قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول (قاعدہ ۔۲)

 قاعدہ دوم: الفاظ کی عمومیت معتبر ہے، نہ کہ نزول کے خاص اسباب

یہ قاعدہ نہایت نافع ہے، اس پر عمل کرنے سے بندے کو بے پناہ خیر اور وافر علم حاصل ہوتا ہے، جبکہ اس کی غفلت اور عدم لحاظ سے کثیر علم ضائع ہو جاتا ہے اور سنگین غلطیوں اور الجھنوں میں پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

یہ اصول محققین اصولیوں اور دیگر اہل علم کے درمیان متفق علیہ ہے۔ چنانچہ جب آپ اس قاعدے کی مکمل رعایت کریں گے اور یہ جان لیں گے کہ مفسرین نے جو اسبابِ نزول ذکر کیے ہیں، وہ محض الفاظ کو واضح کرنے کے لیے مثال کے طور پر بیان کیے گئے ہیں، اور یہ کہ آیات اور الفاظ کے معانی ان خاص اسباب پر ہی محدود نہیں ہیں، تو آپ کو اس قاعدے کی عظمت معلوم ہو جائے گی۔ مفسرین جب کہتے ہیں کہ "یہ آیت فلاں واقعے میں نازل ہوئی"، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ آیت اس واقعے پر بھی صادق آتی ہے اور اس کا ایک جزو ہے، لیکن آیت کا مفہوم صرف اسی پر منحصر نہیں، بلکہ دیگر مشابہ حالات پر بھی منطبق ہوتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، قرآن کریم پوری امتِ مسلمہ کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، خواہ وہ امت کے ابتدائی افراد ہوں یا آخری، اور جہاں بھی ہوں، جب بھی ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں غور و فکر اور تدبر کا حکم دیا ہے۔ پس جب ہم عمومی الفاظ پر غور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا مفہوم وسیع اور کئی امور کو شامل ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان میں سے بعض معانی کو خارج کر دیں، جبکہ ان جیسی دیگر مثالیں بھی انہی میں داخل ہیں؟ (۱)  اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:
"جب تم اللہ کا یہ ارشاد سنو: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا} (اے ایمان والو)، تو خوب غور سے سنو، کیونکہ اس میں یا تو کسی بھلائی کا حکم ہوتا ہے یا کسی برائی سے روکا جاتا ہے۔"

لہٰذا، جب بھی آپ کو اللہ کی صفات، اس کے اسماء، اس کے کمالات اور ان چیزوں کا ذکر ملے جن سے وہ پاک اور منزہ ہے، تو آپ ان تمام معانی کو جوں کا توں ثابت کریں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے، اور ان تمام نقائص سے اسے منزہ جانیں، جن سے اس نے خود کو پاک قرار دیا ہے۔ اسی طرح، اگر آپ کو اللہ کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت، اور تمام سابقہ اور آئندہ امور کے بارے میں کوئی خبر ملے، تو اس پر مکمل یقین رکھیں اور بلا شک و شبہ تسلیم کریں کہ وہ حقیقت پر مبنی ہے، بلکہ وہ اعلیٰ ترین درجے کی سچائی پر مشتمل ہے۔

جب اللہ کسی چیز کا حکم دیتا ہے تو اس کے معنی، اس میں داخل ہونے والی اور خارج ہونے والی چیزوں پر غور کرنا چاہیے، اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ حکم پوری امت کے لیے ہے، اسی طرح ممانعت کے احکام بھی سب پر لاگو ہوتے ہیں۔

اسی وجہ سے، رسول اللہ ﷺ پر نازل کیے گئے احکام کی حدود کو سمجھنا ہر بھلائی اور کامیابی کی بنیاد ہے، اور ان سے جہالت ہر برائی اور خسارے کی جڑ ہے۔

لہٰذا، اس قاعدے کا لحاظ رکھنا اللہ کے نازل کردہ احکام کی حدود کو جاننے اور ان پر عمل کرنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

قرآن نے بہترین معانی کو، جو سب سے زیادہ نفع بخش اور سچے ہیں، نہایت واضح اور بہترین الفاظ میں جمع کر دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا} (الفرقان: 33)
"وہ تمہارے پاس جو بھی مثال لائیں، ہم تمہارے پاس حق اور بہترین تفسیر (وضاحت) کے ساتھ لے آتے ہیں۔"

یہی بات اس قاعدے کی وضاحت اور اس کے طریقۂ کار کو بیان کرتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:(۱)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ عام الفاظ اپنے تمام افراد کو شامل کرتے ہیں۔ علماء نے کہا ہے کہ سببِ نزول کی صورت آیت میں قطعی طور پر داخل ہوتی ہے، جبکہ اس کے علاوہ دیگر مشابہ صورتوں کا داخل ہونا ظنی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، وہ عورت جس نے نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر اپنے شوہر کی شکایت کی تھی، وہ یقینی طور پر سورۂ مجادلہ میں مذکور ظہار کی آیت میں شامل ہے، جبکہ دیگر افراد کا اس میں شامل ہونا ظنی ہے۔ لیکن حکم ان سب پر یا تو عام الفاظ کی بنا پر لاگو ہوگا، یا عمومی معنوی قیاس کی بنیاد پر، کیونکہ ان میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔"

یہ بھی پڑھیں !