قاعدہ : ۱۵ اللہ تعالیٰ نے جو اسباب بلند مطالب (یعنی بڑی نعمتوں اور عظیم کامیابیوں) کے لیے مقرر فرمائے ہیں، وہ دراصل "بشارتیں" ہیں، تاکہ دلوں کو اطمینان حاصل ہو، اور ایمان میں اضافہ ہو۔
یہ اصول قرآن کریم کی مختلف آیات میں واضح طور پر بیان ہوا ہے۔
نصرت (مدد) کی بشارت:
اللہ تعالیٰ نے جب ملائکہ کو مومنین کی مدد کے لیے نازل فرمایا، تو اس کا مقصد یوں بیان فرمایا:
وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ (الأنفال: 10)
"اور اللہ نے اسے صرف ایک خوشخبری بنایا، اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں۔"
رزق اور بارش کی بشارت:
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ (الروم: 46)
"اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ ہواؤں کو خوشخبریاں دے کر بھیجتا ہے، تاکہ تمہیں اپنی رحمت کا ذائقہ چکھائے۔"
اللہ کے دوستوں کے لیے ہمہ گیر بشارت:
ان تمام مثالوں سے زیادہ جامع اور بلند مرتبہ وعدہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (یونس: 62-64)
"خبردار! بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا، ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔"
یہ ہر وہ علامت اور دلیل ہوتی ہے جو مومن کو یہ باور کراتی ہے کہ اللہ نے اس کے لیے خیر کا ارادہ فرمایا ہے اور وہ اس کے منتخب بندوں میں شامل ہے۔ ان بشارتوں میں شامل ہیں:
-
لوگوں میں نیک شہرت،
-
صالح خوابیں،
-
اللہ کی لطافت و عنایت،
-
نیکی کے کاموں میں رغبت اور آسانی،
-
مشکلات سے حفاظت اور گناہوں سے دوری،
کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ (اللیل: 5-7)
"تو جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا، اور تقویٰ اختیار کیا، اور بہترین بات کو سچ مانا، تو ہم اسے آسانی کے لیے میسر کر دیں گے۔"
اور فرمایا:
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا (الطلاق: 4)
"اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔"
لہٰذا، اگر تم دیکھو کہ تمہارے معاملات میں آسانی ہے، تمہیں خیر کے دروازے اس طرح کھلتے محسوس ہوتے ہیں جن کا تم نے گمان بھی نہ کیا ہو، تو یہ اللہ کی طرف سے بشارت ہے۔
لیکن اگر اس کے برعکس ہو — یعنی معاملات میں سختی، رکاوٹ، اور بے برکتی ہو — تو اپنا راستہ درست کرو، کیونکہ اس میں آزمائش ہے۔
اور یاد رکھو! اگر دنیاوی نعمتیں کسی گناہ پر قائم شخص کو مل رہی ہوں، تو وہ بشارت نہیں بلکہ استدراج ہیں — یعنی اللہ کی طرف سے دھوکہ، جیسا کہ فرمایا:
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (الأعراف: 182)
"اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے، ایسے طریقے سے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔"
البتہ اگر یہ نعمتیں کسی مومن کو حاصل ہوں تو وہ استدراج نہیں بلکہ اللہ کی رضا کی علامت ہوتی ہیں۔
مصیبتوں میں چھپی بشارتیں:
اللہ تعالیٰ کی عنایت اس سے بھی زیادہ لطیف ہے — وہ شدائد اور مصیبتوں کو بھی نجات کی بشارت بنا دیتا ہے، اور تنگی کو آسانی کی نوید میں بدل دیتا ہے۔
اگر تم انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے قصوں پر غور کرو، تو تم پاؤ گے کہ جب ان پر حالات نہایت تنگ ہو گئے، زمین ان پر تنگ ہو گئی، اور وہ جھنجھوڑ دیے گئے، یہاں تک کہ:
وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (البقرۃ: 214)
"اور وہ سخت ہلا دیے گئے، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھی کہنے لگے: 'اللہ کی مدد کب آئے گی؟' سنو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔"
اور فرمایا:
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الشرح: 5-6)
"پس بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔"
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جان لو! کہ مدد صبر کے ساتھ ہے، کشادگی تنگی کے ساتھ ہے، اور ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔"
یہ مثالیں قرآن و حدیث میں بکثرت ہیں، اور ہر مومن کے لیے ایمان، تسلی، بصیرت اور راستہ دکھانے والی ہیں۔
واللہ اعلم۔