![]() |
حضرت الیاس( ال یاسین ؑ ) اور ان کی قوم |
حضرت الیاس (علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں صرف دو ہی مقامات پر آیا ہے۔ ایک یہ مقام اور دوسرا سورۃ انعام آیت 85۔ موجودہ زمانہ کے محققین ان کا زمانہ 875 اور 850 قبل مسیح کے درمیان متعین کرتے ہیں۔ وہ جِلْعاد کے رہنے والے تھے (قدیم زمانہ میں جِلْعاد اس علاقے کو کہتے تھے جو آج کل موجودہ ریاست اردن کے شمالی اضلاع پر مشتمل ہے اور دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے ۔) بائیبل میں ان کا ذکر ایلیاہ تشبِی (elijah theTishbite) کے ناک سے کیا گیا ہے۔ ان کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں :
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رجُبْعام (Rehoboam) کی نااہلی کے باعث بنی اسرائیل کی سلطنت کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے۔ ایک حصہ جو بیت المقدس اور جنوبی فلسطین پر مشتمل تھا، آل داؤد کے قبضے میں رہا، اور دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہوگئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا۔ اگرچہ حالات دونوں ہی ریاستوں کے دگرگوں تھے، لیکن اسرائیل کی ریاست شروع ہی سے سخت بگاڑ کی راہ پر چل پڑی تھی جس کی بدولت اس میں شرک و بت پرستی، ظلم و ستم اور فسق و فجور کا زور بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ جب اسرائیل کے بادشاہ اخی اب (Ahab) نے صیدا (موجودہ لبنان ) کے بادشاہ کی لڑکی ایزبل (Iazebel) سے شادی کرلی تو یہ فساد اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس مشرک شہزادی کے اثر میں آ کر اخی اب خود بھی مشرک ہوگیا، اس نے سامریہ میں بعل کا مندر اور مذبح تعمیر کیا، خدائے واحد کی پرستش کے بجائے بعل کی پرستش رائج کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اسرائیل کے شہروں میں علانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں۔
یہی زمانہ تھا جب حضرت الیاس (علیہ السلام) یکایک منظر عام پر نمودار ہوئے اور انہوں نے جلعاد سے آ کر اخی اب کو نوٹس دیا کہ تیرے گناہوں کی پاداش میں اب اسرائیل کے ملک پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے گا، حتیٰ کہ اوس تک نہ پڑے گی۔ خدا کے نبی کا یہ قول حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور ساڑھے تین سال تک بارش بالکل بند رہی۔ آخر کار اخی اب کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے حضرت الیاس کو تلاش کرا کے بلوایا۔ انہوں نے بارش کے لیے دعا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اسرائیل کے باشندوں کو اللہ رب العالمین اور بعل کا فرق اچھی طرح بتا دیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ ایک مجمع عام میں بعل کے پوجاری بھی آ کر اپنے معبود کے نام پر قربانی کریں اور میں بھی اللہ رب العلمین کے نام پر قربانی کروں گا۔ دونوں میں سے جس کی قربانی بھی انسان کے ہاتھوں سے آگ لگائے بغیر غیبی آگ سے بھسم ہوجائے اس کے معبود کی سچائی ثابت ہوجائے گی۔ اخی اب نے یہ بات قبول کرلی۔ چنانچہ کوہ کرمل (Carmel)_ پر بعل کے ساڑھے آٹھ سو پجاری جمع ہوئے اور اسرائیلیوں کے مجمع عام میں ان کا اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں بعل پرستوں نے شکست کھائی اور حضرت الیاس نے سب کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ بعل ایک جھوٹا خدا ہے، اصل خدا وہی ایک اکیلا خدا ہے جس کے نبی کی حیثیت سے وہ مامور ہو کر آئے ہیں۔ اس کے بعد حضرت الیاس نے اسی مجمع عام میں بعل کے پجاریوں کو قتل کر ا دیا اور پھر بارش کے لیے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی یہاں تک کہ پورا ملک اسرائیل سیراب ہوگیا۔
