’’