کیا فہم، ترجمہ اور تفسیر قرآن میں مداخلت ہے؟ ایک فتنہ انگیز مغالطے کا علمی رد

قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی ہے، جس میں کسی تحریف یا تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ اس بات پر ایمان ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ تاہم بعض افراد یہ فتنہ انگیز دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر، ترجمہ یا فہم پیش کرنا "قرآن میں مداخلت" ہے، اور اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ اس دعوے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ خود قرآن کو "مہجور" کرنے کے مترادف ہے، نہ کہ اس کا دفاع۔

فہمِ قرآن کا انکار، قرآن کے مقصد کا انکار ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ذکر، ہدایت، نور، فرقان اور "بیان للناس" کے طور پر نازل فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ" (ص: 29)

اگر قرآن صرف تلاوت کے لیے ہوتا، اور اس کا مفہوم سمجھنا "مداخلت" ہوتا، تو یہ آیت تدبر کی دعوت کیوں دیتی؟ کیا اللہ نے اپنی کتاب کو فقط غیرسمجھ دار مخلوق کے لیے نازل فرمایا؟ ہرگز نہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فریضہ صرف تلاوت نہ تھا، بلکہ "تبیین" بھی تھا

قرآن فرماتا ہے:

"وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ" (النحل: 44)

یہ آیت واضح طور پر رسول ﷺ کے فہم، بیان، اور تفسیر کو اللہ کا مأمور عمل قرار دیتی ہے۔ اور یہ عمل رسول کے بعد صحابہ، تابعین اور امت کے علماء کے ذریعے جاری رہا، جنہوں نے اصولوں کے ساتھ تفسیر کا علم مدون کیا۔

ترجمہ و تفسیر مداخلت نہیں، فہم کی راہ ہے

قرآن کی زبان عربی ہے، جبکہ دنیا کے اکثر انسان غیر عرب ہیں۔ اگر ترجمہ و تفسیر ممنوع ہوتا، تو غیر عربی دنیا کے لیے قرآن کا پیغام کیسے پہنچتا؟ کیا وہ قرآن کو بغیر سمجھے پڑھتے رہتے؟ کیا یہ قرآن کی "بلاغت" کا انکار نہیں؟ خود قرآن کہتا ہے:

"وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ" (ابراہیم: 4)

یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ وحی کا پیغام لوگوں کی زبان میں سمجھانا اللہ کے قانونِ ہدایت کا حصہ ہے۔

تفرقہ تفسیر سے نہیں، تعصب سے پیدا ہوتا ہے

تاریخِ اسلام میں جو فرقے پیدا ہوئے، ان کی بنیاد باطل تاویلات، گروہی تعصبات، سیاسی مفادات اور بدعتی نظریات تھے، نہ کہ علمی، دیانت دارانہ تفسیر۔ امام طبری، قرطبی، ابن کثیر، فخرالدین رازی، زمخشری، شوکانی، آلوسی، اور دیگر مفسرین نے قرآن کی خدمت کی، نہ کہ اس میں مداخلت۔ اگر تفسیر فتنہ ہے، تو پوری علمی اسلامی روایت کو جھٹلانا لازم آئے گا — جو خود ایک فتنہ اکبر ہے۔

قرآن کو مہجور بنانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسے صرف الفاظ کی حد تک محدود کر دیا جائے

قرآن کہتا ہے:

"وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا" (الفرقان: 30)

قرآن کو "مہجور" بنانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسے صرف زبانی تلاوت تک محدود کر کے، فہم، عمل، تدبر، اور تبیین سے روکا جائے۔ جو لوگ ترجمہ و تفسیر کو فتنہ کہہ کر روکنا چاہتے ہیں، وہ دراصل قرآن کو "رسمی کتاب" بنا دینا چاہتے ہیں، ہدایت کی کتاب نہیں۔

قرآن میں کسی قسم کی تحریف یا من گھڑت تاویل یقینا جرم ہے، مگر علمی اصولوں، تقویٰ، دیانت اور امت کے اجماعی منہج کے مطابق ترجمہ و تفسیر قرآن کی خدمت ہے، مداخلت نہیں۔ اس خدمت کو "وسوسہ" کہنا دراصل خود ایک وسوسہ اور فتنہ ہے۔ امت کے نوجوانوں کو اس فتنہ انگیز مغالطے سے بچانا ضروری ہے۔