لیکن معجزات کو دیکھ کر بھی زن مرید اخی اب اپنی بت پرست بیوی کے شکنجے سے نہ نکلا۔ اس کی بیوی ایزبل حضرت الیاس کی دشمن ہوگئی اور اس نے قسم کھالی کہ جس طرح بعل کے پجاری قتل کیے گئے ہیں اسی طرح الیاس (علیہ السلام) بھی قتل کیے جائیں گے۔ ان حالات میں حضرت الیاس کو ملک چھوڑنا پڑا اور چند سال تک وہ کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزیں رہے۔ اس موقع پر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو فریاد کی تھی اسے بائیبل ان الفاظ میں نقل کرتی ہے :
" بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں "۔ (1۔ سلاطین 10:19)
اسی زمانے میں بیت المقدس کی یہودی ریاست کے فرمانروا یہورام (Jehoram) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی بیٹی سے شادی کرلی اور اس مشرک شہزادی کے اثر سے وہی تمام خرابیاں جو اسرائیل میں پھیلی ہوئی تھیں، یہودیہ کی ریاست میں بھی پھیلنے لگیں۔ حضرت الیاس نے یہاں بھی فریضۂ نبوت ادا کیا اور یہورام کو ایک خط لکھا جس کے یہ الفاظ بائیبل میں نقل ہوئے ہیں :
" خداوند تیرے باپ داؤد کا خدا یوں فرماتا ہے : اس لیے کہ تو نہ اپنے باپ یہوسفط کی راہوں پر اور نہ یہوواہ کے بادشاہ آسا کی راہوں پر چلا بلکہ اسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا ہے اور یہوواہ اور یروشلم کے باشندوں کو زنا کار بنایا جیسا اخی اب کے خاندان نے کیا تھا اور اپنے باپ کے گھرانے میں سے اپنے بھائیوں کو جو تجھ سے اچھے تھے قتل بھی کیا، سو دیکھ خداوند تیرے لوگوں کو اور تیری بیویوں کو اور تیرے سارے مال کو بڑی آفتوں سے مارے گا اور تو انتڑیوں کے مرض سے سخت بیمار ہوجائے گا یہاں تک کہ تیری انتڑیاں اس مرض کے سبب سے روز بروز نکلتی چلی جائیں گی (2۔ تواریخ 21:12۔15)
اس خط میں حضرت الیاس نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ پہلے یہورام کی ریاست بیرونی حملہ آوروں کی تاخت سے تباہ ہوئی اور اس کی بیویوں تک کو دشمن پکڑ لے گئے، پھر وہ خود انتڑیوں کے مرض سے ہلاک ہوا۔
چند سال کے بعد حضرت الیاس پھر اسرائیل تشریف لے گئے اور انہوں نے اخی اب کو، اور اس کے بعد اس کے بیٹے اخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی مسلسل کوشش کی، مگر جو بدی سامریہ کے شاہی خاندان میں گھر کرچکی تھی وہ کسی طرح نہ نکلی۔ آخر کار حضرت کی بد دعا سے اخی اب کا گھرانا ختم ہوگیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا سے اٹھا لیا۔ ان واقعات کی تفصیل کے لیے بائیبل کے حسب ذیل ابواب ملاحظہ ہوں : 1۔ سالطین، باب 17۔18۔19۔21۔2۔ سلاطین باب 1۔2۔3۔ تواریخ باب 21۔
قرآن میں حضرت الیاس ؑ کا نام " اِلْ یَاسِیْن " بھی آیا ہے اس کے متعلق بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت الیاس کا دوسرا نام ہے، جس طرح حضرت ابراہیم کا دوسرا نام ابراہام تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ اہل عرب میں عبرانی اسماء کے مختلف تلفظ رائج تھے، مثلاً میکال اور میکائیل اور میکائین ایک فرشتے کو کہا جاتا تھا۔ ایسا ہی معاملہ حضرت الیاس کے نام کے ساتھ بھی ہوا ہے خود قرآن مجید میں ایک ہی پہاڑ کا نام طور سینا بھی آیا ہے اور طور سینین بھی۔
-----------------------
بحوالہ : سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :70، 74 تفہیم القرآن جلد چہارم سید ابوالاعلی مودودی ؒ