بت پرستی کی حقیقت


قدیم ترین زمانہ سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ جس چیز میں بھی کوئی امتیاز یا کوئی پراسراریت دیکھتا ہے اس کو وہ خدا کا شریک سمجھ لیتا ہے۔ 


اور اس سے مدد لینے یا اس کی آفتوں سے بچنے کے لیے اس کو پوجنے لگتا ہے۔ اسی ذہن کے تحت بہت سے لوگوں نے فرشتے اور کواکب اور جنات کو پوجنا شروع کردیا۔ حالاں کہ ان چیزوں کے خدا نہ ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اندر "خلق" کی صفت نہیں۔ انہوں نے نہ اپنے آپ کو پیدا کیا اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ ان کو خود کسی دوسری ہستی نے تخلیق کیا ہے۔ پھر جو خالق ہے وہ خدا ہوگا یا جو مخلوق ہے وہ خدا بن جائے گا۔ 

ایک درخت کو کمال درجہ موزونیت کے ساتھ وہ تمام چیزیں پہنچتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح کائنات کی تمام چیزوں کا حال ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ ان چیزوں کو جو کچھ ملتا ہے کسی دینے والے کے دیے سے ملتا ہے تو یقینا دینے والا ہر جزء و کل سے باخبر ہوگا۔ اگر وہ ان سے باخبر نہ ہو تو ہر چیز کی اس کی عین ضرورت کے مطابق کارسازی کس طرح کرے۔ اب جو خدا اتنی کامل صفات کا مالک ہو وہ آخر کس ضرورت کے لیے کسی کو اپنی خدائی میں شریک کرے گا۔ 

انسان خدا کو محسوس صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب وہ اس کو محسوس صورت میں نظر نہیں آتا تو وہ دوسری محسوس چیزوں کو خدا فرض کرکے اپنی ظاہر پرستی کی تسکین کرلیتا ہے۔ مگر یہ خدا کی ہستی کا بہت کمتر اندازہ ہے آخر جو خدا ایسا عظیم ہو کہ اتنی بڑی کائنات پیدا کرے اور انتہائی نظم کے ساتھ اس کو مسلسل چلاتا رہے، وہ اتنا معمولی کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک کمزور مخلوق اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے ہاتھوں سے چھوئے۔ البتہ انسان دل کی راہ سے خدا کو پاتا ہے اور یقین کی آنکھ سے اس کو دیکھتا ہے۔ جو شخص بصیرت کی انکھ سے دیکھ کر ماننے پر راضی ہو وہی خدا کو پائے گا۔ جو بصارت سے دیکھنے پر اصرار کرے وہ خدا کو پانے سے اسی طرح محروم رہے گا جس طرح وہ شخص پھول کی خوشبو کو جاننے سے محروم رہتا ہے جو اس کو کیمیائی معیاروں پر پرکھ کر جاننا چاہے ۔