تفسیر سفیان ثوری کی تحقیق و تدوین - ابوالبشر احمد طیب

تفسیر سفیان ثوری کی تحقیق و تدوین
امام سفیان ثوری ہماری علمی تاریخ میں امیر المومین فی الحدیث کے لقب سے مشہور ہیں ۔  آپ تبع تابعین میں سے تھے آپ کا شمار آئمہ مجتہدین اور ایک الگ فقہی مسلک کے بانی میں کیا جاتا ہے اگرچہ مورخین نے ان کو  مفسرین کے طبقات میں شمار نہیں کیا لیکن اپنے دور میں تفسیر و تاویل کے میدان میں دوسرں سے  کم نہ تھے جیسے سفیان بن عیینہ،  وکیع بن جراح، اسحاق بن راہویہ ہیں۔


 باختلاف روایت سفیان ثوری  کی ولادت سلیمان ابن عبد الملک کے زمانۂ خلافت میں سنہ 96،97ھ بمطابق 715ء میں ہوئی (بعض لوگوں نے ان کا سنہ ولادت سنہ95ھ لکھا ہے؛ مگریہ اس لیے غلط ہے کہ اس بات پرسب کا اتفاق ہے کہ وہ سلیمان کی خلافت میں پیدا ہوئے تھے اور سلیمان سنہ96ھ میں تخت خلافت پربیٹھا تھا)۔ سفیان ثوری  کی وفات۔ 161ھ /۔ 778ء میں ہوئی. 

برصغیر کے مشہور عالم دین، عربی دان، محقق و ادیب و نقاد مولانا امتیاز علی عرشی صاحب نے پہلی مرتبہ  تفسیر سفیان ثوری کو  عربی زبان میں مرتب کیا، آپ نے اس پر حواشی اور تعلیقات بھی لکھی، حکومت ہند کی طرف سے اس کی طباعت کا اہتمام کیا گیا۔

مولاناعرشی صاحب نے ان کی دیگر تصنیفات کی جوتفصیل اپنے مضمون مطبوعہ معارف سنہ۱۹۳۵ء میں دی ہے اس کے مطابق سفیان ثوری  کی تصانیف درج ذیل ہیں۔ 

(۱)الجامع الکبیر فی الفقہ، یہ کتاب ابوبکر محمد بن ابی الخیر الاموی نے چوتھی صدی ہجری میں اور علامہ محمد عابد بن احمد لعی سندی نے تیرھویں صدی ہجری کے نصف اوّل میں پڑھی تھی۔ 

(۲)الجامع الصغیر، جو الجامع کے نام سے مشہور ہے ۔  یہ ایک زمانہ میں محدثین میں بڑی مقبول و متداول رہی ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے علمِ حدیث کی جب تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے جن کتابوں کی طرف توجہ کی وہ سفیان ثوری کی ’’جامع‘‘ اور عبد اللہ بن مبارک اور وکیع کی تصنیفات تھیں۔ امام بخاری نے ’’جامعِ سفیان‘‘ کا سماع اپنے وطن ہی میں امام ابوحفص کبیر سے کیا تھا۔

 (۳)اکتاب الفرائض یہ کتاب بھی محمد بن عابد سندی نے پڑھی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب بھی تیرھویں صدی تک موجود تھی۔ 

(۴)کتاب التفسیر یہ کتاب بھی محمد عابد سندی نے پڑھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب بھی تیرھویں صدی تک اہلِ علم میں متداول رہی ہے، اس تفسیر کا ایک حصہ جومخطوطہ ہے، کتاب خانہ رامپور میں موجود ہے۔ 

مولانا عرشی صاحب کی کاوش سے تفسیری دنیا میں تفسیر سفیان ثوری  کی اشاعت سے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی،  کیونکہ تفسیر ابن جریر( سن وفات 310ھ ) سے قبل کسی مرتب تفسیر کا پتہ نہیں تھا ۔ مولانا نے اس تفسیر کو جس محنت اور ریاضت سے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ایک مثال بن گئی، وہ تحقیق کے آخری پتھر کو چھولینے کے لئے سردھٹر کی بازی لگادیتے۔ اس کی تدوین و تحقیق  سے  تفسیری لٹریچر میں ایک نیا اضافہ ہوا۔ 

یہ تفسیر اگرچہ انتہائی مختصر اور علمی حلقہ میں زیادہ قابل توجہ نہیں تھی لیکن عرشی صاحب کی تحقیق وتدوین کے بعد  اس کی اہمیت میں  اضافہ ہوا۔ عرشی صاحب کے مطابق صرف 18 صفحات پر مشتمل تھی لیکن  تحقیق ، تدوین و تعلیق کے بعد تقریبا چار سو سے  زیادہ صفحات کی ایک نادر کتاب بن گئی۔ 

اس تفسیر میں سفیان ثوری کا منہج یہ ہے کہ انہوں  نے ہر سورہ کے کچھ بنیادی الفاظ اور مضامین کو بیان کیا اور یا کہیں کہیں  انہوں نے سورہ کے بنیادی موضوع کا بھی تعین کیا۔ 

یہ تفسیر اکثر سورتوں کے چند الفاط کے معانی یا مدعا بیان کرتی ہے یا کسی آیت کے مجموعی معانی بیان کرتی ہے لیکن ان تمام تفسیر کے لیے انہوں نے روایات کا سہارا لیا  ہے ۔ مثلا ایک جگہ انہوں نے "وماکان اللہ لیضیع ایمانکم" میں ایمان سے مراد نماز لی ہے اسی طرح سورہ بقرہ میں "الباساء"  سے فقر اور "الضراء" سے مصیبت و اذیت مراد لی ہے۔   "فلارفث و لا فسوق" میں ان کے نزدیک  رفث سے مراد جماع ہے اور فسوق سے مراد گالی دینا ہے۔  اسی طرح بعض جگہ آیت کی تفسیر کسی دوسری آیت سے کی گئی ہے ۔

اسی طرح اس تفسیر سے حروف مقطعات کے بارے ایک نقطہ نظر سامے آتا ہے  مثلا "طہ" اور "یٰسین" کو "فواتح السورہ" کا نام دیا۔ یعنی جس طرح ایک مقرر اپنی تقریر کے آغاز سے قبل "اما بعد" کہتا ہے اسی طرح بعض سورتوں کے حروف مقطعات ہیں ان کے کوئی معانی نہیں ہیں اور کلام عرب میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلا ایک عربی شاعر کے ہاں حرف "ق" کا استعمال یوں ہے: 

                فقلت لھا قِفِی فقالتْ لی قِ   

یعنی میں نے اس عورت سے کہا کہ ٹھہر جا اس نے کہا قِ  (یعنی وقفتُ : میں ٹھہر گئی ۔)  حرف ق سے یہاں "وقفت" مراد ہے۔  
اس بارے ميں برصغیرکے مشہور مفسر مولانا حمید الدین فراہی نے قابل قدر بحث کی ہے۔ 

 مولانا عرشی صاحب نے اس پر ایک عالمانہ مقدمہ لکھا، اس میں تفسیر سفیان ثوری کے مخطوطے کا ایک مختصر تعارف، تفسیر کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا اور مفسرین کی روایات کو جمع کرنے کا کام کب سے  شروع ہوا بیان کیا۔ ان کے نزدیک اولین مفسرین میں  شعبہ بن حجاج ( 160ھ ) یزید بن ہارون (206ھ) اور اسحاق بن راہویہ (238ھ) کے اسماء گرامی لئے جا سکتے ہیں ۔ اس مقدمہ میں سفیان ثوری کے سوانح حپات پر ایک جامع مرقع  بھی پیش کیا ۔  

یہ اگرچہ ايک نا مکمل تفسیر ہے مگر عرشی صاحب نے اس کی تمام روایات کی تحقیق اور کتب احادیث،  تفاسیر اور دیگر مصادر سے تائید و توثیق پیش کی ہے۔ اگر سفیان ثوری نے کوئی تفسیر بغیر سند پیش کی  ہے تو عرشی صاحب نے اسے دیگر شواہد سے اس کی مکمل سند پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عرشی صاحب کا کمال یہ ہے کہ تمام روایات  کے بارے میں مکمل  معلومات فراہم کی ہے اس میں کل 299 روایات ہیں اس کے ساتھ ان روایات کے  تمام راویوں کے بارے میں بھی تحقیق  کی ہے۔ بے شک دینیات کے محققین کے لئے یہ ایک پیش بہا سرمایہ ہے ۔

عرشی صاحب نے اپنی تحقیق کی کتابیات کو ایک نئے انداز سے ترتیب دیا جیسے (1) کتب التفسیر و القراءات ، (2) کتب الحدیث، و الاصول و الکلام (3) کتب التاریخ و السیرۃ و الرجال (4) کتب اللغۃ و الادب ، اس کے بعد اشاریہ بھی دیا ہے جیسے  اشخاص، قبائل اور اقوام اور  اماکن اور بلاد کی فہرست شامل ہیں۔  سب سے آخر میں آسمانی کتب اور لغات کی فہرست ہے۔  

مولانا نے تفسیر سفیان ثوری پر  اپنی  تحقیق کی روشنی میں عربی میں ایک اہم مقالہ " الامام الثوری  و کتابہ فی التفسیر" کے عنوان سے لکھا جو دائرۃ المعارف کی سلور جبلی (1939م ) کے موقع پر پڑھا گیا ۔ 

تفسیر سفیان ثوری کے علاوہ   قرآن مجید کی خدمات پر  آپ کا دوسرا اہم کام " شواہد القرآن للطبری " ہے۔ طبری نے مفردات القرآن کی تفسیر اور توضیح کے لئے کلام عرب سے استدلال اور استشہاد کیا ہے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔  عرشی صاحب نے ان کی تحقیق و تخریج میں نہ جانے کتنے ہفت خان طے کئے۔

عرشی صاحب کا ایک اور  اہم کارنامہ  قرآن کے رسم الخط کے بارے میں ہے۔  انہونے  ابو بکر محمد بن قاسم بن محمد بن محمد بن بشار انباری بغدادی کی معروف کتاب " کتاب مرسوم الخط ' کی تحقیق و تصحیح  کا اہتمام کیا ہے  بغدادی نے اس میں قرآنی رسم الخط کو موضوع بنایا، اس میں عرشی صاحب نے  قرآن مجید کے  رسم الخط کے بارے میں  بہت سے  قدیم  مصادر کی فہرست لکھی  اور  رجال اقوام اور اماکن کا اشاریہ بھی لکھا۔ 

اسی طرح بغدادی کی دوسری کتاب " کتاب المقطوع و الموصول" کو بھی عرشی صاحب نے اپنی تحقیق سے زینت بخشی اس میں ان الفاظ کو موضوع بنایا گیا جو مقطوع و موصول ہیں۔ یہ کتاب قرآن کریم کے 78 الفاظ کے خاص رسم الخط  پر مشتمل ہے۔  

مولانا عرشی صاحب  کا ایک معرکہ آراء مقالہ سورہ کہف اور ذو القرنین کے متعلق ہے انہوں نے قدیم روایات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا  کہ قدیم روایات میں علمائے یہود کے سوالات کو سورہ کہف کا سبب نزول کہنا غلط ہے کیونکہ عرشی صاحب کی نظر میں یہ تمام روایات مشکوک ہیں۔  مولانا نے  برصغیر کے ان تمام مفسرین  پر تنقید کی ہے جنہوں نے اپنی تفسیر میں  ان روایات کو  بنیاد بنایا اور ان  پر بھی تنقید کی ہے جنہوں نے ذوالقرنین کے بارے میں  خسرو دارا اور سکندر کو قرآن کا مصداق ٹھہرایا۔  انہوں نے  مشورہ دیا کہ ہمیں ذوالقرنین کی تشخیص کے بارے میں اپنی تحقیق جاری رکھنی چاہئے ۔ (برہان شمارہ  اکتوبر 1947 دہلی) 

اس اعتراف میں کوئی مبالغہ نہیں کہ برصغیر کی  علمی تاریخ  میں  مولانا عرشی صاحب  نے عربی فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں تنقید و تحقیق کے ایسے موتی سجائے جن کی مثالیں صرف متقدمین کے یہاں ملتی ہیں ۔

مولانا  امتیاز علی عرشی 8 دسمبر 1904ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد میں حاجی خلیل، قبائل (سوات) کے سردار تھے۔ جب ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو رامپور کے آس پاس کے علاقوں پر قابض ہو گئے جو بعد میں نواب فیض اللہ خاتن کو سونپ دیے۔ مولانا کے والد وٹنری ڈاکٹر تھے جو ریاست رام پور کے ہسپتال کے انچارج تھے۔

تعلیم کے بعد بہت سے کاموں سے وابستہ رہے ، آخر سب سے سبکدوش ہوکر رامپور کے ایک عظیم ادارے رضا لائبریری سے وابستہ ہوگئے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ اسی ذخیرے سے وہ خود فیض یاب ہوئے اور علمی دنیا کو اس سے فیض پہنچایا۔ ان کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں بھی ان کے کارنامہ نہایت اہم ہیں۔  آپ کی اسی علمی وقار کی بناء پر آپ کو عربی " نیشنل اسکالر " قرار دیا گیا ہے ۔ عرب اور یورپی ممالک میں آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ آپ کے تحقیقی کاموں ميں سب سے نمایا کا م مستشرقین کی غلطیوں پر گرفت ہے۔

اس کے علاوہ آ پ کا ایک قابل قدر کام رضا لائبریری رام پور کے عربی اور اردو کے مخطوطات کی فہرست سازی ہے اس کا ایک بڑا حصہ قرآنیات سے بھی متعلق ہے۔

اس کے علاوہ بھی دیگر تحقیقی نگارشات ہیں لیکن ان میں سے اکثر غیر مطبوعہ ہیں۔ مولانا سعید اکبر آبادی نے آپ کی نگارشات کے متعلق لکھا :

" مولانا کی نگارشات کا ایک بڑا اور نہایت اہم حصہ وہ ہے جو اب تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مولانا نے تحقیق و تنقید کا جو بلند معیار قائم کیا ہے وہ اس میدان کے نوجوان رہ نوردوں کے لئے ایک مینارہ روشنی کا حکم رکھتا ہے " ( ںظرات ، مولانا سعید اکبر آبادی ، برہان ، دہلی، شمارہ مارچ 1981ء)