عنوان : قرآن حکیم اور ہماری زندگی

آج ہمارا ملک اور معاشرہ ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ہم دشمن کی سازشوں، ستم ظریفیوں اور بیرونی دباؤ کا شکار ہیں، تو دوسری طرف ہم خود اپنے کردار کی پستی، اخلاقی انحطاط، اور اجتماعی بداعمالیوں سے اس وطن کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ گویا ہم بیرونی دشمن سے زیادہ اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن ، یعنی نفس، حرص، جھوٹ، ظلم اور ناانصافی کے ہاتھوں شکست کھا رہے ہیں۔

یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ کیا ہماری بربادی کا سبب صرف بیرونی سازشیں ہیں؟ نہیں! اصل زوال تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب قومیں اپنے اخلاق، عدل، دیانت، حیاء اور امانت کو کھو بیٹھتی ہیں۔ اور یہی کچھ آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔

ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں، وہاں جھوٹ، فریب، حسد، حرص، بےحیائی، رشوت، ظلم، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، غیبت، بدگمانی، اور نفس پرستی جیسی بیماریاں جڑیں پکڑ چکی ہیں۔ یہ برائیاں صرف انفرادی اخلاق کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی زوال کی علامت بن چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟ اور کس روشنی سے اپنی راہوں کو منور کریں گے؟

قرآن مجید، جو سراسر ہدایت ہے، ہمیں ان تمام برائیوں سے بچنے اور ایک صالح معاشرہ قائم کرنے کے لیے واضح رہنمائی دیتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 22 تا 39 کو اگر ہم غور سے پڑھیں، تو ہمیں ایک مکمل ضابطۂ حیات ملتا ہے — ایک ایسا اخلاقی آئین جو کسی بھی معاشرے کو امن، عدل اور خیر کی بنیادوں پر استوار کر سکتا ہے۔

آیات کی تلاوت کریں

؀لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا 22؀ۧوَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا 23؀وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا 24؀ۭرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِيْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًا 25؀وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26؀اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا 27؀وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا 28؀وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا 29؀اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا 30؀ۧوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا 31؀وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا 32؀وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۭ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ ۭ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا 33 ؀وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ حَتّٰى يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۠وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚاِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا 34؀وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35؀وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا 36؀وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا 37؀كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَيِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا 38؀ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۭ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا 39؀

ترجمہ (سید ابوالاعلی مودودی ؒ )

"تو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بےیار و مددگار بیٹھا رہ جائے گا۔

تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو گے، مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو،اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ " پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگزر کرنے والا ہے جو اپنے قصور پر متنبہ ہو کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئیں ۔

رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو ۔فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ اگر ان سے ﴿یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے﴾ تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو۔ نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔ تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔

اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔

زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت برا فعل اور بڑا ہی برا راستہ۔

قتل نفس (جان) کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کے وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے گی ۔

مال یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنے شباب کو پہنچ جائے۔

عہد کی پابندی کرو، بےشک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔

پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی یہی بہتر ہے۔

کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔

ان امور میں سے ہر ایک کا برا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے رب نے تجھ پر وحی کی ہیں ۔

اور دیکھ! اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا ملامت زدہ اور ہر بھلائی سے محروم ہو کر ۔"