ربَّاِنیَت - مولانا وحید الدین خان

اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے، یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پا لیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں چاہے اس کا پیغام "اسرائیلی پیغمبر" کی زبان سے بلند ہو یا "اسماعیلی پیغمبر" کی زبان سے۔


جب آدمی کے دل میں ایمان زندہ ہو تو ہر واقعہ کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے۔ وہ پھول کی خوشبو کو اس وقت سمجھتا ہے جب کہ اس میں اسے خدا کی مہک مل جائے۔ وہ سورج کو اس وقت دریافت کرتا ہے جب کہ وہ اس کے خالق کو معلوم کرلے۔ ہر چیز اس کو خدا کا عطیہ نظر آتی ہے۔ ہر خوبی اس کو خدا کا احسان یاد دلاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر خدا سے آدمی کا تعلق گھٹ کر صرف توہمات اور خرافات کے درجہ پر آجائے تو خدا اس کے لیے ایک موہوم چیز بن جائے گا۔ وہ دنیا کی نظر آنے والی چیزوں پر خدا کو قیاس کرنے لگے گا ۔ وہ خالق کو ان دنیوی چیزوں کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں جن کو وہ جانتے ہیں۔ خالق کو مخلوق کی سطح پر اتار لاتے ہیں۔ یہی حال یہود و نصاری کا اپنے بگاڑ کے زمانہ میں ہوا۔ اب خدا ان کے یہاں موہوم معتقدات کے خانہ میں چلا گیا۔ چنانچہ وہ اپنے نظر آنے والے اکابر اور بزرگوں کو وہ درجہ دینے لگے جو درجہ خدائے عالم الغیب کو دینا چاہئے۔ انہوں نے دیکھا کہ یونانی اور رومی قومیں سورج کو خدا بنا کر اس کے لیے بیٹا فرض کیے ہوئے ہیں تو ان کو بھی اپنے بزرگوں کے لیے یہی سب سے اونچا لفظ نظر آیا۔ انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں اب(باپ) اور ابن (بیٹا) کے الفاظ کی خود ساختہ تشریح کرکے خدا کو باپ اور اپنے پیغمبر کو اس کا بیٹا کہنا شروع کردیا۔ حالاں کہ خدا صرف ایک ہی ہے، وہ ہر مشابہت سے پاک ہے۔


پھر آسمانی تعلیمات کو خود ساختہ معنی پہنانے اور اپنی بد پرستانہ روش کو خدا پرستی ثابت کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں کبھی خدا کے الفاظ کو بدل کر اور کبھی خدا کے الفاظ کی اپنے مطلب کی تشریح کرکے۔ وہ اپنے آپ کو بلند کرنے کے بجائے کتاب الٰہی کو بدل دیتے ہیں تاکہ جو چیز کتاب الٰہی میں نہیں ہے اس کو عین کتاب الٰہی کی بنا دیں۔


کسی تعلیم کی صداقت کی سادہ اور یقینی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملائے، لوگوں کے خوف و محبت کے جذبات کو بیدار کرکے اس کو اللہ کی طرف موڑ دے۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں ربانیت یا خداپرستی یا یکتا پرستی کہتے ہیں ۔ اس کے برعکس جو تعلیم شخصیت پرستی یا توہم پرستی پیدا کرے، جو انسان کے ناز ک جذبات کا مرکز توجہ کسی غیر خدا کو بناتی ہو، اس کے متعلق سمجھنا چاہیے کہ وہ سراسر باطل ہے خواہ بظاہر اپنے اوپر اس نے حق کا لیبل کیوں نہ لگا رکھا ہو ۔ اس حقیقت کو قرآن نے یوں بیان کیا ، ارشاد باری تعالی ہے : 


مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ (79) وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (80) : ( سورہ آل عمران)


ترجمہ : کسی انسان کا یہ کام نہیں کہ اللہ اس کو کتاب اور حکمت اور نبوت دے اور وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم اللہ والے بنو، اس واسطے کہ تم دوسروں کو کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور خود بھی اس کو پڑھتے ہو۔ اور نہ وہ تمہیں یہ حکم دے گا کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بناؤ۔ کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا، بعد اس کے کہ تم اسلام لا چکے ہو۔

(تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں )