قرآن مجید میں "لھو الحدیث" سے کیا مراد ہے ؟

ارشاد باری تعالی ہے :

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۶﴾ وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسۡتَکۡبِرًا کَاَنۡ لَّمۡ یَسۡمَعۡہَا کَاَنَّ فِیۡۤ اُذُنَیۡہِ وَقۡرًا ۚ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ لقمان : ۷﴾
لھو الحدیث سے کیا مراد ہے ؟


ترجمہ : اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں ۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں ۔ اور اس کا مذاق اڑائیں ۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا ۔ اور جب ایسے شخص کے سامنے ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ پورے تکبر کے ساتح منہ موڑ لیتا ہے جیسے انہیں سناہی نہیں، گویا اس کے دونوں کانوں میں بہراپن ہے ۔ لہذا اس کو ایک دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا ددو۔

تفسیر:

مکی دور کی بات ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہورہا تھا تو اس کی تاثیر ایسی تھی کہ جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ بھی چھپ چھپ کر قرآن کریم سنا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض لوگ اسلام قبول کرلیتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ مکہ کے سردار اس صورت حال کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ لوگ چاہتے تھے کہ قرآن کریم کے مقابلے میں لوگوں کے لیے کوئی ایسا مشغلہ پیدا کریں کہ لوگ قرآن کریم کو سننا بند کردیں ، اسی کوشش میں مکہ کا ایک معروف تاجر نظر بن حارث ایران سے بادشاہوں کے قصوں پر مشتمل کتابیں خرید کر لایا اور بعض روایات میں ہے کہ وہ وہاں سے ایک گانی والی لونڈی خرید کر لایا ، اور لوگوں سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں عاد و ثمود کے قصے سنا تے ہیں ، میں تمہیں ان سے زیادہ دلچسپ قصے اور گانے سناّوںگا ، چنانچہ لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے مفسرین کے مطابق یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

مفسرین کے نزدیک لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ سے مراد ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے دوسری چیز سے غافل کر دے ۔ مثلاً فضول گپ شب، خرافات، ہنسی مذاق ، جھوٹی داستانیں، اور قصے کہانیاں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔

قرآن کی اس آیت میں " لہو الحدیث" خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ مکہ کے بعض لوگ قرآن کریم کو چھوڑ کر قصے کہانیاں، ناچ گانے اور دیگر فضول خرافات میں مشغول ہورہے تھے اور اس پر اپنی دولت بھی لوٹا رہے تھے ۔

لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا " ھوواللہ الغناء،" خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے ‘‘۔ (ابن جریر ، ابن ابی شیبہ، حاکم بہقی )۔