قرآن کی تفسیر کے لیے عمدہ اصول ( قاعدہ ۔ ۳)

 قاعدہ سوم: اوصاف اور اسماء اجناس پر داخل ہونے والا "الف" اور "لام" استغراق کو ظاہر کرتا ہے

اصولیین اور ماہرینِ لغت نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے، اور اہلِ علم و ایمان نے اس کے اعتبار پر اتفاق کیا ہے۔

مثلاً، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں:
{إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ... أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً} (الأحزاب: 35)
یہ اوصاف اپنے مفہوم میں ہر اس چیز کو شامل کرتے ہیں جو اسلام، ایمان، قنوت، صدق اور دیگر مذکورہ صفات کے معنی میں آتی ہے۔ اور جس شخص میں یہ صفات کامل ہوں، اسے ان پر مرتب اجر و مغفرت مکمل طور پر نصیب ہوں گے، اور اگر ان میں کمی ہو تو اجر بھی کم ہوگا، اور اگر بالکل نہ ہوں تو وہ اجر سے محروم رہے گا۔

اسی طرح ہر وہ وصف جس پر خیر، اجر اور ثواب مرتب کیا گیا ہے، وہ اسی اصول کے تحت ہوگا۔ اور اس کے برعکس، جو بھی صفت اللہ نے ممنوع قرار دی ہو اور اس پر عذاب، برائی اور نقصان مترتب ہو، اس کے حامل کو اسی مقدار میں اس کا نتیجہ ملے گا جس مقدار میں وہ اس وصف میں داخل ہوگا۔

مثلاً، اللہ تعالیٰ کا فرمان:
{إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا * إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا * وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا} (المعارج: 19-21)
یہ حکم نوعِ انسانی کے لیے عام ہے، یعنی ہر انسان کی فطرت میں یہ کمزوریاں شامل ہیں، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے مستثنیٰ کیا، جیسا کہ آگے فرمایا:
{إِلَّا الْمُصَلِّينَ} (المعارج: 22)

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان:
{وَالْعَصْرِ * إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ} (العصر: 1-2)
یہ آیت اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ ہر انسان کا انجام اور نتیجہ خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کا ذکر بعد میں کیا:
{إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} (العصر: 3)

ایسی مثالیں قرآن میں بکثرت موجود ہیں۔

اور اس قاعدے کوالأسماء الحسنى کی تفسیر میں سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء حسنی ذکر ہوئے ہیں، اور یہ قرآن کے سب سے عظیم علوم میں سے ایک ہیں، بلکہ قرآن کا اصل مقصد ہی یہی ہے۔

مثلاً، اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں فرمایا کہ وہ الرب الحي القيوم ہیں، وہ الملك ہیں، العليم ہیں، الحكيم ہیں، العزيز ہیں، الرحيم ہیں، القدوس ہیں، السلام ہیں، الحميد ہیں، المجيد ہیں۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جس کے پاس تمام معانی ربوبیت ہیں، اور یہ وہ صفات کمال ہیں جن کے باعث اللہ تعالیٰ لائقِ عبادت ہے۔ ان صفات میں کوئی شریک نہیں، اور یہ تمام محامد، فضل، اور احسانات اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس میں نہ بشر شریک ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ۔ سب مخلوقات، چاہے وہ انسان ہوں یا فرشتے، اللہ کے تابع اور اس کے زیرِ تسلط ہیں، ہر قسم کی ربوبیت میں وہ اللہ کے تابع ہیں، اور اللہ کی عظمت و جلال کے سامنے تمام مخلوق جھک گئی ہے۔ اس لیے کوئی مخلوق اس کے ساتھ شریک یا ہمسر نہیں ہو سکتی۔ {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} [الشورى: ١١] اللہ کی ربوبیت ہی کی بنیاد پر وہ تمام مخلوقات کی پرورش کرتا ہے، چاہے وہ ملائکہ ہوں یا انبیاء، ان کے لیے پیدا کرنا، رزق دینا، تدبیر کرنا، زندگی دینا اور موت دینا، سب کچھ اللہ کی حکمت اور قدرت سے ہوتا ہ۔

اللہ کی الہیت بھی اس کی ربوبیت کے تحت ہے، یعنی وہ واحد ہے جس کی عبادت کی جانی چاہیے، اور اسی کی ذات کو اللہ کے طور پر پکارا جانا چاہیے۔ اللہ ہی الملك ہے جس کے پاس تمام معانیِ الملک ہیں، یعنی وہ مکمل اور نافذ تصرف کا مالک ہے، اور تمام مخلوقات اس کے ملک میں اس کے حکم کے تابع ہیں، چاہے وہ تقدیری، شرعی، یا جزائی فیصلے ہوں۔ (۱)

