سورۃ العصر قرآن مجید کی مختصر ترین سورتوں میں سے ہے، مگر اپنے معنی و مفہوم میں اتنی جامع اور عمیق ہے کہ سیدنا امام شافعیؒ نے فرمایا:
"اگر لوگ صرف اسی سورت پر غور کرلیں تو یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہو جائے۔"
یہ سورت گویا وقت (عصر) کو گواہ بنا کر انسان کو اس کی سب سے بڑی حقیقت سے روشناس کراتی ہے—یعنی خسارہ۔
دنیا کی سب سے قیمتی شے اگر کوئی ہے تو وہ وقت ہے، اور انسان کی سب سے بڑی غفلت یہ ہے کہ وہ وقت کو ضائع کر دیتا ہے۔
ترجمہ سورۃ العصر:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالْعَصْرِ
إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
ترجمہ:
قسم ہے زمانے کی!
بے شک انسان خسارے میں ہے،
سوائے ان کے جو ایمان لائے،
نیک عمل کیے،
اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی
اور صبر کی نصیحت کی۔
زمانے کی حقیقت:
سورۃ العصر کا آغاز اللہ تعالیٰ کی قسم سے ہوتا ہے:
"وَالْعَصْرِ"
یعنی "قسم ہے زمانے کی"۔
یہ ایک بیدار کرنے والا اعلان ہے۔
"عصر" یہاں صرف وقت نہیں بلکہ تاریخ، لمحہ، تغیر، اور انسانی زندگی کی گردش کا استعارہ ہے۔
اللہ زمانے کو گواہ بنا کر یہ بتاتا ہے کہ وقت کی شہادت کافی ہے کہ:
انسان بے مقصد بھاگ رہا ہے؛
وہ اپنی اصل منزل بھول چکا ہے؛
انسانی خسارے کی چار جہات:
قرآن نے واضح طور پر بیان کر دیا کہ ہر انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جن میں چار صفات پائی جائیں:
ایمان – یعنی شعورِ حقیقت، اللہ پر یقین، آخرت پر اعتماد۔
عملِ صالح – یعنی ایمان کی عملی تصویر، ایک مثبت اور بااخلاق زندگی۔
تواصی بالحق – یعنی سچائی کو اپنانا اور دوسروں کو اس کی طرف بلانا، ناصح بننا، نہ کہ خاموش تماشائی۔
تواصی بالصبر – یعنی راہِ حق پر ثابت قدم رہنا، مشکلات میں ڈٹے رہنا، برداشت اور حوصلے کے ساتھ۔
یہ چاروں صفات گویا انسان کو خسارے کی کھائی سے نکالنے کا راستہ ہیں۔
ادبی اور فکری نکتہ نظر سے:
یہ سورت محض تنبیہ نہیں بلکہ فلسفۂ وقت پر ایک گہری گفتگو ہے۔
یہ سورت انسان کو جھنجھوڑ کر سوال کرتی ہے:
تم کہاں جا رہے ہو؟
تمہارے دن رات کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟
تمہارا سرمایۂ عمر کن چیزوں میں صرف ہو رہا ہے؟
یہ سورت وجدان، عقل، اخلاق اور عمل کے درمیان توازن پیدا کرتی ہے۔
عصرِ حاضر میں سورۃ العصر کا پیغام:
آج کا انسان ہر چیز کو ڈیجیٹل، فوری، اور وقتی فائدے کے پیمانے سے ماپتا ہے۔
مگر سورۃ العصر اُسے ابدیت، صبر، اور سچائی کی دعوت دیتی ہے۔
یہ سورت وقت کی بازگشت ہے، جو کہتی ہے:
"جس نے وقت کو سمجھا، وہی کامیاب ہوا؛
اور جس نے وقت کو بیچ دیا، وہی سب کچھ ہار گیا۔"