دعا کى قبوليت - مولانا وحيد الدين خان

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
دعا کى قبوليت 

قرآن کی اِس آیت میں ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم تسکین (solace) کا سامان موجود ہے۔اس میں ایک مومن بندے کے لیےدعاکا ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ بندہ اللہ رب العالمین سے ایک چیز کا طالب ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کے معاملہ کو سنبھالنے والا بن جائے۔ اِس آیت کو لے کر ایک بندۂ مومن کہہ سکتا ہے— خدایا، میں آخری حد تک ایک عاجز انسان ہوں، لیکن قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ تیری رحمت بہت وسیع ہے۔ خدایا، تو نے میرے گناہوں کے بارے میں یہ فرمادیا ہے کہ تو خود اس کو معاف فرمائے گا۔ اب میں جو دعا کررہا ہوں تو کیا تو میری دعا کو ریجکٹ کردے گا۔ یعنی جب تو بندوں کے معاملے میں اتنا فیاض ہے کہ بغیر مانگے ہوئے تو اعلان کررہا ہے کہ تو ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا تو جب میں خود سے سوال کررہا ہوں تو کیا تو اس کو پورا نہیں فرمائے گا۔
سب سے بڑی دعا وہ ہے جو حقیقی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference)کے حوالے سے کی جائے۔جس انسان کو شعوری طورپر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے، وہ پکار اٹھے گا کہ خدایا، میں کامل طورپرعاجز انسان ہوں، لیکن تونے اپنی رحمت سے بلا استحقاق مجھے یک طرفہ طورپر تمام چیزیں عطا کی ہے، موت کے بعد بھی دوبارہ میں اپنے آپ کو کامل طور پر عجز کی حالت میں پاؤں گا۔ خدایا، جس طرح تونے موت سے پہلے کی زندگی میں میرے عجز کی کامل بھرپائی کی، اسی طرح تو موت کے بعد کی زندگی میں بھی میرے عجز کا مکمل بدل عطا فرما، میرے تمام گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کردے۔