قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول ( قاعدہ ۔ ۱)

 قاعدہ اول: علم تفسیر کو حاصل کرنے کا طریقہ

جو شخص کسی راستے پر چلے اور کسی عمل کو اس کے درست طریقے سے انجام دے، اور اس تک پہنچنے کے دروازوں اور راستوں کو اختیار کرے، تو وہ یقیناً کامیاب ہوگا، اور اپنے مقصد تک پہنچ جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا}
(ترجمہ: "اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔" [البقرہ: 189])

اور جب کوئی مقصد جتنا زیادہ عظیم ہو، اتنا ہی اس معاملے کی تاکید بڑھ جاتی ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے بہترین اور سب سے درست راستہ اختیار کیا جائے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں، وہ سب سے اہم اور سب سے بلند مرتبہ ہے، بلکہ یہی تمام امور کی بنیاد اور اصل ہے۔

پس جان لو کہ یہ عظیم قرآن اللہ نے مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے، اور یہ ہر زمان و مکان میں سب سے زیادہ صحیح اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ}
(ترجمہ: "بے شک یہ قرآن اس راستے کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔" [الإسراء: 9])

لہٰذا لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو اسی طرح سمجھیں جیسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا۔ وہ جب بھی قرآن کی دس آیات پڑھتے، یا اس سے کم یا زیادہ، تو ان آیات کو اس وقت تک نہیں چھوڑتے تھے جب تک کہ وہ ان کے ذریعے ایمان، علم، اور عمل کے تقاضے کو اچھی طرح نہ سمجھ لیتے۔ وہ ان آیات کو اپنی عملی زندگی پر نافذ کرتے، ان میں موجود عقائد اور خبریں تسلیم کرتے، ان کے احکام اور ممانعتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے، اور انہیں اپنے اور دوسروں کی زندگی میں پیش آنے والے تمام حالات و واقعات پر لاگو کرتے۔ وہ اپنا محاسبہ کرتے کہ آیا وہ ان آیات کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں یا ان کے حقوق اور مطالبات میں کوتاہی برت رہے ہیں؟ اور یہ بھی دیکھتے کہ نفع بخش امور پر ثابت قدم رہنے، ان میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے، اور نقصان دہ چیزوں سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟

وہ قرآن کے علوم سے ہدایت حاصل کرتے، اس کے اخلاق و آداب کو اپناتے، اور جانتے کہ یہ عالم الغیب و الشہادہ کا خطاب ہے جو ان سے براہ راست کیا جا رہا ہے، اور وہ اس کے معانی کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

پس جو شخص اس راستے پر چلے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنایا، اور اللہ کے کلام میں تدبر اور غور و فکر میں محنت و جدوجہد کرے، وہی حقیقی ہدایت پائے گا۔ تو اس کے لیے تفسیر کے علم کا سب سے بڑا دروازہ کھل جائے گا، اس کی معرفت مضبوط ہو جائے گی، اس کی بصیرت روشن ہو جائے گی، اور وہ اس طریقے کے ذریعے تکلف آمیز تفسیروں اور غیر ضروری خارجی تحقیقات سے بے نیاز ہو جائے گا۔ خاص طور پر اگر اس نے عربی زبان کے علوم میں مہارت حاصل کی ہو، اور اسے نبی کریم ﷺ کی سیرت اور ان کے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ برتاؤ کا گہرا علم اور لگن ہو، تو یہ سب سے بڑا معاون ہوگا۔

جب بندہ یہ جان لے کہ قرآن ہر چیز کی وضاحت کرنے والا ہے، اور یہ تمام انسانی فوائد کو بیان کرنے، ان کی ترغیب دینے اور ہر نقصان دہ چیز سے روکنے کے لیے کافی ہے، اور جب وہ اس اصول کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے اور اسے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام واقعات پر لاگو کرے، تو اس پر اس کی عظمت، بے شمار فوائد اور برکات واضح ہو جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں !

قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول (قاعدہ ۔۲)