قرآنِ مجید، ہدایت، نور، فرقان اور شفا کی کتاب ہے۔ اس کا ہر لفظ حکمت سے لبریز اور ہر آیت روشنی کا منبع ہے۔ مگر اس نورانی کلام کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کے لیے نہایت ذمہ داری، دیانت، علم، اور روحانی شعور کی ضرورت ہے۔ چودہ صدیوں سے مفسرینِ کرام نے قرآن کی تفہیم کے لیے اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں تاکہ کوئی شخص ذاتی خواہشات، باطل نظریات، یا بے بنیاد تاویلات کے ساتھ قرآن کی تفسیر نہ کرے۔
اس مضمون میں ہم ان اصولوں کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کرتے ہیں جو قرآن کی تفسیر کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں:
1. تفسیر القرآن بالقرآن
قرآن خود اپنی بہترین تفسیر کرتا ہے۔ بعض آیات کا مفہوم دیگر آیات سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن ایک مربوط اور مکمل کتاب ہے، جس کی کئی آیات ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں۔
مثال:
"صراطَ الّذین أنعمتَ علیہم" (الفاتحہ:7)
کی تفسیر خود قرآن میں موجود ہے:
"من یطع اللّٰہ والرّسول فاولٰئک مع الّذین أنعم اللّٰہ علیہم من النّبیین…" (النساء:69)
2. تفسیر القرآن بالسنۃ النبویہ
رسول اللہ ﷺ قرآن کے پہلے معلم، مبین اور عملی نمونہ تھے۔ آپ کی احادیث، اقوال، اعمال، اور تقریری سنت قرآن کی تشریح میں رہنما حیثیت رکھتی ہے۔ اگر قرآن کا کوئی مفہوم سنت سے واضح ہو جائے تو کسی اور تاویل کی گنجائش نہیں رہتی۔
3. اقوالِ صحابہؓ کی روشنی میں تفسیر
صحابہ کرامؓ نے براہِ راست قرآن نبی ﷺ سے سیکھا، وہ نزولِ قرآن کے وقت کے حالات و سیاق کو جانتے تھے، اور ان کی فہم و تفسیر حجت کی حیثیت رکھتی ہے، خصوصاً ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ، علیؓ، اور زیدؓ بن ثابت جیسے اکابر صحابہؓ۔
4. لغتِ عرب اور فصاحت کا فہم
قرآن ایک بلند پایہ عربی کتاب ہے۔ اس کی لغت، اسالیبِ بیان، اور محاورات کو جانے بغیر تفسیر میں فہم کی کمی رہ جاتی ہے۔ عربی زبان کے دقیق ادبی ذوق اور اس کے کلاسیکی اسلوب کو مدنظر رکھنا تفسیر کی بنیاد ہے۔
5. سیاق و سباق کی رعایت
کسی آیت کو اس کے ماقبل و مابعد آیات کے ساتھ دیکھنا نہایت ضروری ہے، تاکہ آیت کا مفہوم سیاق کے مطابق ہو اور غلط مفہوم یا اجتزاء (cherry picking) سے بچا جا سکے۔
6. اسبابِ نزول کی معرفت
کئی آیات مخصوص واقعات یا سوالات کے جواب میں نازل ہوئیں۔ ان کے پس منظر کو جاننا قرآن کو تاریخی تناظر میں سمجھنے اور اس کے پیغام کو بہتر طور پر اخذ کرنے کے لیے ضروری ہے۔
7. عقلِ سلیم اور تدبر کا استعمال
قرآن خود غور و فکر کی دعوت دیتا ہے:
"أفلا یتدبّرون القرآن؟"
(کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟)
تاہم یہ غور عقلِ سلیم اور فطرتِ مستقیم پر مبنی ہو، نہ کہ خواہش پرستی یا فلسفیانہ الحاد پر۔
8. اصولی اجتہاد اور فکری بصیرت
جہاں نصوص خاموش ہوں، وہاں اہل علم کے اجتہاد کو راہنمائی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ اجتہاد اصولِ شریعت، سنتِ نبوی اور قرآن کے عمومی مزاج کے تحت ہو۔
9. ہدایت، تزکیہ، اور روحانیت کی روشنی میں تفسیر
قرآن کا اصل مقصد "ھُدیٰ للناس" ہے۔ اس کی تفسیر میں ہدایت، اخلاق، تزکیہ نفس، اور انسانی فلاح کو مقدم رکھا جائے، نہ کہ محض لغوی موشگافی یا علمی نمائش کو۔
10. بدعات، باطل تاویلات اور ذاتی خواہشات سے اجتناب
قرآن کی تفسیر میں وہی رائے معتبر ہے جو نقلِ صحیح، فہمِ سلف، اور فطرتِ سلیم پر مبنی ہو۔ باطنی فرقوں، دہریہ مفکرین یا صوفیانہ غلو سے متاثر تاویلات قرآن کی روح کو مجروح کر دیتی ہیں۔
قرآن کی تفسیر، ایک علمی فریضہ ہی نہیں بلکہ ایک روحانی امانت ہے۔ یہ دل، عقل اور روح کا سفر ہے، جو قاری کو خالق سے جوڑتا ہے۔ جو شخص قرآن کی تفسیر کرنا چاہے، اسے نہ صرف علم، تقویٰ، اور فہمِ شریعت سے آراستہ ہونا چاہیے، بلکہ وہ قرآن کی عظمت، اس کے نزول کی حکمت، اور انسانی روح کی پیاس کو بھی سمجھے۔