اللہ العليم ہے، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے، وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس کا علم ہر خفیہ اور ظاہر، ہر ممکن اور مستحیل، ہر ضروری اور جائز چیز کو شامل ہے، اور وہ سب کچھ جانتا ہے جس کا علم مخلوق کو نہیں ہو سکتا۔ جیسے فرمایا: {ولا يحيطون بشيء من علمه إلا بما شاء وسع كرسيه السموات والأرض ولا يئوده حفظهما وهو العلي العظيم} [البقرة: 255]۔

اللہ الحكيم ہے، اس کا ہر فیصلہ اور حکم مکمل حکمت پر مبنی ہے، جو کچھ وہ پیدا کرتا ہے یا تقدیر میں لاتا ہے، وہ سب حکمت سے ہوتا ہے، اور اس کا کوئی بھی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا، چاہے وہ مخلوق ہو یا شرع۔ وہ العزيز ہے، یعنی اس کی تمام قسم کی عزت اور قوت ہے، اور وہ ہر چیز پر غلبہ رکھتا ہے۔ تمام مخلوق اس کے سامنے عجز و ذلت میں ہے، اور ہر مخلوق کو اس کے سامنے ضرورت اور محتاجی ہے۔

اللہ الرحمن و الرحيم ہے، یعنی اس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے، اور اس کا ہر مخلوق پر احسان اور برہ لمحات کے اندر جاری و ساری ہے۔ اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ جہاں اس کا علم پہنچتا ہے، وہاں تک اس کی رحمت بھی پہنچتی ہے۔{رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْماً} [غافر: 7] 

اور وہ القدوس السلام ہے، جو ہر عیب، آفت، نقص، اور کسی کے ساتھ مشابہت سے پاک اور منزہ ہے، اور اس کا کوئی شریک یا ہمسر نہیں۔

اسی طرح باقی تمام اسماء حسنیٰ کو اس عظیم قاعدہ کے ذریعے سمجھا جائے تو اللہ کی معرفت کا ایک عظیم دروازہ کھلتا ہے۔ حقیقت میں اللہ کی معرفت کا اصل طریقہ اس کی اسماء حسنیٰ کو سمجھنا ہے، جو بے شمار عظیم معانی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، اور ان معانی کو سمجھنا انسان کی استطاعت کے مطابق ہوتا ہے۔ ورنہ کوئی بھی مخلوق اللہ کی کامل معرفت کو نہیں پہنچ سکتی، اور نہ ہی کوئی اس کی حمد کو مکمل طور پر بیان کر سکتا ہے، بلکہ وہ اللہ جیسے خود کو بیان کرتا ہے، اور اس سے بڑھ کر کوئی نہیں۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْأِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [المائدة: 2]، یہاں البر (نیک کام) اور التقوی (پرہیزگاری) کا مفہوم تمام نیک کاموں اور ہر اس بات کو شامل کرتا ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہو۔ اور التقوی میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے بچنا ضروری ہو، جیسے خوفناک چیزیں، گناہ، اور حرام اعمال۔ الإثم (گناہ) ایک جامع لفظ ہے جو ہر اس عمل کو شامل کرتا ہے جو انسان کو گناہ میں مبتلا کرتا ہے اور جو معصیت کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح العدوان (ظلم) ایک جامع لفظ ہے جو لوگوں کے خون، مال، عزت پر زیادتی کرنے، اور امت یا حکومتوں کی حدود کو پامال کرنے کے تمام اقسام کو شامل کرتا ہے۔

"المعروف" قرآن میں ایک جامع لفظ ہے جو ہر وہ چیز شامل کرتا ہے جو شرعاً اور عقلاً اچھی اور پسندیدہ ہو، اور اس کے برعکس المنكر (بُری چیزیں) اور السوء (بدی) اور الفاحشة (بدکاری) ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس قاعدے کی طرف متوجہ کیا اور انہیں اس کا لحاظ رکھنے کی ہدایت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز میں تشہد کے دوران یہ کہنا سکھایا: "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين" (سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم یہ کہو گے تو تم نے زمین اور آسمان کے تمام صالح بندوں پر سلام بھیجا"۔ [رواه البخاري]

اور قرآن میں اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) (شیخ ابن عثيمين نے کہا: "احکام شرعی، کونی اور تقدیری ہیں کیونکہ جزائی احکام تقدیری میں شامل ہیں، کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو اللہ نے تقدیر میں مقرر کی ہیں، لیکن یہ بیان  تفصیل چاہیے۔")