قرآن اور حدیث کا باہمی تعلق اور تدوین حدیث ۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ

قرآن اور حدیث کا باہمی تعلق 
علم القرآن اسلامی علوم میں دل کی حیثیت رکھتا ہے تو علم حدیث شہ رگ کی۔ یہ شہ رگ اسلامی علوم کے تمام اعضاء و جوارح تک خون پہنچا کر ہر آن ان کے لئے تازہ زندگی کا سامان پہنچاتا رہتا ہے، آیات کا شانِ نزول اور ان کی تفسیر، احکام القرآن کی تشریح و تعیین، اجمال کی تفصیل ، عموم کی تخصیص، مبہم کی تعیین، سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے، اسی طرح حامل قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور حیاتِ طیبہ، اور اخلاق و عاداتِ مبارکہ، اور آپ کے اقوال و اعمال اور آپ کے سنن و مستحبات اور احکام و ارشادات اسی علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں۔ اسی طرح خود اسلام کی تاریخ ، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ کے احوال اور ان کے اعمال و اقوال اور اجتہاد و استنباطات کا خزانہ بھی اسی کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، اس بنا پر اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اسلام کے عملی پیکر کا صحیح مرقع اسی علم کے بدولت مسلمانوں میں ہمیشہ کے لئے موجود و قائم ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ تا قیامت رہے گا۔


مسلمانوں نے آغازِ اسلام سے قرآن پاک کے بعد اس علم کو اپنے سینہ سے لگایا اور اپنی بوری محنت، قابلیت اور اخلاص و عقیدت کے ساتھ اس کی ایسی خدمت کی کہ دنیا کی کوئی قوم اپنی قدیم روایات و اسناد کی حفاظت کی مثال نہیں پیش کر سکتی اور ایسا ہونا ہی ضروری تھا کیونکہ اسلام قیامت تک کی زندگی لے کر آیا ہے اس لئے اس کے صحیفۂ آسمانی اور حیاتِ نبوی کا رشتہ بھی قیامت کے دامن سے وابستہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کا اظہار قرآن پاک کی اس آیت میں فرمایا ہے:


و کیف تکفرون و انتم تتلیٰ علیکم اٰیات اللہ و فیکم رسولہ


اور تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کر سکتے ہو حالانکہ تم کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول موجود ہے۔


اس آیت پاک سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دائمی ہدایت کے لئے دو ایسی مشعلیں روشن کردی ہیں جو قیامت تک بجھنے والی نہیں ہیں، ان میں ایک تو آیات اللہ ہیں یعنی قرآن پاک اور دوسری چیز رسول کا وجود، حقیقی وجود بھی اور مجازی بھی، ظاہر ہے کہ کوئی انسان اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے نہیں آیا اور نہ رسول ﷺ آئے چنانچہ قرآن پاک نے اس کو بھی ظاہر کر دیا ہے۔

و ما جعلنا لبشر من قبلک الخلد انک میت و انھم میتون۔؎

اور ہم نے آپ سے پہلے کسی کے لئے بھی ہمیشہ کی حیات دنیا نہیں رکھی، اور آپ بھی مر جائیں گے اور وہ بھی مر جائیں گے۔


لیکن اس موت کے بعد بھی حیاتِ نبویؐ کو مجازاً وہی دوام و قیام نصیب ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی کے ہر حرف کو دوام بخشا اور علمِ حدیث کے اوراق میں حضورِ انور ﷺ اب بھی اہل بصر کو چلتے پھرتے اور بولتے چالتے دکھائی دیتے ہیں، اسی لئے بزرگوں کا مقولہ ہے " جس گھر میں حدیث کا مجموعہ ہے فکاَنما فیہ نبی یتکلمُ اس گھر میں نبی ﷺ اب بھی تکلم فرما رہے ہیں" اسی بات کو حضور ﷺ نے اپنے اس قول مبارک میں ظاہر فرمایا ہے:


انی ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمتکتم بھا کتاب اللہ و سنۃ رسولہ ( مؤطا و مشکوٰۃ باب الاعتصام بالسنۃ)


میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جن دو کو جب تک مضبوط پکڑے رہوگے گمراہ نہ ہو گے، اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت۔


اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے پاس قرآن پاک اور سنت نبوی دونوں مل کر قیامت تک یہ ہدایت کا سر چشمہ رہے گا۔ دوسری بات اس سے یہ واضح ہوئی کہ اسلام کی صحیح تصویر اور اسلام کی صحیح تعلیم کتاب اور سنت کی باہمی توفیق و تطبیق سے معلوم ہوگی اور جن لوگوں نے یہ چاہا یا چاہیں گے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کریں اور ایک کو مانیں اور دوسرے کو انکار کریں وہ صراطِ مستقیم سے دور ہوئے اور ہوں گے۔


جن لوگوں کی نظر۔۔۔۔۔ علم کلام و عقائد اور تاریخ فِرق پر ہے وہ آسانی سے اس بات کو مان لیں گے کہ اسلام میں جتنے بدعتی فرقے پیدا ہوئے وہ وہی ہیں جنہوں نے کتاب کو سنت سے یا سنت کو کتاب سے الگ کرنا چاہا۔ خوارج نے کتاب کو مانا اور سنت سے انحراف کیا اور ان کے مقابل کےفرقہ نے کتاب کر محرف بنا کر چھوڑا اور صرف اپنے ائمہ کی سنت کی پیروی کا دعوٰی کیا۔ اسی طرح معتزلہ نے قرآن کو بتاویل تسلیم کیا اور احادیث سے اعراض کیا اور راہ راست سے دور ہوئے۔


جو کچھ پہلے ہوا وہ آج بھی ہو رہا ہے۔ سرسید کے زمانے سے احادیث کا فن، ناآشنایان فن کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ چونکہ ان کے خود ساختہ عقل کے معیار پر جو چیز پوری نہیں اترتی، اگر قرآن پاک کی کوئی آیت ہے تو اس کی دُور ازکار تاویل اور اگر حدیث ہے تو اس سے انکار کر کے اپنے زعم میں اسلام کے چہرہ سے خلاف عقل ہونے کا داغ مٹانا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ داغ سمجھ سمجھ کر خدا جانے اسلام کی صحیح تصویر کے کتنے اجزا کو مٹا چکے ہیں۔


قرآن پاک کے فہم کے نئے دعویدار اس زمانے میں اور بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قرآن پاک کو ہر ضرورت اور ہر حکم اور ہر مسئلہ کے لئے کافی اور اپنی عقل اور فہم کو اس کی تفسیر اور تشریح کافی تر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ چاہتے ہیں کہ احادیث اور فقہ کا سارا دفتر مٹ جائے اور ان کی جگہ ان کے " اجتہادات" اور " استنباطات" قرآن پاک کا حقیقی اڈیشن اور اسلام کی صحیح تعلیمات کا مستند مخزن قرار پا جائے۔ ہیہات ہیہات، ان بدعتیوں اور گمراہوں نے تو مستشرقین یورپ کے سفیہانہ اعتراضات کو جو فن حدیث پر انہوں نے کئے ہیں اپنا کر سرے سے اس فن کی بیخ کنی شروع کر دی۔ انہیں سے سن کر یہ کہا جاتا ہے کہ حدیثیں تو حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد قلمبند ہوئی ہیں۔ ان کا کیا اعتبار اور کبھی حدیث کے فن رجال کی وثاقت پر اعتراضات کئے جاتے ہیں اور کبھی عقلی حیثیت سے ان پر ایرادات پیش کئے جاتے ہیں اور ان سب کے نتیجہ کے طور پر کوئی نماز کے اوقات کو اور کوئی نماز کے ارکان کو، کوئی روزہ کی تعداد کو، کوئی حج کے ارکان کو، کوئی قربانی کو، کوئی سمت قبلہ کو، کوئی وضو کی ہیئت یا ضرورت کو، کوئی مسلمانوں کے اصولِ وراثت کو بدلنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو ایک نئے اسلام کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض آگے برھ کر عقائد میں بھی کتربیونت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ بعض تو حیاتِ برزخ کا انکار، گنہگاروں کی شفاعت اور بخشش کا انکار، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر عدمِ ایمان سے عدم نجات کے مسلمہ عقائد کا انکار کر رہے ہیں اور عدم حجیت ِ حدیث کو اپنے مبتدع عقائد کے ثبوت کے لئے ضروری جانتے ہیں۔


اللہ تعالٰی نے اسلام کی حفاظت کا جو وعدہ فرمایا ہے اس کی کھلی شہادت اس سے ملتی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ کے آخری زمانے سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں چھوٹے بڑے بدعتی فرقے پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام کے چاند پر خاک ڈالنے کی کوشش کی اور اسلام کے منور آئینہ کو مکدر کر دینا چاہا مگر اللہ تعالٰی نے ہر دور میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا جنہوں نے بتائید الٰہی ان گردبیزوں کی ساری آرزوؤں کو خاک میں ملا دیا اور ان کے بدعات کے گرد و غبار کو ہٹا کر اس آئینہ کو ہمیشہ روشن رکھا۔


اس زمانے میں بھی ان بدعتیوں کے مقابلہ کے لئے اللہ تعالٰی نے اپنے مخصوص بندوں کو ہمت، جرأت، بصیرت اور اہلیت و استعداد بخشی جنہوں نے ان کے ہر نیزے کو اپنے سپر سے روکا، ان کے ہر حملہ کا کلہ بکلہ جواب دیا، ان کے ہر اعتراض کو دور کیا اور ان کے ہر شبہ کو دفع کیا۔


اس زمانے میں اس فرض کو ادا کرنے کے لئے جو دستہ آگے بڑھا اس کے ہراول میں ہمارے دوست، مناظر اسلا، متکلم ملت، سلطان القلم مولانا سید مناظر احسن صاحب گیلانی (متع اللہ المسلمین بطول بقائہ) کا نام نامی ہے جن کے قلم کی روانی، اسلام کی محافظت میں تیغ رانی کا کام دیتی ہے وہ ہر سال اور سال کے مختلف حصوں میں اپنی تحقیقات علمیہ کے بلند نمونے پیش کرتے رہتے ہیں اور خصوصاً اپنے توسیعی خطبات اپنے تلامذہ کے امتحانی مقالات کے پردے میں علم اور دین کی ایسی خدمتیں انجام دے رہے ہیں جو سارے مسلمانوں کی تحسین اور شکریہ کی مستحق ہیں۔


زیر نظر مجموعہ بھی موصوف کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے زمانہ کی ذہنیت اور مذاق کا لحاظ رکھ کر علم حدیث کی تعریف، علم حدیث کی اہمیت، اس کی تاریخ اور اس کے تحریری سرمایہ کے آغاز و انجام اور اس کی تدوین پر محققانہ مباحث لکھے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان کو جزائے خیر دے اور ملت کے لیے ان کے وجود کو ہمیشہ نافع سے نافع تر بناتا رہے۔


این دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد


ہیچمداں


سید سلیمان ندوی


۱۳ ربیع الثانی ۱۳۶۵ ہجری (1)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ماخوز از دیباچہ : تدوین حدیث ، مصنف سید مناظر احسن گیلانی ؒ